انفرادیت اور تنہائی پسندی کا فروغ پذیر طرزِ زندگی

   
ادارۃ الحسنات میڈیا آفیشل
۱۲ جولائی ۲۰۲۵ء

حافظ عمر فاروق بلال پوری: استاذ جی، کراچی میں کئی ماہ پرانی اداکارہ کی لاش کا واقعہ ہمیں معاشرتی اور اخلاقی طور پر کیا پیغام دیتا ہے؟

مولانا راشدی: میں اس کے بارے میں دو (تین) گزارشات کرنا چاہوں گا:

  1. ایک تو بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے فحشاء کے حوالے سے دو باتوں سے منع فرمایا ہے: (۱) ایک ہے بے حیائی کا ارتکاب، (۲) اور ایک ہے بے حیائی کے ایک واقعہ کی اشاعت۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے ’’ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین اٰمنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا والاٰخرۃ‘‘ (النور ۱۹) جو فاحشہ کے کسی واقعے کی اشاعت میں دلچسپی رکھتے ہیں، فرمایا، ان کے لیے عذابِ الیم ہے۔ واقعات ہوتے ہیں، واقعے کو پھیلانا اور اس کی بلاوجہ اشاعت کرنا اور ہر سنی سنائی بات آگے نشر کر دینا، قرآن پاک نے اس کی مذمت کی ہے۔ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔ اگر واقعہ کوئی ہوا بھی ہے تو قرآن پاک اس کی اشاعت کی اجازت نہیں دیتا۔ اور قرآن پاک کا جملہ صاف واضح ہے ’’ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین اٰمنوا‘‘ وہ لوگ جو فاحشہ کے کسی واقعہ کی اشاعت میں دلچسپی رکھتے ہیں مسلم سوسائٹی میں ’’لہم عذاب الیم فی الدنیا والآخرۃ‘‘۔ اس لیے ایک بات تو میں یہ عرض کروں گا کہ اس کو موضوع بنانے والے، اس کی اشاعت کرنے والے، ہر سنی سنائی بات کو آگے نشر کرنے والے، اور اس پر طرح طرح کے کامنٹس کرنے والے اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کریں۔
  2. دوسری بات، یہ چھ مہینے سے ایک خاتون تنہائی میں ہے اور کسی کو پتہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے کلچر، جو ڈیویلپ ہو رہا ہے، تنہائی پسندی اور علیحدگی پسندی، آپ ایک جھلک سے اندازہ کریں، ہماری (دنیا کی) جدید سوسائٹیوں میں، جو اپ ٹو ڈیٹ سوسائیٹیاں ہیں، یہ ماحول پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ پڑوسی کو پڑوسی کا پتہ نہیں ہوتا۔ ایک پڑوسی اپنے سائیڈ والے پڑوسی کو دائیں والے کو بائیں والے کو ویسے نہیں جانتا، ہاں جس دن اس کے گھر سے کوئی لاش اٹھے گی اس دن پتہ چلے گا۔ یا اب تو شادیاں میرج ہال میں ہوتی ہیں ورنہ گھروں میں ہوتی ہیں تو تب پتہ چلتا ہے۔

    یہ ہمارا آہستہ آہستہ کلچر بنتا جا رہا ہے، اور جدید سوسائٹیوں میں تو بن گیا ہے، اپنے اردگرد سے بے خبر رہنا، اپنے حال میں مگن رہنا۔ قرآن پاک اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کی اور مسلم سوسائٹی کی بنیاد صلہ رحمی پر ہے اور جوائنٹ سسٹم پر ہے، فردیت پر نہیں ہے، یہ مغرب کا فلسفہ ہے، انڈویجوئلزم۔ (اسلام کا فلسفہ یہ) نہیں (بلکہ) سوسائٹی ہے۔ میں تو یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ زمین پر انسان کی آبادی کا آغاز فرد سے نہیں ہوا، خاندان سے ہوا ہے، میاں بیوی دونوں آئے تھے، دونوں نے یہاں سے آغاز کیا تھا۔ فردیت، انفرادیت، تنہائی پسندی، اور Individualism قرآن پاک اس کی تائید نہیں کرتا۔ یہ مل جل کر رہیں۔ تو یہ اس کلچر کا لازمی نتیجہ ہے کہ جب ہر آدمی تنہا رہنا چاہے گا اور اردگرد سے لاتعلق رہنا چاہے گا تو اردگرد والے بھی لاتعلق ہوں گے۔

    اس سلسلہ میں میری ایک گزارش یہ ہے کہ اس پر غور کیا جائے کہ ہم اردگرد سے لاتعلق ہو کر کیوں رہتے ہیں؟ ہمارا مسلم سوسائٹی کا ماحول جوڑ کا ہے، بلکہ قرآن پاک نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم‘‘ (محمد ۲۲)۔ بعض مفسرین نے اس کا معنیٰٰ کیا ہے، ایسا تو نہیں ہو گا کہ تمہیں حکمرانی مل جائے تو تم قطع رحمی اور رشتوں کے توڑ کا ماحول پیدا کرو، اور زمین میں فساد پھیل جائے۔

  3. اور تیسری گزارش یہ کروں گا کہ وہ خاتون جو بھی تھیں، ایک مسلم سوسائٹی کا حصہ تھیں، وہ کس المیہ کا شکار ہوئی ہیں، کیا ہوا ہے ان کے ساتھ، ہم اپنی طرف سے کیوں مفروضے قائم کر رہے ہیں؟ جانے والے کو ویسے بھی اللہ کے حوالے کر دینا چاہیے۔ اس کی زندگی میں آپ بات کریں جو کرنی ہے تاکہ وہ دفاع کر سکے۔ مرنے کے بعد اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو اللہ کے حوالے کریں، قانونی تقاضے اگر کوئی ہیں تو پورے کریں، لیکن خوامخواہ موضوعِ بحث نہ بنائیں، یہ موضوعِ بحث بنانے سے خود اپنا بھی آدمی نقصان کرتا ہے، اور سوسائٹی میں یہ غلط باتیں پھیلتی ہیں اور ماحول خراب ہوتا ہے۔ اس لیے اس پر بحث سے گریز کیا جائے، جو اسلامی اور اخلاقی تقاضے ہیں اس کے مطابق اس کو ڈیل کیا جائے، اور خوامخواہ نچلی سطح پر، ہر سطح پر موضوعِ بحث نہ بنایا جائے۔
2016ء سے
Flag Counter