روزنامہ ایکسپریس فیصل آباد ۲۴ مئی ۲۰۱۲ء میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ پاکستان میں سزائے موت ختم کر دی جائے گی، اس ضمن میں مسوّدہ قانون تیاری کے آخری مراحل میں ہے، انہوں نے کہا کہ نئے مجوزہ قانون کے تحت تعزیرات میں سزائے موت ختم کر دی جائے گی جبکہ حدود قوانین میں بدستور یہ سزا قائم رہے گی۔
سزائے موت انسانی سوسائٹی میں شروع سے چلی آنے والی ایک اہم سزا ہے جس کا مقصد انسانی معاشرہ میں امن قائم رکھنا اور قتل و بغاوت کی روک تھام ہے، سابقہ آسمانی کتابوں تورات و انجیل میں اس سلسلہ میں صریح احکام موجود ہیں اور قرآن کریم نے بھی اس تسلسل کو قائم رکھا ہے بلکہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ ’’ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب‘‘ اے دانش والو! قصاص کے قانون میں تمہارے لیے زندگی ہے یعنی سوسائٹی کے لیے امن ہے۔ جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی قتل کو شدید ترین جرم قرار دیتے ہوئے چند صورتوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے، حکومت و عدالت کے لیے قتل یعنی سزائے موت کو قتل نا حق کے زمرہ سے نکال کر قتل حق شمار کیا ہے، اسے اسلامی سزاؤں کا حصہ بنایا ہے اور فرمایا ہے کہ:
- قصاص میں بدلہ کے لیے کیا جانے والا قتل،
- شادی شدہ زانی کے لیے سنگساری کی سزا،
- اسلامی حکومت کے باغی کا قتل،
- ارتداد کی شرعی سزا کے طور پر قتل،
- توہین رسالتؐ پر قتل،
- سوسائٹی میں ڈکیتی اور محاربہ کے مرتکب کا قتل وغیرہ ذٰلک،
نہ صرف یہ کہ ’’قتل حق‘‘ کی صورتیں ہیں بلکہ امن کے قیام کے لیے ضروری ہیں اور اسلامی سزاؤں کے نظام کا ایک اہم اور ناگزیر حصہ ہیں۔
مغربی دنیا ایک عرصہ سے ’’قتل‘‘ کو سزاؤں کے زمرہ سے نکالنے کے لیے کوشاں ہے، بہت سے مغربی ممالک نے قتل کی سزا کو اپنے عدالتی نظام سے خارج کر دیا ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کچھ عرصہ قبل ایک اکثریتی قرارداد کے ذریعے دنیا کے تمام ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے جرم و سزا کے نظام سے قتل کی سزا کو خارج کر دیں۔
ظاہر بات ہے کہ قتل کی سزا کو سزاؤں کے زمرہ سے بالکل خارج کر دینا، وحی الٰہی آسمانی تعلیمات اور قرآن و سنت کے احکام سے منافی ہونے کے علاوہ اپنے نتائج کے حوالہ سے بھی بجائے خود محل نظر ہے کہ آج کے بہت سے اہل دانش کے نزدیک سخت سزاؤں کے بغیر معاشرہ میں امن قائم کرنا اور جرائم کو روکنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور جرائم اور قتل و غارت کا آج کی انسانی سوسائٹی میں مسلسل اضافہ اس پر شاہد ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اپنے دستور کے مطابق پاکستان ایک اسلامی ریاست متصور ہوتی ہے اور اس نے دستوری طور پر قانون سازی میں قرآن و سنت کی بالادستی کا اعتراف و اعلان کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود ہماری حکومتیں عدالتی نظام اور جرم و سزا کے سسٹم کے بارے میں مغربی ایجنڈے کے آگے مسلسل سرنڈر ہوتی جا رہی ہیں جس کا مظاہرہ حدود آرڈیننس میں ’’تحفظ حقوق نسواں‘‘ کے عنوان سے کی جانے والی ترامیم کے موقع پر کھلے بندوں کیا گیا تھا اور اب سزائے موت کو ختم کرنے کے بارے میں بھی موجودہ حکومت اسی طرز عمل پر چلتی نظر آرہی ہے۔
اگرچہ وفاقی وزیر قانون نے حدود آرڈیننس میں سزائے موت کو برقرار رکھنے کی بات کی ہے لیکن ہمارے نزدیک اصولی طور پر جرم و سزا کے اسلامی نظام و قانون سے صرف نظر کر کے مغربی فلسفہ جرم و سزا کے سامنے سپر انداز ہونا ہی غلط بات اور دستور پاکستان سے انحراف ہے۔ جبکہ حدود سے ہٹ کر تعزیرات میں سزائے موت کی مکمل طور پر نفی کر دینا اسلامی تعلیمات سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ہمارے خیال میں حکومت پاکستان اور دنیا کی دیگر مسلم حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے منافی مغربی فلسفہ و ثقافت کے سامنے مسلسل سپر انداز ہوتے چلے جانے کی بجائے بین الاقوامی سطح پر مشترکہ موقف اختیار کر کے مغربی دنیا پر یہ واضح کریں کہ دنیا کے کسی بھی مسلمان معاشرہ اور ملک کے لیے قرآن و سنت کی واضح تعلیمات سے دستبرداری ممکن نہیں ہے اور گزشتہ پون صدی کے تجربات گواہ ہیں کہ اگر کسی مسلم ملک کی حکومت نے دباؤ اور مرعوبیت کے تحت مغربی ثقافت اور نظام کے ساتھ ’’ایڈجسٹمنٹ‘‘ کا راستہ اختیار کیا بھی ہے تو اس ملک کے مسلم عوام نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کا نتیجہ حکومت اور عوام کے درمیان مخاصمت اور نفرت میں اضافہ کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوا۔
اس لیے حکومت پاکستان اور اس جیسے طرز عمل کی خوگر دیگر مسلم حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں اور اسلامی تعلیمات اور مسلمان عوام کے عمومی جذبات کے متوازی چلتے رہنے کی پالیسی ترک کر کے مغربی دنیا کے ساتھ جرأتمندانہ اور دو ٹوک بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام اور خاص طور پر پاکستان کے علمی و دینی حلقوں اور مراکز کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوں اور اس سلسلہ میں مسلم عوام اور حکومتوں کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں۔