امت مسلمہ کو درپیش فکری مسائل: چند اہم گزارشات

   
تاریخ : 
جولائی ۲۰۰۲ء

’’عصر حاضر میں اسلامی فکر ۔ چند توجہ طلب مسائل‘‘ کے عنوان سے محترم ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا مضمون نظر سے گزرا۔ یہ مضمون کم و بیش ربع صدی قبل تحریر کیا گیا تھا لیکن اس کی اہمیت و افادیت آج بھی موجود ہے بلکہ مسائل کی فہرست اور سنگینی میں کمی کے بجائے اس دوران میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے بیشتر مسائل خود میرے مطالعہ کا موضوع رہے ہیں اور بعض مسائل پر کچھ نہ کچھ لکھا بھی ہے مگر یہ خواہش رہی ہے کہ ایجنڈا اور تجاویز کے طور پر ایسے مسائل کی ایک مربوط فہرست سامنے آجائے جو اس وقت دنیا بھر میں مختلف سطحوں پر ’’اسلامائزیشن‘‘ کے حوالے سے زیر بحث ہیں یا متعدد حلقوں کی طرف سے ان پر بحث و تمحیص کا تقاضا موجود ہے۔ میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب محترم کا یہ مضمون اس ضرورت کو کافی حد تک پورا کرتا ہے اور اسے اہل علم و دانش کے حلقوں میں زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔

اب سے تقریباً پون صدی قبل مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے اپنے خطبات میں ان اصولی اور علمی مسائل کی نشاندہی کی تھی جن کا جائزہ لینا اسلام کی تعبیر و تشریح کو دور جدید کے ناگزیر تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ میرے نزدیک علامہ محمد اقبالؒ کے یہ خطبات تجاویز اور ایجنڈے کی حیثیت رکھتے تھے لیکن بدقسمتی سے موافق اور مخالف دونوں حلقوں میں انہیں ایجنڈے کے بجائے موقف کا درجہ دے دیا گیا، اول تو ان پر سنجیدگی سے بحث ہی نہیں ہوئی اور اگر گفتگو کا تھوڑا بہت سلسلہ چلا تو وہ ان خطبات کی حمایت و مخالفت کے دائرہ تک محدود رہا، اور علامہ اقبالؒ ان تجاویز اور ایجنڈے کی صورت میں متعلقہ امور و مسائل پر جس وسیع علمی مباحثہ کی توقع کر رہے تھے، وہ پوری نہ ہوئی۔

مجھے خدشہ ہے کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے اس مضمون کے ساتھ بھی یہی معاملہ نہ ہو جائے اور ان کی ’’تجاویز‘‘ بحث و تمحیص کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے بجائے ’’موقف‘‘ قرار پا کر حمایت و مخالفت کے ایک نئے بازار کو گرم کرنے کا باعث نہ بن جائیں، لیکن اس کے باوجود میں اس بات کے حق میں ہوں کہ دینی و علمی حلقوں میں ان کا یہ مضمون ایک مربوط ایجنڈے کے طور پر بار بار پڑھا جائے اور اس میں جن مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، ان پر وسیع تر دائرے میں علمی مباحثہ کا اہتمام ہو، کیونکہ اسی صورت میں ہم پیش آمدہ مسائل پر ایک متفقہ یا کم از کم اکثریتی موقف تک پہنچنے اور ان مسائل کے حوالے سے فکر جدید کے چیلنج کا سامنا کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں مجھے ایک بات کھٹکی ہے کہ وہ اسلام کی تعبیر و تشریح کے لیے روایتی دینی و علمی حلقوں کو ایک طرف کرتے ہوئے اہل دانش کے کسی نئے طبقے کو سامنے لانے کے خواہش مند ہیں اور جہاں وہ جدید فکری و علمی تقاضوں سے روایتی دینی و علمی حلقوں کی بے اعتنائی کا ذکر کرتے ہوئے ان کے تحفظات میں اس امر کا ذکر کرتے ہیں کہ:

’’انہیں یہ اندیشہ ہے کہ مکمل اسلامی نظام کے قیام کی کوششیں کہیں محدود دائرے میں بھی اسلام کے باقی نہ رہنے کا سبب نہ بن جائیں۔‘‘

وہاں انہیں اسلامی تحریکات سے یہ شکایت بھی ہے کہ:

’’ہر ملک میں اسلامی تحریکوں کو سیکولر دانشوروں کے مقابلہ میں اور مسلمان عوام میں نفوذ کے لیے علماء و مشائخ کی اہمیت محسوس کرتے ہوئے ان پر تنقید کا لہجہ نرم پڑ جاتا ہے۔‘‘

ہمارے نزدیک مسلم ممالک میں بہت سی اسلامی تحریکات نے اسی مقام پر ٹھوکر کھائی ہے کہ روایتی دینی و علمی حلقوں کے بارے میں قطعی طور پر یہ بات طے کر کے کہ ان کے ذریعے سے اسلام کی دعوت و اشاعت اور تنفیذ و ترویج کا کوئی امکان نہیں ہے، ان سے ہٹ کر نئے علمی و فکری حلقے قائم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، جن کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا ہے کہ اسلامی تحریکات کی بیشتر صلاحیتیں اور توانائیاں اپنا وجود منوانے اور روایتی دینی حلقوں کی افادیت کی نفی کرنے میں ہی صرف ہو کر رہ گئی ہیں، اور جس کام کے لیے ان نئے حلقوں کا وجود عمل میں آیا ہے، اس کی طرف توجہ کم رہی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی روایتی حلقوں اور نئے فکری حلقوں کے درمیان کشمکش اور بحث و تمحیص کی گرم بازاری نے بعض مقامات پر نئے فکری خلفشار کو جنم دیا ہے۔

روایتی دینی و علمی حلقوں کی سرد مہری، پیش آمدہ مسائل سے ان کی بے اعتنائی، اور فکر جدید کے چیلنجز کا سامنا کرنے سے ان کا گریز ایک معروضی حقیقت ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور خود ہمیں بھی ان حلقوں سے مسلسل یہ شکایت ہے۔ لیکن ان روایتی حلقوں کو، جو صدیوں کے تعامل کے نتیجے میں ایک مضبوط ادارے کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، ایک طرف کر کے اور ان کی نفی کر کے علم و دانش کی صلاحیتیں اور توانائیاں نئے فکری حلقوں کے قیام اور ان کا وجود منوانے کی کوششوں میں ضائع کرنا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے، بلکہ خود ان روایتی دینی و علمی حلقوں کے اندر اصلاح کی جدوجہد کو مربوط بنانا ہے۔ اور ہمارے خیال میں روایتی حلقوں سے ہٹ کر کام کرنے والی اسلامی تحریکات نے جتنا زور اپنا الگ وجود تسلیم کرانے میں صرف کیا ہے، اگر وہی قوت اور صلاحیتیں روایتی حلقوں کے اندر رہتے ہوئے اصلاح اور بہتری کے لیے صرف ہوتیں تو آج صورتحال خاصی مختلف ہوتی۔ البتہ اس کے لیے بہت زیادہ محنت اور جگرکاوی درکار ہے اور خود کو ثانوی درجے میں رکھنے کے حوصلے کی بھی ضرورت ہے، جبکہ ہمارے نزدیک اس مسئلے کا کوئی اور حل ممکن نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں اسلامائزیشن کا جو عمل بھی نتیجہ خیز طور پر آگے بڑھے گا وہ روایتی دینی و علمی حلقوں کے ذریعے سے ہی وجود میں آئے گا، اور ان کو نظر انداز کر کے کی جانے والی کوئی بھی کوشش نئے فکری خلفشار کو جنم دینے کے علاوہ مسلم معاشرے کی اور کوئی خدمت سرانجام نہیں دے پائے گی۔ اس لیے ہمارے سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ جدید مسائل کا ادراک و شعور اور ان کے حل کا جذبہ رکھنے والے ارباب علم و دانش کو روایتی حلقوں کے اندر ہی اپنی جگہ تلاش کرنی چاہیے اور انہی کو محنت اور تگ و دو کے ساتھ اس کام کے لیے تیار کرنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنی چاہئیں کیونکہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب محترم نے جن مسائل کو توجہ طلب قرار دیا ہے، ان کے حل کا محفوظ اور صحیح راستہ یہی ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے اس فکر انگیز مضمون پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کا یہ تبصرہ زیادہ مناسب ہے اور اسی پر اپنی معروضات ختم کر رہا ہوں کہ:

’’مضمون فکر انگیز اور پر مغز ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس طریق فکر سے سو فی صد اتفاق ہو۔ بڑے اہم سوالات ہیں جن کو زیادہ دنوں تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان کو نظر انداز کرنے کی اس عالم اسباب میں اکثر وہی سزا ملتی ہے جو متعدد آزاد ہونے والے ممالک اور مسلم معاشروں میں اس دور میں ملی ہے..... لیکن سوال یہ ہے کہ ان مسائل پر کون غور کرے؟ یا وہ لوگ ہیں جو اس کے اہل نہیں ہیں، اور جو اہل ہیں ان کو ترکی کے پچھلے دور کے علماء کی طرح اپنی دوسری مصروفیتوں سے فرصت نہیں۔ ‘‘ (بحوالہ ’’اسلام، معاشیات اور ادب‘‘ ص ۵۷‘ ۵۸ از ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی)

   
2016ء سے
Flag Counter