رسول اکرمؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۱۳ فروری ۲۰۱۵ء

کچھ عرصہ سے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعۃ المبارک کے خطابات میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کا سلسلہ چل رہا ہے۔ گزشتہ جمعہ اس موضوع پر کچھ گزارشات پیش کیں کہ منافقین کا جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ طرز عمل کیا تھا اور آنحضرتؐ نے منافقین کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کیا؟ بعض دوستوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ گفتگو تحریر میں بھی آ جانی چاہیے۔ اس لیے اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے اور اسے اپنا مرکز بنایا تو یہود اور مشرکین کے مختلف قبائل کے ساتھ ساتھ آپ کو ایک ایسے طبقہ سے بھی واسطہ پڑا جو کلمہ پڑھ کر بظاہر مسلمانوں میں شامل ہوگیا تھا لیکن دل سے مسلمان نہیں ہوا تھا، اور اس کی تمام تر ہمدردیاں اور معاونتیں کفار کے ساتھ تھیں جن کا تذکرہ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر موجود ہے۔

غزوہ احد میں یہ لوگ تین سو کی تعداد میں عبد اللہ بن ابی کی سرکردگی میں میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے تھے جس سے آبادی میں اس وقت ان کے تناسب کا اندازہ ہوتا ہے۔ پھر مختلف اوقات میں ان کی شرارتیں اور منافقانہ حرکات سامنے آتی رہیں جن میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹی تہمت بھی شامل ہے۔ حتیٰ کہ ان کے اس شر پسندانہ الزام کی صفائی قرآن کریم نے پیش کی۔ ایک موقع پر انہوں نے مل بیٹھ کر یہ سازش بھی کی کہ وہ مدینہ منورہ سے مہاجرین کو واپس چلے جانے پر مجبور کر دیں گے۔ اس سازش کی خبر جب آنحضرتؐ کو حضرت زید بن ارقمؓ نے دی تو ان لوگوں نے قسمیں اٹھا اٹھا کر حضورؐ کے سامنے اپنی سچائی کا اتنی شدت سے اظہار کیا کہ آپؐ نے حضرت زید بن ارقمؓ کو ڈانٹ دیا۔ اس پر قرآن کریم کی سورۃ ’’المنافقون‘‘ نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ زید بن ارقمؓ کی رپورٹ سچی ہے اور یہ لوگ جھوٹی قسمیں اٹھا رہے ہیں۔ ایک مرحلہ میں ان منافقین نے مدینہ منورہ میں ’’مسجد‘‘ کے نام سے اڈہ قائم کر لیا جسے قرآن کریم نے مسجد ضرار سے تعبیر کر کے رسول اکرمؐ کو وہاں جانے سے منع کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مسجد کے نام پر قائم ہونے والا یہ مرکز مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے لیے اور دشمنوں کو گھات فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، چنانچہ حضورؐ نے اسے مسمار کرنے کا حکم دے دیا۔

جناب رسول اللہؐ کی دس سالہ مدنی زندگی کے دوران منافقین کی اس قسم کی شرارتیں اور سازشیں عام رہیں جن کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے اور احادیث میں بھی ان کی بہت سی تفصیلات مذکور ہیں۔ جبکہ قرآن کریم نے ’’وما ھم بمؤمنین‘‘ اور ’’انھم لکاذبون‘‘ کہہ کر واضح طور پر کہہ دیا کہ یہ مسلمان نہیں ہے اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ان سے بچ کر رہنے کے ساتھ ساتھ آنحضرتؐ کو سورۃ التحریم میں یہ کہہ کر ان کے خلاف سخت جہاد کرنے کا حکم بھی دیا گیا کہ ’’جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم‘‘ ان کے ساتھ جہاد کریں اور ان پر سختی کریں۔

لیکن یہ بات توجہ طلب ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے منافقین کے خلاف ’’جہاد‘‘ کا کونسا طریقہ کار اختیار کیا؟ یہ لوگ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے ساتھ رہے، مسجد نبویؐ میں نمازیں پڑھتے تھے، حضورؐ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتے تھے، اور معاشرتی زندگی میں صحابہ کرامؓ کے ساتھ پوری طرح شریک کار رہے ہیں۔ آنحضرتؐ نے ان میں سے کسی کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ حضرت عمرؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے بعض منافقین کو قتل کرنے کی اجازت مانگی مگر آپؐ نے اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ یہ بظاہر کلمہ پڑھتے ہیں اس لیے انہیں قتل کرنے سے دنیا والوں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ محمدؐ اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کرنے لگے ہیں۔ ان میں سے کسی کو قتل کرنا تو درکنار حضورؐ نے ایک درجن سے زائد ان منافقین کے نام ظاہر کرنے سے انکار کر دیا جنہوں نے ایک سفر سے واپسی پر آپؐ کو شہید کرنے کے لیے ویرانے میں گھات لگائی تھی اور ننگی تلواروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ ان کا یہ حملہ ناکام ہوا مگر حضورؐ نے ان سب کو پہچان لیا تھا اور اپنے ساتھی حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کو اس شرط پر سب کے نام بتا بھی دیے تھے کہ وہ کسی اور کو ان میں سے کسی کا نام نہیں بتائیں گے۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگوں بالخصوص حضرت عمرؓ کے شدید اصرار کے باوجود انہوں نے زندگی بھر ان میں سے کسی کا نام افشا نہیں کیا۔

یہ جناب نبی اکرمؐ کی حکمت عملی تھی کہ منافقین کی تمام تر شرارتوں اور سازشوں کے باوجود ان کے خلاف ’’جہاد اور سختی‘‘ کے قرآنی حکم کی تعمیل کے لیے آنحضرتؐ نے تدبر اور حکمت کا راستہ اختیار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدینہ منورہ میں کوئی معاشرتی خلفشار پیدا نہیں ہوا اور منافقین رفتہ رفتہ بے اثر ہو کر سوسائٹی میں تحلیل ہوتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ خلفاء راشدینؓ کے دور میں ایک طبقہ کے طور پر ان کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا تھا اور وہ ’’نسیاً منسیا‘‘ ہو کر رہ گئے تھے۔

منافقین کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکیمانہ طرز عمل سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جہاد صرف لڑنے کا نام نہیں بلکہ حکمت عملی کے ساتھ دشمن کو ناکام بنا دینا بھی جہاد کہلاتا ہے اور کھلے کافروں کے ساتھ جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ان کا ’’کلمہ گو کافروں‘‘ کے ساتھ اختیار کرنا نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں بلکہ یہ بات نقصان دہ اور اسلام کی دعوت و تبلیغ میں رکاوٹ بھی بن جاتی ہے۔ اس لیے آج کے حالات میں ہمیں حضورؐ کے اسوہ حسنہ سے راہ نمائی حاصل کرتے ہوئے ان معاملات پر اپنے طرز عمل کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۵ فروری ۲۰۱۵ء)
2016ء سے
Flag Counter