حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند صاحبزادہ طاہر محمود گزشتہ دنوں انتقال کر گئے ہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ حضرت قاسمیؒ کے رفقاء و احباب بھی اس غم میں خاندان قاسمی کے ساتھ شریک ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
میرے حفظ قرآن کریم کے استاذ حضرت قاری محمد انور صاحب دامت برکاتہم کو میرے بارے میں اس بات کا بہت فکر رہتا تھا کہ مجھے اچھی تقریر کرنی چاہیے۔ اس دور میں کچھ جملے رٹا کر مجھے کلاس میں کھڑا کر دیتے تھے۔ بلکہ ان کے استاذ محترم حضرت مولانا قاری سید محمد حسن شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی ان کی دعوت پر گکھڑ تشریف لاتے تو ان کے وعظ کا اہتمام ہوتا تھا۔ قاری صاحب محترم نے ایک روز ان سے قبل پبلک جلسہ میں مجھے کچھ باتیں یاد کرا کے تقریر کے لیے کھڑا کر دیا جس میں مرزا قادیانی کے بارے میں بعض سخت باتیں کہنے پر مجھے حضرت والد محترمؒ سے ڈانٹ بھی پڑی تھی۔
حضرت قاری محمد انور صاحب مدظلہ بحمد اللہ تعالیٰ ابھی بقید حیات ہیں اور گزشتہ تقریباً چار عشروں سے مدینہ منورہ میں تحفیظ القرآن الکریم کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں، آمین یا رب العالمین۔
ایک بار انہوں نے ہم چند شاگردوں کو اپنے گھر بلا کر ٹیپ ریکارڈر سے ایک تقریر سنوائی اور مجھے کہا کہ تم بھی اس طرح تقریر کیا کرو۔ یہ تقریر حضرت مولانا قاری عبد الحئی عابد رحمہ اللہ تعالیٰ کی تھی جو میں نے زندگی میں پہلی بار سنی اور اچھی لگی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ ان کے بڑے بھائی ہیں اور ان سے بھی اچھی تقریر کرتے ہیں۔ تو انہیں دیکھنے اور سننے کا شوق پیدا ہوا۔ اب یاد نہیں کہ قاسمی صاحبؒ کی پہلی تقریر کہاں سنی مگر یہ حقیقت ہے کہ زندگی میں ان کی اتنی تقریریں سنیں کہ شمار کرنا مشکل ہے۔ بلکہ میں چوک گھنٹہ گھر گوجرانوالہ اور گکھڑ کی جامع مسجد میں ان کی تقریروں کا اہتمام کرنے والوں میں بھی شامل تھا۔ یہ بریلوی دیوبندی کشمکش کے عروج کا زمانہ تھا۔ آغا شورش کاشمیریؒ نے صحافتی محاذ پر اس کشمکش کو انتہا تک پہنچا دیا تھا اور میں پرجوش اور جذباتی دیوبندی کارکنوں میں پیش پیش رہتا تھا۔ مگر جمعیۃ طلباء اسلام اور پھر جمعیۃ علماء اسلام میں بطور کارکن متحرک ہونے سے میرا رخ نفاذِ اسلام کی سیاسی جدوجہد کی طرف مڑ گیا اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، اور حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی خدمت و رفاقت میں مسلسل رہنے کی وجہ سے میں ہمیشہ کے لیے انہی کا شریکِ سفر بن گیا، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
کچھ عرصہ بعد جب حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ جمعیۃ علماء اسلام میں شامل ہوئے اور انہیں پنجاب کی صوبائی جمعیۃ کا سیکرٹری جنرل چنا گیا تو ان کے ساتھ میری رفاقت پھر ٹریک پر آگئی، بلکہ انہی کی تجویز و تحریک پر مجھے صوبائی جمعیۃ کا سیکرٹری اطلاعات بنا دیا گیا۔ حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ صوبائی امیر تھے۔ قاسمی صاحبؒ سیکرٹری جنرل تھے اور میں سیکرٹری اطلاعات تھا۔ جبکہ باقی صوبائی ٹیم میں حضرت مولانا محمد رمضانؒ آف میانوالی، حضرت مولانا سید نیاز احمد گیلانیؒ ، حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ ، حضرت مولانا قاری نور الحق قریشیؒ ایڈووکیٹ اور حضرت مولانا محمد ابراہیمؒ انارکلی لاہور نمایاں تھے۔
ہمارا یہ سفر اس وقت تک جاری رہا جب مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور مولانا مفتی محمودؒ کے درمیان بعض سیاسی امور پر اختلافات کے باعث مولانا ہزارویؒ کے نام سے ایک الگ دھڑا منظر عام پر آگیا۔ اور حضرت مولانا عبد الحکیمؒ ، حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ ، حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی اور دیگر بہت سے حضرات اس کا حصہ بنے۔ جبکہ میں حضرت درخواستیؒ ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ ، اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ ہی رہا۔ زندگی کی گاڑی اسی طرح چلتی رہی مگر ہم نے الگ الگ محاذوں پر رہتے ہوئے بھی مسلکی شعبہ میں باہمی تعاون و رفاقت کو خیرباد نہیں کہا۔ بہت سے اجتماعات اور پروگراموں میں اکٹھے شریک ہوتے رہے اور ایک دوسرے سے تعلقات کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔
۱۹۸۴ء میں سیالکوٹ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ مولانا محمد اسلم قریشی اغوا ہوئے تو قادیانیوں کے خلاف جدوجہد کے ایک نئے مرحلہ کا آغاز ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے ملک گیر مہم کی صورت اختیار کر گیا۔ اس کی ابتدائی مشاورت میرے گھر میں ہوئی تھی، فیصل آباد سے حضرت مولانا تاج محمودؒ اور حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری جنرل حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ کے ہمراہ گوجرانوالہ میں تشریف لائے۔ گوجرانوالہ کے مولانا حکیم عبد الرحمن آزادؒ ، علامہ محمد احمد لدھیانویؒ ، ڈاکٹر غلام محمدؒ ، اور دیگر سرکردہ حضرات کے ساتھ میرے گھر میں مشاورت ہوئی اور طے پایا کہ کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان کو دوبارہ متحرک کیا جائے۔ چنانچہ حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کی سربراہی میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل مرکزی مجلس عمل قائم ہوئی جس کے سیکرٹری جنرل مولانا مفتی مختار احمد نعیمیؒ اور رابطہ سیکرٹری مولانا اللہ وسایا بنے۔ جبکہ سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داری راقم الحروف کو سونپی گئی۔ ملک بھر میں جلسوں، جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے مرکزی خطباء میں حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ سر فہرست تھے۔ اس دوران وہ پابند سلاسل بھی ہوئے اور ہم سب مختلف پابندیوں کا شکار ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ امتناع قادیانیت کا صدارتی آرڈیننس آگیا اور یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
اس سے اگلے سال لندن کے ویمبلے ہال میں عالمی ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کا اہتمام حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی مدظلہ کی سربراہی میں انٹرنیشنل ختم نبوت مشن نے کیا تھا جو بعد میں مختلف مراحل سے گزر کر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے نام سے متعارف ہوا۔ جبکہ لندن اور پھر برمنگھم میں منعقد ہونے والی سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس کا اہتمام مجلس تحفظ ختم نبوت نے سنبھال لیا۔ اس میں حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ ، حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ اور برطانیہ کے کچھ علماء سرگرم تھے۔ مجھے مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کی تجویز و تحریک پر اس گروپ میں شامل کیا گیا۔ میں ان کے ساتھ لندن کا پہلا سفر کر کے اس کانفرنس کی تیاری میں بحمد اللہ تعالیٰ کم و بیش ایک ماہ شریک رہا اور کانفرنس میں خطاب کے علاوہ اس کی رپورٹنگ کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ واپسی پر ہم نے اس سال حج بھی اکٹھے کیا اور پھر تحریک ختم نبوت اور دیگر دینی تحریکات میں ہماری مشترکہ شرکت و رفاقت آخر وقت تک جاری رہی۔ بعد میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام برمنگھم میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنسوں میں حاضری کا سالہا سال تک شرف حاصل ہوتا رہا۔
صاحبزادہ طاہر محمود مرحوم کی وفات پر یہ چند باتیں بے ساختہ نوک قلم پر آگئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ ، مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ ، صاحبزادہ طاہر محمود قاسمیؒ اور اس خاندان کے دیگر مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور ان کے خاندان اور رفقاء و احباب کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔