جے یو آئی کے مرکزی ناظم نشر و اشاعت سے انٹرویو

   
۱۱ مئی ۱۹۷۹ء

جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی ناظم نشر و اشاعت اور پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس / پاکستان قومی اتحاد) کے جنرل سیکرٹری مولانا زاہد الراشدی سے جمعیۃ علماء اسلام کی تنظیم نو اور ملکی صورتحال کے سلسلہ میں خصوصی انٹرویو قارئین کی نذر ہے۔

انٹرویو نگار: الطاف حسین ۔ بی اے، ایل ایل بی

مولانا زاہد الراشدی جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے مرکزی ناظم نشر و اشاعت، پاکستان قومی اتحاد پنجاب کے جنرل سیکرٹری، اور جمعیۃ کی مرکزی ٹیم کے جواں سال و فعال رہنما ہیں۔ یوں تو آپ گزشتہ کئی سالوں سے جمعیۃ علماء اسلام کو ملک کی ایک منظم و منضبط جماعت بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں لیکن گزشتہ تین سالوں میں آپ نے جماعت کی تنظیم نو کے سلسلہ میں بڑی تیزی سے ملک کو کھنگال کر رکھ دیا، ملک کے بڑے بڑے شہروں سے لے کر دیہاتوں کے ابتدائی یونٹ تک کے جماعتی کارکنوں سے فردًا فردًا رابطہ قائم کیا۔

مولانا زاہد الراشدی ۱۹۴۸ء میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم گکھڑ ہی میں حاصل کی، درس نظامی سے دورۂ حدیث تک نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں فیضیاب ہوئے۔ آپ کے والد گرامی ملک کے نامور اسلامی اسکالر مولانا محمد سرفراز خان صفدر اسلام پر جدید تقاضوں کے ماحول میں لکھی گئی بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں، آپ مانسہرہ کے نواح میں آباد سواتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں لیکن تشفی علوم اسلامیہ آپ کو دیوبند لے گئی، آپ حضرت مدنیؒ کے خصوصی شاگردوں میں سے ہیں۔ مولانا سرفراز دیوبند سے واپسی پر گکھڑ میں درس و تدریس میں مشغول ہوگئے، بعد ازاں یہی سلسلہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں شروع کر دیا، اب آپ گوجرانوالہ کی اس معروف دینی درسگاہ کے شیخ الحدیث و صدر مدرس ہیں۔

مولانا زاہد الراشدی نے ۱۹۶۹ء میں اپنی عملی سیاسی زندگی کا آغاز کیا جبکہ ۱۹۶۲ء میں سیاسی جماعتوں پر پابندی اٹھنے کے بعد ۱۴ سال کی عمر میں آپ نے گکھڑ میں چند نوجوانوں سے مل کر جمعیۃ طلباء اسلام کی بنیاد رکھی، بعد ازاں یہی سلسلہ گوجرانوالہ میں شروع کیا، اسی تگ و دو کی وجہ سے ساتھیوں کی نظر میں آگئے اور ۱۹۶۵ء میں گوجرانوالہ جمعیۃ کے ناظم نشر و اشاعت مقرر ہوئے۔ اور پھر دو سال بعد ضلع گوجرانوالہ اور ایک سال بعد لاہور ڈویژن کے سیکرٹری بنا دیے گئے۔ اس طرح ۱۹۷۳ء تک مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے ناظم نشر و اشاعت منتخب ہوئے۔ اس عہدہ پر آپ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر آپ کو ۱۹۷۵ء میں مرکزی اکابر نے جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی ناظم نشر و اشاعت مقرر کیا اور آج تک اس عہدہ پر بہ احسن طریق سرگرم عمل ہیں۔

میں نے مرکزی راہنماؤں کے انٹرویوز کا دوبارہ سلسلہ شروع کرنے کی ابتدا کے طور پر مولانا زاہد الراشدی صاحب سے سوال و جواب کا سلسلہ جماعتی احباب کے سامنے رکھنے کا پروگرام بنایا۔ اس سلسلہ میں جب گکھڑ میں آپ کی رہائش پر پہنچا تو بہت سے سائلین آپ کو گھیرے ہوئے تھے، ان سے خاطر خواہ نپٹ کر ہم جمعیۃ گکھڑ کے دفتر آگئے اور میں نے اپنا سب سے پہلا سوال جمعیۃ کی تنظیم کے سلسلہ میں کر دیا۔

سوال: مولانا آپ نے جمعیۃ کی تنظیم کے سلسلہ میں ملک میں ابتدائی یونٹ لے کر مرکزی سطح تک کئی بار دورہ کیا ہے، کیا آپ جمعیۃ کی تنظیم سے مطمئن ہیں؟

جواب: الطاف صاحب! جمعیۃ کی تنظیم کے سلسلہ میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے لیکن میں اس سے مطمئن بالکل نہیں۔ میرے نزدیک اس کی وجہ مزاج کی تبدیلی ہے، جب تک یہ نہیں ہوگا اس وقت تک جدید تقاضوں کے مطابق ہماری تنظیم لگا نہیں کھا سکتی۔ ہمارے جماعتی حلقہ کو ولی اللہی حلقہ کہنا زیادہ مناسب ہے، اس حلقہ کا مزاج تنظیمی نہیں جذباتی اور ہنگامی ہے، ہمارے کارکنوں کے ایثار اور خلوص میں کوئی شبہ نہیں، کسی بھی تحریک یا بامقصد ہنگامہ میں جان و مال کی قربانی دینا ان کا شعار ہے، لیکن تنظیمی معاملات میں وقت اور جان و مال کی قربانی ان کے نزدیک بے وقعت سی چیز سمجھی جاتی ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر کئی پشتوں تک ہم نے تحریکوں اور ہنگاموں ہی کا سامنا کیا ہے۔ یہ چیز ہمارے رگ و ریشہ میں رچ بس گئی ہے جبکہ اب وقت کے تقاضے بدل گئے ہیں، جذباتیت اور ہنگاموں کا دور چلا گیا، اب نظم و ضبط کا دور ہے، ہم اس تبدیلی کی طرف بتدریج بڑھ رہے ہیں لیکن رفتار سست ہے، نئے علماء بالخصوص جمعیۃ طلباء اسلام سے آنے والے نوجوانوں میں مسائل کا ادراک، نئے تقاضوں کا شعور اور کام کی جدید تکنیک سے واقفیت نسبتاً زیادہ ہے، یہ ایک تسلی بخش امر ہے۔ ہمیں وقت کا ساتھ دینا ہے، اس لیے ہمیں اپنی رفتار میں تیزی پیدا کر کے تنظیم کو انتہائی مضبوط و فعال بنانا ہے۔

سوال: جمعیۃ علماء اسلام ایک سیاسی جماعت ہے اور اس کا لوگوں کے مسائل و مشکلات کے حل میں دلچسپی لینا قدرتی امر ہے۔ اس سے نپٹنے کے لیے مرکزی سطح پر سیکرٹریٹ کا وجود اور اس میں ہمہ وقت ایک ٹیم کا سرگرم عمل رہنا ناگزیر ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: مرکزی سطح پر سیکرٹریٹ کے سلسلہ میں بار بار سوچا گیا ہے اور اب اس میں خاصی سنجیدگی پیدا ہو چکی ہے، ان شاء اللہ جمعیۃ کے نئے انتخابات کے بعد اس سلسلہ میں ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

سوال: آپ نے جمعیۃ کے پروگرام کو اس انداز میں پیش کرنے پر غور فرمایا ہے جس سے ایک طرف مزدور اور کسان اور دوسری طرف تعلیم یافتہ طبقہ بھی جمعیۃ سے متاثر ہو اور اس کا رخ کرے؟

جواب: برادرم! ہماری سیاست ہمیشہ عوام کی سیاست رہی ہے اور اس میں یہ تمام طبقے آجاتے ہیں۔ ہمارے اکابر نے ہر دور میں وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی بجائے نچلے طبقہ کے مفادات کی بات کی ہے اور ان کی مشکلات و تکالیف کے حل کے لیے صرف سیاست کے طور پر نہیں بلکہ اپنے مشن اور فرض کے طور پر ہمیشہ علم بلند کیا۔ پاکستان میں بھی ہماری سیاست کی بنیاد یہی رہی اور اس ملک میں بھی انگریز دور کے پیدا کردہ جاگیردار، سرمایہ دار مفاد یافتہ طبقہ جن کا مقصد عیاشی، لوٹ کھسوٹ اور غریبوں کا معاشی استحصال چلا آرہا ہے، کے خلاف مسلسل جہاد کیا۔ ہم نے ولی اللہی فکر کے مطابق اس نظام کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کی، یہی وجہ ہے کہ جب ۱۹۶۹ء اور ۱۹۷۰ء کے دوران ان مظالم کے خلاف عوام کے غم و غصہ کا لاوا پھٹ پڑا تو کچھ ناعاقبت اندیش جماعتوں نے اسے اسلام اور کفر کا سوال بنانے کی کوشش کی۔ اس پر کچھ علماء نے فتویٰ بھی صادر فرمایا لیکن جمعیۃ علماء اسلام نے اسے اسلام اور کفر کا معرکہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جمعیۃ کی سیاست دائیں اور بائیں بازو کی مروجہ گروپ بندی سے ہٹ کر اعتدال اور توازن کی سیاست ہے، ہم نے یہاں بھی خالص اسلامی نظام کی بات کی اور مزدور اور کسان کو اسلام کے مطابق ان کا حق دینے پر زور دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جماعت کی دوسری اسلامی جماعتوں سے کہیں زیادہ مزدور اور کسان حلقوں میں جڑیں مضبوط ہیں۔ اب بھی یکم مئی کو ہماری قیادت نے کسان مزدور کے ساتھ مل کر ان کے جائز اسلامی حقوق کی بات کی۔ رہا یہ سوال کہ پڑھے لکھے طبقہ میں ہماری جماعت کا اثر، تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملک بھر میں وکلاء، صحافی، دانشوروں کی بھاری تعداد ہماری جدوجہد میں ہمارے ہم قدم ہے۔

سوال: راشدی صاحب! یہ حقیقت ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام کا نشر و اشاعت کا شعبہ جدید تقاضوں کے مطابق نہیں۔ ملکی سطح پر لٹریچر، جماعتی رسائل و اخبارات کا فقدان اور جماعتی آرگن ترجمان اسلام کی محدود اشاعت بھی اتنی بڑی پارٹی کے شایان شان نہیں۔ یہ شعبہ آپ سے متعلق بھی ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کس قسم کی اصلاحی تجاویز ذہن میں رکھتے ہیں؟

جواب: اس سوال کے تین پہلو ہیں، سب سے پہلا سوال یہ کہ نشر و اشاعت کا شعبہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے، میں اسے تسلیم کرتا ہوں۔ میں نے ۱۹۷۵ء میں مرکزی ناظم نشر و اشاعت کا شعبہ سنبھالنے کے بعد کچھ پمفلٹوں، پوسٹروں کے ساتھ اس کی نظم نو کا آغاز کیا تھا لیکن وسائل کی کمی اور اس سے بھی زیادہ ہمارے حلقہ میں تنظیمی مزاج کا فقدان حائل ہوا اور بات آگے نہ چل سکی۔ اس قسم کا سلسلہ باہمی رابطے اور تعاون سے چلتا ہے البتہ آج میں ۱۹۷۵ء سے کچھ بہتر پوزیشن محسوس کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ مرکزی انتخابات کے بعد اس پر مزید توجہ دی جائے گی۔

دوسرا پہلو لٹریچر کا مسئلہ ہے، بد قسمتی سے ہمارے دوست لٹریچر کے معاملہ میں ایک ایسی سیاسی جماعت سے مقابلہ کرتے ہیں جہاں فکر و نظر کے تمام دائرے ایک شخصیت کے گرد گھومتے ہیں اور ایک ہی شخص کے قلم سے نکلا ہوا مختلف موضوعات پر لٹریچر اس جماعت کا طرۂ امتیاز ہے۔ لٹریچر کی ہمارے ہاں بھی کوئی کمی نہیں لیکن ہمارے ہاں لٹریچر شخصی نہیں، نہ ہم قیادت اور لٹریچر کے معاملہ میں شخصیت پرستی کو پسند کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں شروع سے قیادت میں بھی اجتماعیت رہی ہے اور اس طرح لٹریچر کے معاملہ میں بھی ہم نے اپنے فکر و نظر کو ایک شخصیت سے منسلک نہیں کیا۔ آج جدید مسائل پر، اقتصادیات و اخلاق پر آپ کو بیش بہا کتابیں مل جائیں گی جو ہمارے مسلک کے نامور اسکالر مولانا حفظ الرحمان سہارویؒ، مولانا حامد انصاری، مولانا قاری محمد طیب مدظلہ اور مولانا سید محمد میاں نے لکھی ہیں۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ اس لٹریچر کی منظم اشاعت اور تقسیم کی جائے۔ اس سلسلہ میں بھی مکتبہ رشیدیہ لاہور ایسے ادارے آگے بڑھ کر اپنی خدمات کا اعتراف کرا چکے ہیں۔

آخری پہلو رسائل و اخبارات کا ہے، جماعتی سطح پر اخبار نکالنا مشکل ہے۔ جماعت اسلامی جیسی منظم اور با وسائل جماعت بھی روزنامہ تسنیم، وفاق، اور جسارت کو پارٹی آرگن کی حیثیت میں چلا کر ناکامی کے بعد اب یہ راستہ چھوڑ چکی ہے۔ کیونکہ آج مارکیٹ میں کوئی ایسا پرچہ کامیاب نہیں ہو سکتا ہے جس پر پارٹی لیبل ہو، اس کی بجائے آج کی تکنیک یہ ہے کہ کامیاب اخبارات کے ساتھ رابطہ رکھا جائے، خبروں کی بروقت ترسیل، متعلقہ اخباری شعبوں سے مسلسل تعلق رکھا جائے، ہمیں اس سلسلہ میں کافی کوشش کی ضرورت ہے۔

اب رہا مسئلہ پارٹی آرگن ترجمان اسلام کا تو یہ بحیثیت پارٹی ترجمان کے ایک باوقار اور کامیاب ہفت روزہ ہے۔ دراصل ہمارے ساتھی جب اس کا مارکیٹ کے ہفت روزوں سے موازنہ کرتے ہیں تو انہیں اس میں ایک خلا محسوس ہوتا ہے، وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ ترجمان اسلام ایک جماعتی آرگن ہے، کمرشل مارکیٹ کا جریدہ نہیں۔

سوال: کافی عرصہ سے کارکن مرکزی اکابر کے دوروں کے منتظر ہیں اور اس کے علاوہ قیادت کی دوسری صف کا فقدان شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔

جواب: مرکزی اکابر تمام اکٹھے مل کر ملکی دورہ کرنے سے تو قاصر ہیں لیکن ہر مرکزی رہنما کسی نہ کسی شکل میں ملکی سطح پر دورے ترتیب دیتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ملکی حالات، قومی اتحاد کی صورتحال کی وجہ سے تسلی بخش دورے نہ ہو سکے۔

دوسری سطح کی قیادت کا جو فقدان محسوس کیا جا رہا ہے وہ دراصل تین دھچکوں کا نتیجہ ہے جو گزشتہ دس سال کے دوران ہمیں برداشت کرنا پڑے۔ ۱۹۶۸ء و ۱۹۷۰ء میں مولانا مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی کے بعد مولانا محمد اکرم مرحوم کا نام سامنے آیا تھا، انہوں نے بہت جلد اپنی قیادت اور صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا لیکن جلد وہ ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ اس کے بعد ۱۹۷۳ء میں دوسری صف کی اچھی خاصی ٹیم بھٹو کی محبت کا شکار ہوئی، ہم سے رخصت ہوئے اور قیادت کی دوسری صف خالی نظر آنے لگی۔ اس کے بعد بہت جلد بلوچستان کے مرد حر مولانا شمس الدین شہیدؒ اپنی خداداد صلاحیتوں، جرأت و ہمت کے ساتھ سامنے آئے اور ملک بھر کے جماعتی کارکنوں کی نظر ان پر ٹھہری، لیکن وہ بھی بھٹو کے ظلم و جبر کا لقمہ بن گئے۔ دوسری صف کے اس طرح خالی ہونے سے اس خلا کا احساس شدید ہوتا چلا گیا، اس کی شدت میں اب کچھ کمی نظر آنے لگی ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کی طرف سے جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں بالخصوص الحاج محمد زمان خان اچکزئی، حاجی فقیر محمد خان کی بے لوث خدمات، انتھک جدوجہد اور جاندار کارکردگی نے جمعیۃ کے کارکنوں کی توجہات اپنی طرف مبذول کرا لی ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ حضرات (اللہ تعالیٰ انہیں نظر بد سے محفوظ رکھے) دوسری صف کی قیادت کے خلا کو پر کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

سوال: ملک میں ایک اور سیاسی جماعت اور اس کا لیڈر فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے میں مصروف ہیں، آپ اس کے تدارک کے سلسلہ میں کیا تجاویز رکھتے ہیں؟

جواب: فرقہ وارانہ عصبیتوں کو ابھار کر مسلمانوں کی اجتماعی قوتوں کو کمزور کرنے کی تکنیک دراصل انگریز کے فرنگی ذہن کی ایجاد ہے جو کہ انہوں نے جنگ آزادی کو ناکام بنانے کے لیے کی تھی، اور برصغیر کے روایتی رسم پرست اور غیر سیاسی علماء کو فرقہ وارانہ مسائل کی بنیاد پر آزادی پسند علماء کے مقابل لا کھڑا کیا تھا، لیکن اس دور میں یہ چال ناکام رہی اور آزادی پسند علماء کامیاب ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد بھی یہی صورتحال رہی۔ جب بھی اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں کوئی مؤثر اقدام کا مرحلہ پیش آیا تو فرقہ واریت کے خوگر علماء نے اپنی روایت کو زندہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو نقصان پہنچایا۔ اور آج بھی جب ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں آچکا ہے اور اس پر عملدرآمد کی تکمیل کے لیے گزشتہ دو صدیوں کے دوران اتحاد اور اتفاق کی سب سے زیادہ اب ضرورت ہے۔ ایسے نازک مرحلہ پر یہی رسوم پرست علماء مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو تقویت پہنچانے کی بجائے فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں جو ہمارے نزدیک نہ صرف ملکی سالمیت کے نقطۂ نظر سے نقصان دہ ہے بلکہ اسلامی نظام کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔

جمعیۃ علماء اسلام نے کبھی فرقہ وارانہ بات نہیں کی، نہ ہی ہمارے دستور میں کوئی ایسی شق ہے جو کسی عقیدہ کے فرد کو ہمارا رکن بننے سے روکے۔ ہم صدر پاکستان سے ملک و قوم کے نام پر اپیل کرتے ہیں کہ اس جماعت اور لیڈر کو اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہونے سے روکے اور ضابطۂ اعلان کا پابند بنائیں۔

سوال: جمعیۃ کی طرف سے ’’کل پاکستان نفاذ نظام مصطفٰی کانفرنس‘‘ کے انعقاد کے کیا مقاصد ہیں؟

جواب: اکتوبر ۱۹۷۵ء میں گوجرانوالہ میں ’’نظام شریعت کنونشن‘‘ منعقد ہوا تھا، اس کے بعد سے اب تک ملک گیر سطح پر جمعیۃ کے کارکنوں کا کوئی ایسا اجتماع نہیں ہو سکا جس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ گزشتہ کچھ عرصہ سے مختلف مکاتب فکر نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر کانفرنسیں منعقد کیں جس کے منفی اثرات سامنے آئے۔ ہم جمعیۃ کی اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے سربرآوردہ علماء کرام کو دعوت دے کر اس تاثر کو زائل کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اسلام دشمن عناصر کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے فرقہ وارانہ عصبیتوں کے حوالہ سے اسلامی نظام کو ناکام بنانے کا جو خواب دیکھا ہے وہ شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

سوال: این ڈی پی سے انتہا پسند گروپ نکل جانے کے بعد اعتدال پسند گروپ کا پی این اے میں واپسی کا امکان ہے؟

جواب: این ڈی پی سے انتہاپسند عناصر کے جدا ہونے کے بعد اس جماعت کا قومی اتحاد سے الگ رہنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔ اور اب تو این ڈی پی کا پی این اے پر حکومت میں شامل ہونے والا واحد اعتراض بھی ختم ہوگیا ہے۔

سوال: اب میرا ذہن بلوچستان کی صورتحال کی طرف لوٹ گیا اور میں نے اسی مناسبت سے سوال کیا۔ مولانا! آپ نے ملک کے ہر صوبہ کا تفصیلی دورہ کیا ہے، آپ کو کہیں علیحدگی پسندوں کا وجود بھی نظر آیا؟

جواب: ملک میں علیحدگی پسندوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ (مولانا زاہد الراشدی نے یہ مختصر جواب اتنے سکون اور اطمینان سے دیا کہ میں اس پر مزید سوال نہ کر سکا۔)

سوال: کیا بھٹو کو پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی ختم ہوگئی؟

جواب: یہ انتہائی غلط سوچ ہے، پیپلز پارٹی ملک میں موجود ہے، اس لیے کہ بھٹو ایک شخص کا نام نہیں تھا ، ایک فکر اور نظریہ کا نام تھا جو آج بھی زندہ ہے۔ اور اس فکر اور نظریہ کا جواب گالی گلوچ اور جذبات سے نہیں بلکہ نظریہ اور فکر ہی سے دیا جا سکتا ہے۔ ہمیں پیپلز پارٹی کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے پسے ہوئے طبقہ میں جانا ہوگا اور بھٹو ازم کی ان کمین گاہوں کو ختم کرنا ہوگا جہاں آج بھی بھٹو ازم کے بچے کھچے جراثیم پناہ گزین ہیں۔

سوال: کیا قومی اتحاد کا حکومت سے علیحدگی دانشمندانہ اقدام ہے؟

جواب: پی این اے کی حکومت سے علیحدگی درست فیصلہ ہے کیونکہ اتحاد نے دو واضح مقاصد کے لیے حکومت میں شمولیت کی تھی۔ وہ اصولی طور پر پورے ہوگئے ہیں۔ قومی اتحاد اس سلسلہ میں سرخرو ہے۔ ان کے علاوہ ایک ثانوی مقصد لوگوں کے الجھے ہوئے مسائل کا حل اور عوام کی مشکلات میں کمی کرنا تھا جس کے لیے بھی اتحادی وزراء نے انتھک محنت کی، لیکن صوبوں میں سول حکومتیں نہ بننے سے انتظامیہ کی طرف سے مطلوبہ تعاون حاصل نہ ہو سکا۔ ایسے حالات میں دو مقاصد کے پورے ہونے کے بعد حکومت سے علیحدگی دانشمندانہ اقدام ہے۔

سوال: کیا آپ موجودہ رکنیت سازی سے مطمئن ہیں؟

جواب: یہ درست ہے کہ اس دفعہ رکنیت سازی پہلے کی نسبت زیادہ ہوئی ہے لیکن جتنی ہونی چاہیے تھی اتنی نہیں ہوئی۔ اور اس کی وجہ بھی باہمی رابطہ اور دلچسپی کا فقدان ہے اور اس سلسلہ میں رکنیت کی میعاد میں توسیع ہوئی ہے، جماعتی احباب کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

سوال: کیا موجودہ حالت میں بھی قومی اتحاد الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہے؟

جواب: قومی اتحاد کے سلسلہ میں ذہنوں میں کمزوری کے جو احساسات جنم لے رہے ہیں وہ صرف عوامی رابطہ کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ دنوں پی این اے کے قائدین نے ملک کے کچھ حصوں کا دورہ کیا تو عوام نے بڑی گرمجوشی سے ان کا خیرمقدم کیا جس سے اتحاد کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیاں کم ہوگئیں۔ مجھے یقین ہے کہ قومی اتحاد کی قیادت اور کارکنوں نے اسی طرح ٹیم ورک کے جذبہ سے الیکشن مہم چلائی تو الیکشن میں کامیابی حاصل کرے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter