رؤیت ہلال کا مسئلہ۔ قائدین توجہ فرمائیں!

   
تاریخ : 
۲۰ نومبر ۲۰۰۳ء

رؤیت ہلال کا مسئلہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد حسن جان کے استعفٰی کے بعد مزید تشویشناک صورت اختیار کر گیا ہے۔ قومی اخبارات میں شائع ہونے والے ایک بیان میں مولانا حسن جان نے فرمایا ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمن نے کمیٹی کے دیگر حاضر ارکان کے مشورے اور رائے پر توجہ دینے کی بجائے ذاتی فیصلے پر اڑے رہنے کو ترجیح دی ہے جس کی وجہ سے ۲۸ اکتوبر کو چاند نظر نہ آنے کا اعلان ان کا ذاتی فیصلہ ہے، کمیٹی کا فیصلہ نہیں ہے۔ نیز وفاقی وزیر اطلاعات اور سیکرٹری مذہبی امور نے اس سلسلہ میں جو بیانات دیے ہیں وہ ہتک آمیز ہیں۔ دوسری طرف مولانا مفتی منیب الرحمن کا کہنا ہے کہ کمیٹی کے ارکان نے اس فیصلے پر دستخط کیے ہیں اس لیے یہ کمیٹی کا فیصلہ ہے مگر صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت نے اس میں مداخلت کی ہے اور فیصلے کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرکاری ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو ان کے فیصلے پر عملدرآمد کا اہتمام کرنا چاہیے اور اس سے اختلاف کرنے والوں کو گرفتار کرنا چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی کراچی، ملتان اور لاہور کے جن سرکردہ علماء کرام کی طرف سے احتیاطاً ایک روزے کی قضا کا مشورہ دیا گیا ہے وہ سب دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف بریلوی مکتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کے اعلان کے دفاع میں بیانات دیے ہیں جس سے اس مسئلہ پر مسلکی بنیاد پر تفریق کے خطرات دکھائی دینے لگے ہیں۔

مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کی ساکھ اور اعتماد کا بحال رہنا ضروری ہے ورنہ آئندہ رمضان المبارک اور عیدین کے متفقہ اعلان کے امکانات کم سے کم تر ہوتے چلے جائیں گے۔ عید الفطر قریب آرہی ہے اور اس سے قبل فریقین کو قریب لانا اور کسی متفقہ فیصلے کا راستہ نکالنا ضروری ہے ورنہ خلفشار بڑھ سکتا ہے جس سے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کی ساکھ اور اعتماد مجروح ہونے کے علاوہ چاند کا مسئلہ سیاسی اور مسلکی جھگڑوں کی نذر ہونے کا امکان ہے۔ ہمارے خیال میں متحدہ مجلس عمل کی ہائی کمان ہی اس سلسلہ میں فوری طور پر کوئی مؤثر رول ادا کر سکتی ہے۔ اگر مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد، پروفیسر ساجد میر اور مولانا سمیع الحق باہمی مشورے سے عملی دلچسپی لیں تو فریقین کو بٹھایا جا سکتا ہے اور مشترکہ حل کی کوئی صورت نکالی جا سکتی ہے۔

اس ضمن میں اب تک کی صورتحال کے حوالہ سے کراچی سے بعض ذمہ دار حضرات کی طرف سے ایک رپورٹ موصول ہوئی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے، اس گزارش کے ساتھ کہ عالمی اور قومی سطح پر جو لابیاں دینی حلقوں کے اتحاد سے پریشان ہیں اور ان میں خلفشار پیدا کرنے کی تاک میں ہیں ہمیں ان کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دینا چاہیے اور باہم مل بیٹھ کر مسئلہ کے حل کی کوئی صورت نکال لینی چاہیے۔

رپورٹ درجہ ذیل ہے:

’’اس مرتبہ رمضان المبارک کے چاند کے سلسلے میں جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے لیکن مزید افسوس اس بات کا ہے کہ اخبارات میں مسئلے کی جو تصویر عوام کے سامنے آئی ہے اس میں چند اہم حقائق جو اس سلسلے میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، منظر عام پر نہیں آئے۔ تاثر یہ پایا جا رہا ہے کہ جو لوگ چیئرمین رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان سے اختلاف کر رہے ہیں یا اسے مشکوک قرار دے رہے ہیں وہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کی مخالفت کر رہے ہیں، حالانکہ صحیح صورتحال یہ ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی اگر اتفاق رائے یا اکثریت سے کوئی فیصلہ کرتی تو اس کے واجب التعمیل ہونے میں کسی کو شبہ نہیں تھا، مشکل اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کی تاریخ میں پہلی بار خود کمیٹی کے درمیان ایسا اختلاف ہوا جس میں صرف چیئرمین ایک طرف تھے اور کمیٹی کے دوسرے حاضر ارکان دوسری طرف، اس سلسلے میں واقعات کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا جو اجلاس پشاور میں اتوار ۲۶ اکتوبر کو مغرب کے وقت ہوا تھا اس میں چیئرمین رؤیت ہلال کمیٹی کے علاوہ مندرجہ ذیل صرف تین اراکین شریک ہوئے۔ (۱) شیخ الحدیث مولانا حسن جان صاحب، پشاور (۲) جناب شبیر احمد کاکاخیل، ماہر فلکیات، اسلام آباد (۳) جناب قاری عبد الرشید صاحب، کوئٹہ، بلوچستان۔

  1. ساڑھے سات بجے کمیٹی کی طرف سے چیئرمین نے ریڈیو اور ٹی وی پر چاند نظر نہ آنے کا اعلان کر دیا۔
  2. مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے تینوں ارکان کی رائے یہ تھی کہ چونکہ ابھی ملک کے مختلف اطراف سے رابطہ قائم ہے، اس لیے ابھی نفی کا حتمی اعلان کرنے کے بجائے انتظار کرنا چاہیے اور چاند نظر نہ آنے کے اعلان میں اتنی جلدی نہیں کرنی چاہیے، مگر بہرحال اعلان ساڑھے سات بجے کر دیا گیا۔

    لیکن مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے دو ارکان شیخ الحدیث جناب مولانا حسن جان صاحب اور جناب شبیر احمد کاکاخیل وہیں موجود رہے تاکہ اگر گواہیاں آئیں تو چیئرمین کو اطلاع دے کر اجلاس دوبارہ بلا لیا جائے۔

  3. جب قلات (بلوچستان)، بنو، ہنگو، پنج پیر (سرحد) وغیرہ سے چاند دیکھے جانے کی اطلاعات فون پر موصول ہوئیں اور ان مقامات کے علماء کرام نے فون پر بتلایا کہ انہوں نے گواہیاں شرعی قاعدے کے مطابق وصول کی ہیں تو چیئرمین کو اس کی اطلاع دی گئی اور کمیٹی کا اجلاس دوبارہ ہوا۔
  4. چیئرمین جناب مفتی منیب الرحمن صاحب نے پیر ہی کے روز جبکہ صوبہ سرحد میں روزہ تھا دارالعلوم کراچی کے سربراہ مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کو ان کے استفسار پر یہ تفصیل بتائی تھی کہ پہلے اجلاس میں ہم چار افراد شریک تھے (جن کے نام اوپر بیان ہوئے ہیں) اور دوسرے اجلاس میں ہم صرف تین افراد شریک تھے، ایک یعنی میں چیئرمین، دوسرے مولانا حسن جان صاحب، اور تیسرے جناب شبیر احمد کاکاخیل صاحب، جبکہ چوتھے جناب قاری عبد الرشید صاحب کوئٹہ واپس جا چکے تھے۔ ان دو ارکان کمیٹی نے گواہیوں کو قبول کر لیا اور میں نے کہا کہ میں پچھلے فیصلے پر قائم ہوں، نئی گواہیوں پر اگر کوئی روزہ رکھنا چاہے تو رکھ لے۔

مذکورہ بالا تفصیل کو سامنے رکھ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا دوسرا اجلاس جو عشاء کے بعد ہوا اس میں کمیٹی نے کوئی متفقہ فیصلہ نہیں کیا بلکہ اس فیصلے میں اختلاف تھا، جیسا کہ ۲۷ اکتوبر کے اخبارات کی رپورٹ سے بھی ظاہر ہے۔ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے دونوں حاضر ارکان کی رائے یہ تھی کہ موجود شہادتوں کی بنیاد پر پیر کے دن روزے کا فیصلہ کر دیا جائے، جبکہ چیئرمین کی رائے مختلف تھی۔ ایسی صورت میں کمیٹیوں اور عدلیہ کے مسلمہ اصولوں کے مطابق چیئرمین صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ ارکان کی اکثریت کے مطابق فیصلے کا اعلان کر کے اپنی رائے بطور اختلافی رائے ذکر فرما دیتے، لیکن انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے یہ اعلان کیا کہ میں اپنے پچھلے فیصلے پر قائم ہوں، جو لوگ نئی شہادتوں کی بنیاد پر پیر کے روز روزہ رکھنا چاہیں وہ روزہ رکھ لیں۔

لہذا اب صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف کمیٹی کے ارکان کی متفقہ رائے ہے اور دوسری طرف چیئرمین کا اعلان، حالانکہ صدر پاکستان کی طرف سے پورے ملک میں رؤیت ہلال کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف چیئرمین کو نہیں دیا گیا بلکہ کمیٹی کو دیا گیا ہے جس کا ایک حصہ چیئرمین بھی ہے، اور چیئرمین نے اپنے آخری اعلان میں فیصلے کو کمیٹی کے بجائے خود اپنی طرف منسوب کیا اور ساتھ ہی دوسری شہادتوں کے بارے میں خود ہی یہ بھی کہا کہ جو لوگ ان کی بنیاد پر روزہ رکھنا چاہیں رکھ لیں، اس اعلان کی وجہ سے صورتحال زیادہ مشکوک اور مبہم ہو گئی۔

اس افسوسناک اور مبہم صورتحال کے لیے پہلے ہی دن سے یہ کوشش کی گئی کہ اس ابہام کا ازالہ خود مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے ذریعے سے ہو جائے اور جناب چیئرمین اور دوسرے معزز ارکان سے براہ راست ان کا موقف معلوم کر کے کسی ایک متفقہ نتیجے پر پہنچا جا سکے، اور خود مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی ہی کی طرف سے صورتحال کی وضاحت ہو جائے تاکہ ملک میں کوئی خلفشار پیدا نہ ہو۔ چنانچہ مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے پیر ۲۷ اکتوبر کے دن چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی جناب مفتی منیب الرحمن صاحب کو فون کر کے صورتحال دریافت کی تو انہوں نے اس اختلاف کا ذکر کیا جو ان کے اور ارکان مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے درمیان پیش آیا تھا۔ مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے ان سے کہا کہ بہتر ہوگا کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے ہم سب کا باہمی مشورہ ہو جائے مگر انہوں نے کہا کہ میں آج ہی دبئی جا رہا ہوں اور ۳ نومبر کو واپس آؤں گا، مفتی صاحب نے ان سے درخواست کی کہ مسئلہ بہت اہم ہے، پورے ملک کے دارالافتاؤں، علماء و عوام کی طرف سے سوالات آنے شروع ہو گئے ہیں، اگر متفقہ فیصلے میں تاخیر ہوئی تو پورے ملک میں خلفشار پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، اس نزاکت کے پیش نظر آپ اگر اپنا سفر ایک دو روز کے لیے ملتوی کر دیں تو بہتر ہے، مگر انہوں نے انکار کیا۔ مفتی صاحب نے ان سے پھر کہا کہ آپ اپنا دبئی کا نمبر ہمیں دے دیں تاکہ مشورہ کے لیے آپ سے رابطہ کی ضرورت ہو تو رابطہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی نمبر میرے پاس نہیں۔ البتہ وہاں جانے کے بعد ایسا کوئی فون نمبر دستیاب ہوگیا تو اطلاع کر دوں گا۔ اور جب ۳ نومبر کو واپس آ جاؤں گا تو کوئی مشورہ بھی ہو سکے گا اور اس میں آپ کو بھی بلا لیا جائے گا۔ مگر انہوں نے دبئی جانے کے بعد کوئی نمبر دیا اور نہ وہاں سے آنے کے بعد کوئی رابطہ کیا۔ اس کے برعکس جس رات کو وہ دبئی گئے اس سے اگلی صبح کو اخبارات میں ایک مسلک کی کئی تنظیموں کے بیانات شائع کرائے گئے کہ چیئرمین کا فیصلہ بالکل درست ہے، ان تنظیموں کے پاس اس دعوے کی کیا دلیل تھی وہ آج تک معلوم نہ ہو سکی۔

اسی اثنا میں مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے دونوں حاضر ارکان اور بلوچستان کے قاری عبد الرشید صاحب سے اور ملک کے ماہر فلکیات سے نیز بنوں، ہنگو، پنج پیر، کوئٹہ، قلات، پشین اور دیگر مقامات پر جن علماء کرام نے شہادتیں جمع کی تھیں ان تمام کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں اور یہ معلومات کراچی، سندھ اور پنجاب کے تمام اہم دارالافتاء میں بھیجی گئیں اور ان سے درخواست کی گئی کہ ان معلومات کی روشنی میں خالص فقہی اور شرعی نقطہ نظر سے غور کیا جائے جن میں مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب کا مدرسہ جامعہ نعیمیہ کراچی بھی شامل تھا۔

رؤیت ہلال کمیٹی کے جن ارکان نے پیر کے روزے کی رائے دی تھی ان سے رابطہ کے دوران یہ بات بھی واضح ہوئی کہ انہوں نے پشاور اور چارسدہ کی ان شہادتوں پر اعتماد نہیں کیا جو روایتی طور پر ناقابل قبول سمجھی جاتی ہیں بلکہ پشاور سے وصول ہونے والی شہادتوں کو مسترد کر دیا تھا، نیز متعدد ماہرین فلکیات سے، جن میں سپارکو کے ایک ماہر فلکیات کے علاوہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے ایک رکن جناب شبیر کاکاخیل بھی شامل ہیں، یہ معلوم ہوا کہ اتوار ۲۷ اکتوبر کو چاند نظر آنا مشکل ضرور تھا مگر ناممکن نہیں تھا، کیونکہ چاند کی عمر اس وقت ۲۴ گھنٹے ہو چکی تھی جبکہ نظر آنے کا امکان ۱۷، ۱۸ گھنٹے کے بعد ہو جاتا ہے۔

چونکہ پیش نظریہ تھا کہ مسئلہ کو خالص شرعی بنیادوں پر حتی الامکان اتفاق رائے سے حل کیا جائے اس لیے چیئرمین رؤیت ہلال کمیٹی کی طرف سے کوئی جواب نہ آنے کے بعد علامہ شاہ احمد نورانی سے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے فون پر رابطہ کیا اور ان کی قیام گاہ پر ۱۱ نومبر کو بعد تروایح مجلس مشاورت طے ہوئی، جس میں چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب کو بھی دعوت دی گئی، مگر جب دعوت دینے کے لیے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے تشریف آوری کا وعدہ کرنے کے بجائے یہ کہا کہ میں علامہ شاہ احمد نورانی سے رابطہ کر کے جواب دوں گا لیکن پھر ان کا کوئی جواب نہ آیا، بالآخر شاہ احمد نورانی صاحب کی طرف سے ناسازی طبع کی بنا پر مجلس مشاورت منسوخ کر دی گئی۔

چونکہ عشرہ آخیرہ قریب آ رہا ہے اور پورے ملک سے سوالات کی بھر مار تھی مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین صاحب سے مشاورت کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں، اس لیے کراچی کے جن اداروں کے علماء کرام کو مختصر وقت میں جمع کرنا ممکن ہوا ان کی ایک مجلس مشاورت جامعہ دارالعلوم کراچی میں ۱۲ نومبر کو منعقد کی گئی جس میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے علاوہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن، جامعہ فاروقیہ، جامعہ بنوریہ، اشرف المدارس اور جامعہ دارالخیر وغیرہ شامل تھے، سب حضرات کا اس بات پر اتفاق تھا کہ صورتحال چونکہ مبہم ہے اس لیے ملک میں کوئی خلفشار پیدا ہونے سے بچاؤ کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے اور کسی پر کوئی الزام عائد کیے بغیر لوگوں کو خالص دینی بنیاد پر احتیاط کا مشورہ دے دیا جائے۔ چنانچہ اس اجتماع نے رمضان کی تاریخ تبدیل کر کے یا روزے کی قضاء واجب ہونے کا فتویٰ دینے کے بجائے مندرجہ ذیل اعلامیہ جاری کیا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ وکفٰی وسلام علٰی عبادہ الذین اصطفٰی۔

آج بتاریخ ۱۱ نومبر ۲۰۰۳ء کراچی کے اہل فتویٰ علماء کا ایک اجتماع دارالعلوم کراچی (کورنگی) میں ہوا جس میں رمضان المبارک کے چاند کے سلسلے میں رؤیت ہلال کمیٹی کے اختلافی فیصلے سے پیدا ہونے والے مسائل پر غور کیا گیا اور متعلقہ حالات و واقعات اور شرعی احکام پر غور و خوض کے بعد حسب ذیل قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی:

’’ہم پاکستان کے مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس مرتبہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اختلافی اور مبہم فیصلے کی وجہ سے ۲۷ اکتوبر کو چاند نظر آنے یا نہ آنے کے بارے میں صورتحال کم از کم مشکوک ضرور ہو گئی ہے، لہٰذا جن حضرات نے پیر ۲۷ اکتوبر کو روزہ نہیں رکھا وہ احتیاطاً ایک روزے کی قضا کر لیں، اور احتیاطاً اعتکاف ۱۵ نومبر کی شام سے شروع کر دیا جائے۔‘‘

صورتحال کی یہ وضاحت ان حقائق کو سامنے لانے کے لیے کی گئی ہے جن کی پوشیدہ ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس کا مقصد خدانخواستہ کوئی بحث و مباحثہ کی فضا پیدا کرنا نہیں، نہ کسی کی مخالفت یا موافقت مقصود ہے۔ تمام اہل علم اور عوام سے یہ دردمندانہ اپیل ہے کہ خالص عبادت کے مسئلہ کو مسلمانوں میں تفرقہ کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور اگر اختلاف رائے بھی ہو تو اس کو علمی حد تک محدود رکھا جائے۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter