حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضورؐ کے ساتھ دس سال بطور خادم کے گزارے ہیں۔ کہتے ہیں اپنی ماں کی بات کرتے ہوئے انس بن مالکؓ کہ میری ماں بڑی سیانی تھی۔ ماں کا سمجھدار ہونا، اولاد بن جاتی ہے سنور جاتی ہے۔ کہتے ہیں میری ماں بہت سمجھدار تھی، دو واقعے بیان کرتے ہیں۔
کہتے ہیں جب حضورؐ ہجرت کر کے تشریف لائے تو میرے والد صاحب چلے گئے تھے ناراض ہو کر، تو میری والدہ تھیں اور میں تھا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا حضورؐ کی خدمت میں آئیں، یا رسول اللہ! انصارِ مدینہ کے ہر گھر نے آپؐ کی کچھ نہ کچھ خدمت کی ہے۔ میں ایک بے سہارا عورت ہوں، خاوند میرا چلا گیا ہے، پتہ نہیں کہاں گیا ہے، ایک بیٹا میرے پاس ہے، انس، میں یہی آپ کے لیے وقف کرتی ہوں، آج کے بعد میرا نہیں آپؐ کا ہے، یہ آپ کی خدمت کرے گا، آپؐ کا خادم ہو گا۔ کہتے ہیں کہ مجھے حضورؐ کے حوالے کر گئیں۔ دس سال کی عمر میں حضورؐ کی خدمت میں آیا، دس سال میں نے حضورؐ کے ذاتی خادم کے طور پر خدمت کی، اور اکیس سال میری عمر تھی جب حضورؐ کا وصال ہوا۔ ایک بات تو یہ کہتے ہیں کہ میری ماں کتنی سیانی عورت تھی کہ میرے بارے میں کیا فیصلہ کیا اس نے کہ میرا ہاتھ حضورؐ کے ہاتھ میں دے کر چلی گئی۔
ایک واقعہ اور بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حضور نبی کریمؐ مدینہ منورہ میں عام طور پر لوگوں کے گھروں میں نہیں جایا کرتے تھے، یہ حضورؐ کا معمول نہیں تھا، اپنا گھر، مسجد، ضرورت کی جگہ، لیکن ہمارے گھر میں آیا کرتے تھے۔ کبھی ہوتا ہے کہ تھوڑا الگ ہو کر آرام کرنا ہے، ہجوم زیادہ ہے، مصروفیت زیادہ ہے، کبھی کبھی ہمارے گھر میں آیا کرتے تھے۔ ام سلیمؓ اور ام حرامؓ دونوں بہنیں تھیں، اور بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ رضاعی طور پر دودھ کے رشتے میں حضورؐ کی خالہ بھی لگتی تھیں۔ خیر، بہرحال۔ حضورؐ تشریف لایا کرتے تھے تو ہم، جو خدمت ہوتی، کرتے۔ ایک دن کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ تشریف لائے، چاشت کا وقت تھا، میری والدہ محترمہ نے درخت کے نیچے چارپائی بچھا کر دی کہ آرام فرما لیں، آرام فرما کر اٹھے تو میری والدہ نے کچھ کھجوریں، پانی، دودھ وغیرہ پیش کیا خدمت کے لیے۔ اٹھے، وضو کیا اور دو رکعت پڑھی چاشت کی۔ جب نماز پڑھ کر دعا مانگ رہے تھے، یہاں انسؓ کہتے ہیں میری ماں کتنی سیانی تھی، میرا ہاتھ پکڑا، جا کر سامنے کھڑا کر دیا ’’خویدمک یا رسول اللہ’’ یا رسول اللہ! آپ کا بچہ ہے نوکر ہے اس کے لیے دعا فرما دیں۔ حضورؐ بھی موج میں تھے۔ انسؓ کہتے ہیں حضورؐ نے مجھ سے پوچھا، انس! کیا دعا مانگوں تمہارے لیے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! لمبی عمر چاہیے، بہت پیسے چاہئیں، بہت اولاد چاہیے۔
خود سو سال سے زیادہ عمر پائی ہے، آخر عمر تک بالکل سیدھے تھے۔ فرماتے ہیں، اپنی اولاد کے بارے میں کہ اپنی زندگی میں بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، جو اپنے ہاتھ سے دفن کر چکا ہوں وہ ۹۰ کے لگ بھگ ہیں، اور ۲۰۰ موجود تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کہتے ہیں کہ تقریباً ۲۰۰ موجود تھے، اللہ نے اتنی رونق لگائی۔
کوئی دوست مسئلہ پوچھتا ہے کہ ختمِ قرآن کریم پر جلسہ کرنا کیسا ہے تو میں کہا کرتا ہوں کہ انس بن مالکؓ کے بارے میں آتا ہے کہ اپنے ہر ختم قرآن پر خاندان والوں کی دعوت کرتے تھے، اور انس بن مالکؓ کے خاندان کی دعوت ہمارے کسی بھی درمیانے جلسے سے بڑی ہوتی تھی۔
عمر تو سو سال سے زیادہ پائی ہے۔ کہتے ہیں کہ اپنے مال کے بارے میں اندازے سے بھی نہیں بتا سکتا کہ میرے پاس کتنا مال ہے۔ حضورؐ کی دعا کی برکت تھی۔
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ دس سال میں نے حضورؐ کے ساتھ ذاتی خادم کے طور پر گزارے ہیں، کبھی کسی بچے پر، کبھی کسی عورت پر حضورؐ نے ہاتھ نہیں اٹھایا۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورؐ نے مجھے کسی کام بھیجا، میں باہر گیا بچے کھیل رہے تھے، کھیلنا شروع کر دیا اور بھول ہی گیا کہ مجھے کسی کام بھیجا ہے، بچہ تھا میں، دس بارہ سال کا لڑکا، میرے ہم جولی گلی میں کھیل رہے تھے میں بھی کھیل میں لگ گیا، کافی دیر گزر گئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے تو انس کھیل رہا ہے۔ اوہو! مجھے یاد آیا کہ مجھے کام بھیجا تھا میں یہاں کھیل رہا ہوں۔ حضورؐ تشریف لائے، یوں میرے سر پر ہاتھ رکھا، یوں کان پکڑ کر تھوڑا سا، انس! تجھے کسی کام بھیجا تھا؟ یا رسول اللہ! جاتا ہوں، ابھی جاتا ہوں، میں بھاگا وہاں سے۔ کہتے ہیں بس یہ۔ انسؓ کہتے ہیں کہ کبھی کسی بچے پر، کبھی کسی عورت پر حضورؐ نے ہاتھ نہیں اٹھایا۔