ہانگ کانگ میں مسلمانوں کی سرگرمیاں

   
اپریل ۲۰۰۹ء

ربیع الاول کے وسطی عشرہ میں مجھے چار پانچ روز کے لیے ہانگ کانگ جانے کا موقع ملا ۔ ہانگ کانگ مشرق بعید کا ایک اہم جزیرہ ہے جو کم و بیش ایک صدی تک برطانیہ کے زیرنگیں رہا اور ۱۹۹۷ء میں عوامی جمہوریہ چین نے اسے برطانیہ سے واپس لیا ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں جب پوری دنیا میں برطانیہ کا طوطی بولتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ برطانیہ عظمٰی کی سلطنت اس قدر وسیع ہے کہ اس میں سورج غروب ہی نہیں ہوتا بلکہ چوبیس گھنٹہ کے دوران ہر وقت برطانیہ کے زیر تسلط کسی نہ کسی ملک پر چمکتا رہتا ہے، اس دور میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کے ایک حصے پر قبضہ کیا تھا اور دوسرا حصہ چین سے ننانوے سال کی لیز پر لے کر پورے ہانگ کانگ پر اپنا اقتدار قائم کر دیا تھا۔

ہانگ کانگ میں برطانوی اقتدار کی وجہ سے مغربی طرز معاشرت کا غلبہ رہا ، یہی وجہ ہے کہ جب بیسویں صدی کے آخری عشرہ میں چین نے لیز کی مدت ختم ہونے پر برطانیہ سے یہ جزیرہ واپس لینے کی بات کی تو ہانگ کانگ کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو اس بات پر تشویش ہوئی کہ مغربی طرز کے آزاد ماحول میں ایک صدی گزارنے والی آبادی کے لیے عوامی جمہوریہ چین کے پابند اور ماحول میں رہنا کیسے ممکن ہو گا ؟ اس پر کم و بیش دس سال تک مذاکرات چلتے رہے اور اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ہانگ کانگ برطانیہ کے تسلط سے نکل کر چین میں دوبارہ شامل تو ہو جائے گا لیکن اگلے پچاس سال تک اس کا داخلی نظام پہلا ہی رہے گا۔ چنانچہ ۱۹۹۷ء میں چین کا دوبارہ حصہ بن جانے کے باوجود ہانگ کانگ کا نظام حسب سابق ہے، فوج اور خارجہ پالیسی چین کی ہے مگر کرنسی، ویزا اور باقی معاملات کا سسٹم الگ ہے حتیٰ کہ عوامی جمہوریہ چین کے پرچم کے ساتھ ہانگ کانگ کا پرچم بھی الگ لہراتا ہے۔

ہانگ کانگ کے علاقہ کولون میں جب برطانوی فوج کی چھاؤنی تھی تو اس میں شامل مسلمان فوجیوں کے تقاضے پر ایک جگہ ان کے لیے مخصوص کر دی گئی جہاں وہ نماز وغیرہ کا اہتمام کرتے رہے۔ ایک عرصہ تک وہ جگہ مصلّی کے طور پر رہی، پھر وہاں با قاعدہ مسجد قائم کر دی گئی اور اب وہ ہانگ کانگ کی سب سے بڑی جامع مسجد کے طور پر پورے علاقہ کی دینی سر گرمیوں کا مرکز ہے۔ اس مسجد کے امام و خطیب مولانا مفتی محمد ارشد نے مجھے ہانگ کانگ کی مساجد کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی طرف سے سیرت النبیؐ کے چند جلسوں میں شرکت کے لیے ہانگ کانگ آنے کی دعوت دی ۔مفتی محمد ارشد کا تعلق شجاع آباد ضلع ملتان سے ہے اور ان کے والد محترم مولانا رشید احمد جمعیۃ علماء اسلام میں ہمارے ساتھ متحرک اور فعال ساتھی کی حیثیت سے شریک کار رہے ہیں۔

میں ۴ مارچ کو رات اسلام آباد سے روانہ ہو کر ۵ مارچ کو ظہر تک ہانگ کانگ پہنچا، میرا پہلا سفر تھا ،امیگریشن حکام نے کم و بیش دو اڑھائی گھنٹے کے سوال و جواب اور تحقیق و تفتیش کے بعد انٹری کی مہر لگائی اور میں ہانگ کانگ میں داخل ہو گیا۔ میرپور آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک مخلص دوست حاجی شبیر احمد صاحب کے ہاں قیام رہا اور انہوں نے مفتی محمد ارشد صاحب کے ہمراہ مجھے ہانگ کانگ کے مختلف حصوں کی سیر بھی کرائی۔ بلند و بالا عمارتوں کا ایک وسیع سلسلہ کئی میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور درمیان میں سمندر مختلف اطراف سے گزرتا ہے۔ رات کے وقت لائٹوں کا ایسا نظام ترتیب دیا گیا ہے کہ عجیب د لفریب و خوشنما منظر ہوتا ہے۔ پہاڑی علاقہ ہے، مختلف پہاڑوں کی چوٹیوں سے نیچے جھانکیں تو سمندر، بلند و بالا عمارتوں اور روشنیوں کا مسحور کن منظر آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ لیکن ہمارے ساتھ یہ ہوا کہ ہم مختلف جانبوں سے پہاڑوں کی چوٹیوں پر گئے مگر دھند کی وجہ سے نیچے کا منظر نہ دیکھ سکے۔

۶ مارچ کا جمعہ میں نے ختم نبوت موومنٹ کے مرکز میں پڑھایا جہاں شورکوٹ سے تعلق رکھنے والے ہمارے پرانے دوست مولانا قاری محمد طیب خطیب و امام ہیں۔ انہوں نے مختلف دوستوں کے ساتھ مل کر قرآن کریم حفظ و ناظرہ کے مدارس کا ایک نظم قائم کر رکھا ہے جس کے تحت سات مدارس میں کم و بیش نو سو کے لگ بھگ بچے اور بچیاں قرآن کریم کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

ہانگ کانگ میں چچھ کے علاقہ سے تعلق والے حضرات زیادہ ہیں اور ان کا دینی ذوق بھی وہاں نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے حضرات بھی خاصے ہیں اور گوجرانوالہ کے دوست بھی وہاں دکھائی دیے۔ مجھے بتایا گیا کہ ہانگ کانگ میں پاکستانیوں کی تعداد کم و بیش تیس ہزار کے قریب ہے۔

  • ہفتہ کے روز پاکستان کلب میں پاکستان ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام سیرت کانفرنس تھی جس کی صدارت پاکستان کے قونصل جنرل جناب ڈاکٹر بلال احمد نے کی جو لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اور اچھا دینی ذوق رکھتے ہیں۔
  • اتوار کو کولون کی مرکزی جامع مسجد میں اس دورے کا مرکزی پروگرام تھا جو صبح دس بجے سے عصر تک جاری رہا اور ایران کے قونصل جنرل جناب عبد اللہ نیکو نام نے اس کی صدارت کی۔
  • سوموار کو ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام چلنے والے چند مدارس میں جانا ہوا اور اسی شب ادارہ منہاج القرآن کے زیر اہتمام سیرت کانفرنس سے میں نے خطاب کیا۔ حافظ غلام فرید صاحب اس مرکز کے امام ہیں، ڈسکہ ضلع سیالکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کے حلقہ سے ہیں۔ان کی خصوصی دعوت پر میں وہاں حاضر ہوا اور ’’جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت‘‘ کے موضوع پر تفصیلی خطاب کیا۔

ہانگ کانگ میں دو تین باتیں ایسی دیکھیں جن سے دل بہت خوش ہوا۔

  1. ایک یہ کہ مسلم کمیونٹی کے لیڈروں اور مساجد کے ائمہ و خطباء کے درمیان باہمی تعاون و مفاہمت کی فضا موجود ہے، دونوں مل جل کر مسلم کمیونٹی کو راہنمائی فراہم کرتے ہیں اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
  2. دوسری بات یہ خوش آئند ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کے درمیان بھی باہمی مفاہمت و تعاون کی فضا موجود ہے اور وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
  3. اور تیسری بات جس پر بے حد خوشی ہوئی کہ قرآن کریم کی تعلیم کا ایک مربوط نظام موجود ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ پندرہ بیس سال قبل تک ہانگ کانگ کی چند مساجد میں بھی تراویح کے لیے باہر سے حفاظ منگوانا پڑتے تھے مگر اب نہ صرف چین کے مختلف علاقوں بلکہ جاپان اور کوریا وغیرہ میں بھی رمضان المبارک میں قرآن کریم سنانے کے لیے یہاں سے حفاظ بھیجے جاتے ہیں۔ میرے وہاں جانے سے چند روز قبل مدارس کے طلبہ کے درمیان حسن قراءت کا مقابلہ ہوا تھا جس میں اول آنے والے حافظ بچے نے کولون کی جامع مسجد کے مرکزی جلسہ میں تلاوت کی اور بہت اچھے لہجے میں عمدہ تلفظ کے ساتھ قرآن کریم پڑھا۔

جمعرات سے منگل تک کم و بیش چھ روز قیام کے دوران ہانگ کانگ کے مسلمانوں اور ان کے دینی و علاقائی راہنماؤں کی سر گرمیاں دیکھ کر دل کو اطمینان ہوا کہ اس خطہ میں رہنے والے مسلمان نہ صرف دین کے ساتھ وابستگی کو قائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ وہ اگر تھوڑی سی محنت اور کریں تو اس علاقہ میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کا بھی مؤثر ذریعہ بن سکتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter