ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے صوبہ سرحد کی حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے ’’حسبہ ایکٹ‘‘ کو یہ کہہ کر ناقابلِ عمل قرار دے دیا ہے کہ اس سے ایک متوازی سسٹم وجود میں آجائے گا۔
صوبہ سرحد میں ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) کی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ حسبہ ایکٹ کے تحت صوبہ میں احتساب کا ایک ایسا خودکار نظام قائم کر دیا جائے جو معاشرہ میں معروفات کے فروغ اور منکرات کی روک تھام کے لیے کام کرتا رہے، تاکہ قرآن کریم نے ایک مسلم حکومت کے فرائض میں ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کی جو ذمہ داری شامل کی ہے اس کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ کی اصلاح و تعمیر کی کوئی عملی صورت نکل آئے۔ مگر یہ حسبہ ایکٹ مسلسل اعتراضات کی زد میں ہے، پہلے گورنر سرحد نے اسے صوبائی حکومت کو واپس کیا اور اب اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس پر اعتراض کر دیا ہے۔
ہمارے خیال میں اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ اعتراض دو حوالوں سے محلِ نظر ہے:
- ایک اس وجہ سے کہ اگر حسبہ ایکٹ کے نفاذ کی صورت میں بالفرض صوبائی سطح پر کسی دائرہ میں متوازی نظام قائم ہوتا ہے تو یہ بات قابل اعتراض نہیں ہونی چاہیے، اس لیے کہ ہم فوجی عدالتوں کی صورت میں متعدد بار متوازی سسٹم کے تجربات سے گزر چکے ہیں، بلکہ اب بھی ملک بھر میں ایک ایسے متوازی نظام سے دوچار ہیں جو ملک کے دستور سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن اس کے باوجود اسے نہ صرف تسلیم کیا جا رہا ہے بلکہ ملک کی عدالتیں حتٰی کہ خود اسلامی نظریاتی کونسل بھی اسی کے تحت کام کر رہی ہے۔ اس لیے جب پورے ملک میں دستور کی موجودگی میں ایک متوازی سسٹم کو قبول کیا جا رہا ہے اور اس پر عمل بھی ہو رہا ہے تو صوبہ سرحد میں ایک محدود دائرہ میں اسلامی تعلیمات پر عملدرآمد کے لیے کوئی متوازی سسٹم وجود میں آ بھی جائے تو اس سے کوئی قیامت نہیں بپا ہو جائے گی۔
- دوسرا اس وجہ سے کہ ہمارے خیال میں اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام موجودہ سسٹم کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس سسٹم کی خامیوں کی نشاندہی اور ان کی اصلاح کے لیے اقدامات تجویز کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔ اس لیے حسبہ ایکٹ کو موجودہ سسٹم کے تحفظ کی خاطر قابل اعتراض قرار دے کر اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے مقصدِ قیام کے خلاف کام کیا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کو اپنی اس سفارش پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
جہاں تک موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل کا تعلق ہے، اپنے قیام کے بعد سے بجائے خود وہ دینی حلقوں کی تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور مختلف مکاتبِ فکر کی ذمہ دار قیادت اسے غیر نمائندہ قرار دے کر اس کے خلاف عدمِ اعتماد کا اظہار کر چکی ہے۔ اس لیے سرحد حکومت کے حسبہ ایکٹ کے خلاف اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ رائے اصولی اور واقعاتی دونوں حوالوں سے قابل توجہ نہیں ہے۔