پاکستان میں مروجہ قوانین کی تعبیر و تشریح

   
ستمبر ۲۰۰۳ء

لاہور سے شائع ہونے والے مسیحی جریدہ ماہنامہ شاداب نے جولائی ۲۰۰۳ء کے شمارے میں ایک خبر شائع کی ہے جو علمی و دینی حلقوں کی خصوصی توجہ کی مستحق ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ صائمہ نامی ایک مسیحی لڑکی نے گھر سے بھاگ کر ایک مسیحی نوجوان سے شادی کر لی جس پر لڑکی کی ماں نے عدالت میں اس لڑکے کے خلاف اغوا کا کیس درج کرا دیا اور ساتھ ہی یہ موقف اختیار کیا کہ ان کی شادی مسیحی مذہب کے قوانین کے مطابق رسومات کی ادائیگی کے ساتھ نہیں ہوئی اس لیے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ سول کورٹ نے مقدمہ میں اس شادی کو یہ کہہ کر کالعدم قرار دے دیا کہ چونکہ شادی مسیحی مذہب کی رسومات کے مطابق انجام نہیں پائی اس لیے یہ نکاح منعقد نہیں ہوا، مگر لاہور ہائیکورٹ نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس شادی کو درست تسلیم کیا ہے اور یہ ریمارکس دیے ہیں کہ چونکہ پاکستان کے دستور اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق بالغ لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں اس لیے مذہبی رسومات کی ادائیگی ضروری نہیں ہے اور مذہبی قوانین کی پابندی کیے بغیر بھی شادی ہوجاتی ہے۔

اگر یہ خبر اسی طرح ہے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ عدالت عالیہ نے پاکستان کے دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق کی تشریح اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق کرتے ہوئے اس اصول کو تسلیم کر لیا ہے کہ بالغ لڑکا اور لڑکی اگر باہمی شادی کرنے پر راضی ہوں تو انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ دستور پاکستان میں شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات کی صراحت بھی دستور میں موجود ہے کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نافذ نہیں کیا جائے گا اور قرآن و سنت کو تمام مروجہ قوانین کے سرچشمہ کی حیثیت حاصل ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ دستور میں جن بنیادی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے ان کی تعبیر و تشریح قرآن و سنت کی روشنی میں کی جائے گی۔ لیکن ہمارے ہاں اعلیٰ عدالتیں کچھ عرصہ سے اس اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان میں مروجہ قوانین کی تعبیر و تشریح قرآن و سنت کی بجائے مغربی قوانین کی روشنی میں کر رہی ہیں جن میں مذکورہ بالا فیصلہ بھی شامل ہے۔

بات اگرچہ ایک مسیحی جوڑے کی ہے لیکن اگر اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو مسیحی اور مسلمان جوڑوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جائے گا اور اگر کوئی مسلمان جوڑا اس طرح مذہبی رسوم یعنی ایجاب قبول، گواہ، مہر اور دیگر شرائط کی پروا کیے بغیر صرف باہمی رضا مندی کو ہی نکاح قرار دے گا تو اس پر بھی اس فیصلے کا اطلاق اسی طرح ہوگا جس طرح مذکورہ مسیحی جوڑے پر ہوا ہے۔ اور اگر خدانخواستہ ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ ملک کے قانون کا حصہ بن گیا تو شادی میں نکاح، گواہ، ایجاب قبول اور مہر وغیرہ کے شرعی امور رفتہ رفتہ بے معنی ہو کر رہ جائیں گے اور مغرب کی طرح یہاں بھی صرف لڑکے اور لڑکی رضامندی ہی قانونی نکاح تصور ہونے لگے گی۔

عدالت عالیہ کے اس نوعیت کے بعض فیصلے اس سے قبل بھی سامنے آچکے ہیں مثلاً لاہور ہائیکورٹ نے چند سال قبل خلع کو عورت کے مساوی حق طلاق قرار دینے کا فیصلہ صادر کیا تھا، جبکہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس شائق عثمانی کا یہ فیصلہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ وراثت میں لڑکی کا لڑکے کی بہ نسبت نصف حصہ انصاف کے منافی ہے اس لیے باپ کی وراثت میں بیٹے اور بیٹی دونوں کو برابر حصہ دیا جائے۔

اس قسم کے فیصلے مختلف ہائیکورٹس کے حوالہ سے وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں اور چونکہ ہائیکورٹس کے فیصلوں کو قوانین کی باضابطہ تشریح کا درجہ حاصل ہوتا ہے اس لیے یہ بات انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ بعض قانونی معاملات خاص طور پر نکاح، طلاق اور وراثت سے متعلقہ قوانین کے حوالہ سے عدالت ہائے عالیہ کے یہ فیصلے ملک کے قانون کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور مغربی قوانین کے مطابق ملکی قوانین کو ڈھالنے کا عمل دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ صورتحال ملک کے دینی و علمی حلقوں کی خصوصی توجہ کی طالب ہے۔ اس سے قبل جب بھی اس طرح کی صورتحال سامنے آئی ہے سرکردہ علماء کرام نے ہر دور میں اس کا نوٹس لیا ہے اور اگر اور کچھ نہیں کیا جا سکا تو کم از کم اپنے موقف کی وضاحت اور عامۃ المسلمین کی راہنمائی کے تقاضے ضرور پورے کیے گئے ہیں۔اس لیے دینی جماعتوں، اداروں اور مراکز سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس سلسلہ میں توجہ فرمائیں اور اس نوعیت کے فیصلوں کا خالصتاً علمی اور دینی بنیادوں پر جائزہ لے کر ملک کے دینی حلقوں اور عامۃ المسلمین کی بروقت راہنمائی کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوں۔

   
2016ء سے
Flag Counter