سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک بار پھر ملک میں اردو کے سرکاری طور پر نفاذ کی صورتحال کا نوٹس لیا ہے اور جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے سے متعلق توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی ہے جس میں اردو کو فوری طور پر رائج نہ کرنے پر وفاقی حکومت جبکہ پنجابی زبان کو صوبے میں رائج نہ کرنے پر پنجاب حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے۔ اس موقع پر جسٹس بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ۲۰۱۵ء میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دیا تھا جس کی تعمیل میں وفاقی حکومت ناکام رہی ہے، آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ میں قومی زبان کے ساتھ ساتھ علاقائی زبان کا بھی ذکر ہے، پنجابی زبان کے نفاذ نہ کرنے پر ہم پنجاب حکومت کو بھی نوٹس دے رہے ہیں۔ مادری اور قومی زبان کے بغیر ہم اپنی شناخت کھو دیں گے۔ جسٹس بندیال نے کہا کہ میری رائے میں ہمیں اپنے بزرگوں کی طرح فارسی اور عربی زبانیں بھی سیکھنی چاہئیں۔
جسٹس بندیال کا ارشاد اس سلسلہ میں اب تک کی صورتحال واضح کرنے کے لیے کافی ہے اور یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ اپنی تہذیب اور زبان کے تحفظ کے فروغ کے لیے سرسید احمد خان سے لے کر ڈاکٹر سید محمد عبد اللہ مرحوم تک قومی راہنماؤں نے جو مسلسل تگ و دو کی تھی اور دستور پاکستان نے اس سلسلہ میں جو وعدہ کیا ہے بلکہ ضمانت دی ہے ہمارے مقتدر حلقے اس کو مکمل طور پر نظرانداز کر کے انگریزی زبان کا تسلط برقرار رکھنے اور مغربی تہذیب کو ملک میں رائج کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ان سرگرمیوں میں دن بدن وسعت اور تیزی دکھائی دے رہی ہے۔
زبان اور تہذیب و عقیدہ کسی قوم کی شناخت ہوتا ہے جس سے محروم ہو کر قومیں آزادی اور خودمختاری بھی کھو بیٹھتی ہیں۔ ہمیں اس سلسلہ میں اپنے اردگرد چین، افغانستان اور ایران کو ہی دیکھ لینا چاہیے کہ وہ اپنی تہذیب اور زبان کے تحفظ و بقا اور فروغ کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں اور یہ بات ان کی عزت و وقار اور قومی اعتماد میں اضافہ کا باعث بھی ہے۔
اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کے مذکورہ ریمارکس کا خیرمقدم کرتے ہوئے ہم قومی زبان تحریک پاکستان کے نائب صدر پروفیسر محمد سلیم ہاشمی کی مندرجہ ذیل تجاویز کی حمایت کرتے ہیں جو انہوں نے حال ہی میں وزیراعظم پاکستان کے نام اپنے خط میں پیش کی ہیں:
’’قرآن پاک کا حکم ہے کہ اپنی قوم کو اس کی زبان میں تعلیم دی جائے (سورہ ابراہیم ۴)۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی اور بانی پاکستان کا فیصلہ تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کی شق ۲۵۱ میں یہ نکتہ شامل کیا گیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے۔ ۸ ستمبر ۲۰۱۵ء کو پاکستان کی عدالتِ عظمٰی نے پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر فی الفور اردو نافذ کرنے کا حکم جاری کیا۔
ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان میں فوری طور پر اردو کو نافذ کرنے کے احکامات صادر کیے جائیں۔ اس ضمن میں (۱) تمام سرکاری، دفتری اور انتظامی امور کے لیے فوری طور پر نفاذِ اردو کا اعلان کیا جائے۔ (۲) اگلے تعلیمی سال سے اردو کو تعلیمی شعبہ میں ہر سطح پر نافذ کیا جائے۔ (۳) موجودہ سال کو نفاذِ اردو کا سال قرار دیا جائے۔‘‘
ہم عدالتِ عظمٰی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے واضح فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے مضبوط موقف اور اقدام کا راستہ اختیار کرے گی، جبکہ حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قومی خودمختاری، شناخت اور دستور کے تقاضوں کا لحاظ کرتے ہوئے موثر عملی اقدامات کرے۔