قائد جمعیۃ مولانا مفتی محمود کا دورۂ لاہور ڈویژن

   
۱۴ دسمبر ۱۹۷۳ء

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب یکم دسمبر کو لاہور ڈویژن کے تین روزہ دورے پر تشریف لائے۔ اس روز آپ ظہر کے بعد گوجرانوالہ پہنچے اور حضرت مولانا عبد الواحد صاحب سے ملاقات کے بعد ڈسکہ روانہ ہو گئے۔

رات کو دارالعلوم مدنیہ ڈسکہ کی وسیع گراؤنڈ میں مقامی جمعیۃ کے زیر اہتمام عظیم الشان جلسہ عام منعقد ہوا، جس کی صدارت جمعیۃ سیالکوٹ کے امیر پیر محمد بشیر صاحب نے کی۔ ضلعی نائب امیر مولانا محمد فیروز خان نے قائد جمعیۃ کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا، اور الحاج سید امین گیلانی نے تازہ کلام سے حاضرین کو گرمایا۔ اس کے بعد قائد محترم نے مفصل خطاب فرمایا۔ خطاب کے بعد ضلعی جمعیۃ کے عہدیداروں سے تنظیمی امور پر تبادلۂ خیالات فرمایا۔

۲ دسمبر کو صبح دس بجے گوجرانوالہ تشریف لائے۔ جامع مسجد شیرانوالہ باغ کے قریب جماعتی کارکن شیخ محمد نسیم صاحب کی قیام گاہ پر کارکنوں کا عظیم اجتماع موجود تھا۔ احباب ضلع کے دور دراز علاقوں سے قائد جمعیۃ کے ارشاداتِ عالیہ سے مستفید ہونے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اس اجلاس کی صدارت حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب نے کی۔ الحاج سید امین گیلانی صاحب نے کلام پیش کیا، اور مفتی اعظم نے ملکی حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

یہاں سے فارغ ہونے کے بعد لاہور میں صوبائی اسمبلی کے ضمنی الیکشن کے سلسلہ میں متحدہ جمہوری محاذ کے انتخابی جلسہ میں شرکت کے لیے سوڈیوال لاہور تشریف لائے اور ایک عظیم جلسہ سے خطاب فرمایا۔

اس کے بعد مغرب کی نماز سے قبل گکھڑ پہنچے۔ جمعیۃ کے ممتاز کارکن جناب ملک عبد القیوم اختر صاحب نے اپنی قیام گاہ پر کارکنوں کے خطاب کا اہتمام کر رکھا تھا۔ مگر ہجوم کی زیادتی کے باعث فوری طور پر خطاب کا پروگرام جامع مسجد میں رکھ لیا گیا۔ نمازِ مغرب کے بعد جامع مسجد میں مفتی اعظم نے خطاب فرمایا۔ خطاب کے بعد ملک اختر صاحب کی رہائش گاہ پر کھانا کھایا اور بعد ازاں مقامی نامہ نگاروں سے گفتگو فرمائی۔ رات مقامی جمعیۃ کے امیر صوفی نذیر احمد صاحب کی رہائش گاہ پر آرام کیا۔

اور ۳ دسمبر کی صبح کو اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ اس دورہ میں مدیر ترجمان اسلام کے علاوہ حضرت مولانا سعید احمد رائے پوری بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ مختلف اجتماعات و تقریبات میں خطاب کے دوران مفتی اعظم نے ملکی مسائل و حالات پر مفصل روشنی ڈالی۔ اہم نکات درج ذیل ہیں:

  • حکومت اگر اپنے بنائے ہوئے آئین پر بھی عمل نہیں کر سکتی تو اسے برسراقتدار رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں، اسے مستعفی ہو جانا چاہیے۔
  • پیپلز پارٹی کے دو سالہ دورِ حکومت میں جو مظالم ہوئے ہیں ان کے مقابلہ میں ۲۵ سال کے مظالم بھی ہیچ نظر آتے ہیں۔
  • ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم ایک طرف کہتے ہیں کہ عربوں کی جنگ ہماری جنگ ہے، مگر اسی سانس میں یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ ہم اس جنگ میں غیر جانبدار ہیں۔
  • خالی امداد کے نعروں سے کچھ نہیں بنتا۔ ہمیں عرب بھائیوں کی مسلح امداد کرنی چاہیے تھی۔
  • بھٹو صاحب نے مری مذاکرات میں ہمارے ساتھ جو وعدے کیے تھے، جب تک ان کو پورا نہیں کیا جاتا، ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
  • ہمارے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہم ملک کو توڑ دیں گے، لیکن جن لوگوں نے ملک کو توڑ دیا ہے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔
  • یحیٰی خان پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے، اور حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ گواہوں کے بیانات سمیت شائع کی جائے تاکہ قوم کو ملک کے قاتل کا پتہ چل سکے۔
  • اگر موجودہ حکومت یحیٰی خان پر مقدمہ نہیں چلاتی تو ہم یہ سمجھیں گے کہ سقوطِ ڈھاکہ کی سازش میں یہ بھی شریک ہے۔
  • موجودہ حکمرانوں نے آئین و قانون کی مٹی پلید کر دی ہے۔ بھٹو نے ہمارے سامنے اعتراف کیا کہ بلوچستان میں تمہاری اکثریت کو میں نہیں توڑ سکا، مگر اس کے باوجود وہاں اقلیتی حکومت مسلط رکھی جا رہی ہے۔ لیاقت باغ راولپنڈی میں ہمارے جلسہ میں ہزاروں گولیاں برسائی گئیں، کتنے لوگ شہید ہو گئے، مگر ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا، نہ مقدمہ چلایا گیا۔ گوجرانوالہ اور وزیر آباد ریلوے اسٹیشنوں پر ہمارے اوپر گولیاں برسائی گئیں اور دستی بم پھینکے گئے مگر کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔
  • پاکستان میں ایک شخص کی مرضی آئین اور اس کا اشارہ قانون بن چکا ہے۔
  • بلوچستان کو ملک سے الگ کرنے کی سازش کی گئی ہے مگر اب یہ سازش کامیاب نہیں ہو گی۔ کیونکہ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے حق میں مغربی پاکستان کے عوام کو غلط پروپیگنڈا کے ذریعہ ہموار کر لیا گیا تھا، جبکہ بلوچستان میں فوجی ایکشن کے بارے میں پنجاب کے عوام دھوکے کا شکار نہیں ہوئے۔
  • متحدہ جمہوری محاذ کے کارکنوں نے گرفتاریاں پیش کر کے بلوچستان اور سرحد کے عوام کو یقین دلا دیا ہے کہ ان کی جدوجہد میں پنجاب ان کے ساتھ ہے۔
  • پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے والی قوت آج بھی زندہ و متحرک ہے اور باقی ماندہ پاکستان کی سالمیت کے درپے ہے۔ مگر میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اب پاکستان کی سلامتی کی طرف اٹھنے والا ہاتھ توڑ دیا جائے گا۔
  • مجھ پر یہ جھوٹا الزام لگایا گیا کہ میں نے وزارتِ اعلیٰ کے دوران شیعہ فرقہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی مرکز سے سفارش کی ہے، حالانکہ میں مفتی کی حیثیت سے بھی ایسا نہیں کہہ سکتا۔
  • وزارتِ اعلیٰ سے استعفیٰ کے بعد بھٹو صاحب نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں دوبارہ وزارت بناؤں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اب تک آپ کو حکومت کس نے کرنے دی ہے۔ اب آپ حکومت بنائیں اور جو مرضی ہو کریں۔ میں نے جواب دیا کہ میں ’’جو مرضی ہے کرو‘‘ کی حکومت نہیں کر سکتا۔
  • حکومت کہتی ہے کہ ہم نے ۴ ارب روپے کا زرمبادلہ کمایا۔ میں کہتا ہوں کہ گھر کی چیزیں بیچ کر زرمبادلہ کمانا کوئی کمال نہیں۔ زرمبادلہ تو اس چیز سے کمایا جاتا ہے جو ملک کی ضرورت سے زیادہ ہو۔ مگر تم نے چاول، چینی حتیٰ کہ پیاز تک بیچ دیا اور زرمبادلہ کمانے کے لالچ میں اپنے عوام کو بھوک کا شکار کر دیا۔
  • میں دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کی تحریک میں قربانیاں دینے والے راہنماؤں اور کارکنوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ہر قسم کے تشدد اور بہیمانہ غیر انسانی سلوک برداشت کر کے ملکی سالمیت کے تحفظ، جمہوری اقدار کی بحالی اور آمریت کے خاتمہ کے لیے قربانیاں دیں۔
  • پاکستان ہمارا گھر ہے، یہ کسی کی جاگیر نہیں، نہ کوئی اس کا ہم سے زیادہ وفادار ہے، ہم نے ملک کو بچانے کے لیے پہلے بھی جدوجہد کی ہے اور آئندہ بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
  • صحافت اتنی کبھی پابند نہیں تھی جتنی آج ہے۔ صحافیوں کو سچ بات لکھنے پر مصائب برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ آزادی کا قلم توڑ دیا گیا ہے اور اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے غیر جانبدار اخبارات و رسائل کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔
  • بھٹو صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان کی بہ نسبت دوسرے ملکوں میں مہنگائی زیادہ ہے۔ میں کہتا ہوں افغانستان ایک غریب ملک ہے، لیکن اس کا سیب ہمارے پیاز سے اور اس کا انگور ہمارے آلو سے سستا ہے۔
  • آئین میں اگر کوئی خوبی ہے تو وہ ہم نے رکھوائی ہے، اسلامی دفعات ہم نے آئین میں درج کرائی ہیں، اور اگر موجودہ آئین پر صدقِ دل سے عمل کیا جائے تو اس کے ذریعہ ملک میں اسلام کا عادلانہ نظام نافذ کیا جا سکتا ہے۔ جب تک آئین پر عمل کرنے والوں کی نیت صاف نہ ہو، آئین بذاتِ خود کچھ نہیں کر سکتا۔
  • ہم آئین کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں اور حکومت سے بھی کہتے ہیں کہ وہ ’’جو مرضی ہے کرو‘‘ سے نہیں بلکہ آئین کے تحت حکومت کرے۔
  • میں نے وزارتِ اعلیٰ سے اصول (کی) خاطر استعفیٰ دیا جبکہ ملک کا صدر تک استعفیٰ واپس لینے کے لیے زور دیتا رہا۔ یہ استعفیٰ اس لیے نہیں دیا گیا کہ بلوچستان میں غیر آئینی اور غیر جمہوری طور پر برطرف ہونے والی حکومت نیپ اور جمعیۃ کی تھی، بلکہ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا تو بھی میں استعفیٰ دے دیتا۔
  • آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کے بارے میں مسٹر بھٹو کی تجویز مسئلہ کشمیر کو ختم کر دینے کے مترادف ہے۔ ہم ایسا کوئی فیصلہ تسلیم نہیں کریں گے۔ کشمیر ایک وحدت ہے جسے تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
  • حکومت اگر آئین و قانون کے مطابق کام کرے تو ہم تعاون کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر موجودہ روش جاری رکھنے پر اصرار ہے تو میں ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کرتا ہوں، پھر انکار کرتا ہوں، پھر انکار کرتا ہوں۔
  • ون یونٹ کے دوران چھوٹے صوبوں کے حقوق و مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے شکوک و شبہات کی فضا قائم ہو گئی۔ سوئی گیس بلوچستان سے پیدا ہوتا ہے مگر وہاں کے لوگوں کو میسر نہیں۔ بجلی سرحد میں سب سے زیادہ پیدا ہوتی ہے مگر وہاں انڈسٹری قائم نہیں کی گئی۔ تربیلا بند سرحد میں بنایا جا رہا ہے مگر اس کے پانی سے سرحد محروم رہے گا۔ دریائے سندھ سرحد سے گزرتا ہے مگر سرحد کو اس سے پانی نہیں ملتا۔
  • سرحد کو دس لاکھ ٹن سالانہ غلہ درکار ہے جس میں سے ۴ لاکھ ٹن وہاں پیدا ہوتا ہے اور باقی پنجاب اور سندھ سے لینا پڑتا ہے۔ جبکہ صوبہ سرحد میں ۱۷ لاکھ ایکڑ رقبہ قابلِ کاشت ہے جو پانی نہ ملنے کی وجہ سے غیر آباد پڑا ہے۔ اگر دریائے سندھ کے پانی سے ہمیں حصہ مل جائے اور یہ رقبہ آباد ہو جائے تو ہم غلہ کے معاملہ میں نہ صرف خود کفیل ہو جائیں گے بلکہ برآمد بھی کر سکیں گے۔
  • عبد الصمد خان اچکزئی کا وحشیانہ قتل افسوسناک ہے، میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ کوئی محبِ وطن شخص اس قسم کی کاروائیوں کا روادار نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔
   
2016ء سے
Flag Counter