۲۱ فروری ۲۰۰۱ء کو فیلیٹیز ہوٹل لاہور میں پاکستان شریعت کونسل کا سیمینار تھا جس میں جمعیۃ علماء اسلام، جمعیۃ علماء پاکستان، جماعت اسلامی، مجلس احرار اسلام، مجلس تحفظ ختم نبوت اور دیگر جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں مولانا عبد المالک خان، علامہ شبیر احمد ہاشمی، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا عبد الرشید انصاری، قاری زوار بہادر، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، چوہدری ظفر اقبال ایڈووکیٹ اور دیگر رہنماؤں کے علاوہ راقم الحروف نے بھی مختصر اظہار خیال کیا جبکہ پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی نے سیمینار کی صدارت کی۔ اور اس طرح مختلف مکاتب فکر کے رہنماؤں نے ایک بار پھر مل بیٹھ کر امارت اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے خلاف امریکی عزائم اور سلامتی کونسل کی عائد کردہ پابندیوں کی مذمت کی۔
سیمینار میں بہت سے دیگر موضوعات بھی مقررین کی گفتگو کا موضوع بنے جن میں پاکستان میں نفاذ اسلام کا مسئلہ سرفہرست تھا اور اس موقع پر حزب التحریر کی طرف سے تقسیم کیا جانے والا ایک ہینڈ بل شرکاء کی دلچسپی کا باعث بنا رہا جس کا عنوان یہ تھا کہ ’’جزوی اسلام کے نفاذ کی دعوت دینا حرام ہے‘‘۔ آج کے کالم میں اسی حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں مگر پہلے حزب التحریر کا مختصر تعارف کہ یہ جماعت اصل میں عرب دنیا سے تعلق رکھتی ہے اور اخوان المسلمون کے بعد عرب ممالک کی چند بڑی جماعتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کے بانی فلسطین سے تعلق رکھنے والے عالم دین الشیخ تقی الدین النبہانیؒ تھے جنہوں نے خلافت کی اہمیت اور نظام اسلام کے دیگر اہم عنوانات پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں اور وہ نظام خلافت کے قیام اور اسلامی نظام و قوانین کے نفاذ کے حوالہ سے ایک مستقل فکر اور فلسفہ کے داعی سمجھے جاتے ہیں۔ آج کل حزب التحریر کی قیادت الشیخ عبد القدیم زلوم کر رہے ہیں اور وہ بھی خلافت اور اسلامی قوانین کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
حزب التحریر خلافت اسلامیہ کے احیا و قیام کی داعی ہے اور اس کے لیے دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمان نوجوانوں کی ذہن سازی اور تربیت کے کام میں مصروف ہے۔ لیکن قیام خلافت، نفاذ اسلام کے طریق کار اور اسلامی نظام و قوانین کی تفصیلات کے حوالہ سے اسے اپنے فلسفہ و فکر پر شدت سے اصرار ہے اور حزب التحریر کے رہنماؤں کی کوشش ہے کہ مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کے حوالہ سے صرف انہی کے تجویز کردہ طریق کار اور تفصیلات کو قبول کیا جائے جبکہ دوسرے فکری و علمی حلقوں کے نقطۂ نظر کو وہ کسی درجہ میں بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ دیگر اسلامی تحریکات کے ساتھ حزب التحریر کی مشاورت و مفاہمت اور ارتباط و تعاون کے دروازے اکثر بند رہتے ہیں بلکہ کھلے ذہن کے اصحاب علم کے لیے بھی ان کے ساتھ مل کر کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
لندن میں حزب التحریر کے متعدد رہنماؤں کے ساتھ راقم الحروف کی ملاقات رہی ہے لیکن طریق کار اور دیگر تفصیلات کے حوالہ سے ان کے ذہن و فکر کی شدت اور ان کی طرف سے دیگر تحریکات کے فکر اور کام کی نفی کو ہم نے ہر ملاقات و گفتگو میں محسوس کیا ہے۔ البتہ اصولی دعوت یعنی قیام خلافت کو درست سمجھتے ہوئے ایک حد تک ہم ان کی حمایت بھی کرتے آ رہے ہیں مگر اب جبکہ حزب التحریر نے پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے اور حزب التحریر کے رہنماؤں نے اس کے لیے یہ ضروری سمجھا ہے کہ خلافت اسلامیہ کے قیام اور نفاذ اسلام کی جدوجہد کے لیے اپنے طریق کار کو مثبت انداز سے متعارف کرانے کی بجائے اس سلسلہ میں اب تک پاکستان میں ہونے والے کام کی نفی اور یہاں کی دینی تحریکات کے طریق کار کو مسترد کرنے سے اپنی جدوجہد کا اآغاز کیا جائے تو ہمارے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اس کا نوٹس لیں۔ اور اس بات کی وضاحت کریں کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کے سلسلہ میں اب تک ہونے والا کام اگر حزب التحریر کے تجویز کردہ طریق کار سے مطابقت نہیں رکھتا تو محض اس بنیاد پر اس کو غلط اور حرام قرار دینے کی کوشش درست نہیں ہے۔
اس موقع پر اس بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ لندن میں ہمارے محترم دوست الشیخ عمر بکری محمد بھی پہلے حزب التحریر سے تعلق رکھتے تھے۔ عمر بکری محمد شام کے نوجوان علماء میں سے ہیں جو ریاستی جبر کا شکار ہو کر قید و بند اور جلاوطنی کے مراحل سے گزرتے ہوئے کئی سالوں سے لندن میں مقیم ہیں۔ ان سے ہماری پہلی ملاقات حزب التحریر کے رہنما کے طور پر ہوئی تھی مگر بعد میں وہ حزب التحریر سے الگ ہوگئے جس کے بارے میں خود ان کا کہنا ہے کہ عالم اسلام کی دیگر دینی تحریکات اور نفاذ اسلام کے علمی حلقوں کے بارے میں مفاہمت و تعاون کے لیے حزب التحریر کے دامن میں وسعت نہ پا کر انہیں اس سے الگ ہونا پڑا اور اب وہ ’’المہاجرون‘‘ کے نام سے ایک الگ جماعت کی قیادت کر رہے ہیں۔ اپنے طریق کار کے حوالہ سے المہاجرون کو بھی جذباتی اور شدت پسند گروہوں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن دوسری اسلامی تحریکات کے کام کی نفی کا رجحان اس میں کم ہے اور المہاجرون کے نوجوانوں کی بظاہر یہ کوشش رہتی ہے کہ بوقت ضرورت دوسری اسلامی تحریکات سے بھی تعاون کریں اور دینی حلقوں میں باہمی تعاون و اشتراک کو فروغ حاصل ہو۔
اس کے بعد ہم اس ہینڈ بل کی طرف آتے ہیں جو پاکستان شریعت کونسل کے مذکورہ سیمینار میں حزب التحریر کی طرف سے تقسیم کیا گیا ہے اور اس میں پاکستان میں نفاذ اسلام کے سلسلہ میں اب تک ہونے والی دستوری جدوجہد کو جزوی اسلام کے نفاذ کی دعوت قرار دے کر اسے حرام بتایا گیا ہے جو قطعی طور پر ایک ناروا بات ہے۔ اس لیے کہ قرارداد مقاصد کی منظوری سے لے کر دستور میں اسلامی قوانین کے مکمل نفاذ کی ضمانت اور اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے سینکڑوں قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے تک کے عمل کو ملک کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور فقہاء کی ہر دور میں تائید و پشت پناہی حاصل رہی ہے جو اب بھی حاصل ہے۔ اور ملک کی مشترکہ دینی قیات بجا طور پر یہ سمجھتی ہے کہ قراداد مقاصد کے ذریعے دستور میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرنے اور دستوری ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سےملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھال دینے کی سفارشات کے بعد نفاذ اسلام کا کام اصولاً مکمل ہوگیا ہے اور اب ضرورت صرف اس پر عملدرآمد کی ہے جس کا خلوص سے اہتمام ہو جائے تو وہ سارے کا سارا نظام جسے حزب التحریر کے اس ہینڈ بل میں کافرانہ نظام قرار دے کر اسے ختم کرنے کی بات کی گئی ہے خود بخود ختم ہو جائے گا اور اسلام کا عادلانہ نظام اس کی جگہ لے لے گا۔
ہم حزب التحریر کے دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ نفاذ اسلام او رخلافت کی بحالی کے لیے ان کا جذبہ قابل قدر ہے لیکن اس کے لیے قطعاً ضروری نہیں ہے کہ جو طریق کار ان کے رہنماؤں نے اپنے اجتہادی فکر کے ذریعے تجویز کیا ہے اسے دنیا کے تمام مسلم ممالک کے لیے لازمی قرار دیا جائے۔ یہ اجتہادی معاملات ہیں اور پاکستان کے علماء نے اجتماعی اجتہاد کے ذریعے ہی اپنے ملک میں نفاذ اسلام کے لیے اگر الگ طریق کار تجویز کیا ہے اور وہ اس کے مطابق جدوجہد کرتے ہوئے مسلسل پیش رفت کر رہے ہیں اسے صرف اس لیے حرام قرار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ حزب التحریر کی قیادت کے مخصوص فلسفہ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے حزب التحریر کے نوجوان پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کا صحیح راستہ یہ نہیں کہ وہ اب تک ہونے والے کام کی نفی کر کے فکری انتشار پیدا کرنے کی کوشش کریں بلکہ انہیں یہاں کے علماء کرام کے اجتہاد کو قبول کرتے ہوئے دینی جماعتوں کی مشترکہ محنت کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ آئندہ ہونے والی پیش رفت میں ان کا حصہ بھی شامل ہو جائے۔