روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۱۸ فروری ۲۰۰۲ء کی رپورٹ کے مطابق
’’راولپنڈی ریلوے اسٹیشن کے قریب جامع مسجد بلال اور جامعۃ فاطمۃ الزہراءؓ پر گزشتہ روز ریلوے پولیس والوں نے دھاوا بول دیا۔ پولیس جامع مسجد بلال کے خطیب مولانا عبد الغفار توحیدی کو گرفتار کرنا چاہتی تھی لیکن ان کے نہ ملنے پر ریلوے پولیس نے مسجد و مدرسہ کو اپنے ایکشن کا نشانہ بنا لیا۔ خبر کے مطابق پولیس مولانا توحیدی کو گرفتار کرنے مسجد بلال میں گئی اور ان کے نہ ملنے پر نمازیوں کو مسجد سے باہر نکال کر مین گیٹ کو تالا لگا دیا، اور اس کے بعد مدرسہ فاطمۃ الزہراءؓ کا رخ کیا اور زنانہ پولیس کے ساتھ مردانہ پولیس بھی طالبات کے مدرسہ میں گھس گئی جنہوں نے خواتین اساتذہ اور طالبات کو زدوکوب کیا اور گھسیٹ کر مدرسہ سے باہر نکال دیا۔ طالبات اور معلمات رات بھر مدرسہ سے باہر سردی میں ٹھٹھرتی رہیں جبکہ پولیس نے مدرسہ کو بند کر کے اس کے مین گیٹ کو سیل کر دیا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے علماء کرام نے ۱۷ فروری کو دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار میں مولانا اشرف علی کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے سخت احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ اس واقعہ کی تحقیقات کرا کے طالبات کے دینی مدرسہ کی حرمت کو پامال کرنے والے پولیس افسران کے خلاف سخت کاروائی کی جائے اور آئندہ اس قسم کے واقعات کا سدباب کیا جائے۔‘‘
یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس پس منظر میں اس کی سنگینی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے کہ صدر پرویز مشرف اور وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب دینی مدارس کی تعلیمی اور سماجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہ کرنے کی بار بار یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ لیکن ان کے اعلانات کے باوجود راولپنڈی کے اس دینی مدرسہ کے خلاف پولیس ایکشن ہوا ہے، اور اس انداز سے ہوا ہے جیسے یہ کاروائی پاکستانی پولیس نے نہیں بلکہ کسی دشمن ملک کے حملہ آوروں نے کوئی مورچہ فتح کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے۔ ہم اس واقعہ کی سخت مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا فوری نوٹس لے کر دینی مدارس کے خلاف کاروائی نہ کرنے کے حکومتی اعلانات کا اعتماد بحال کیا جائے۔