ان دنوں بعض دوست انتہائی تعجب سے پوچھتے ہیں کہ تم آرام سے گھر میں کیسے بیٹھے ہو اور وقت کیسے گزرتا ہے؟ ان کا تعجب بجا ہے اس لیے کہ میرے ساتھ پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں۔ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ مجھے ’’دابۃ الارض‘‘ کہا کرتے تھے اور خاندان کے کسی معاملہ میں میری حاضری ضروری ہوتی تو وہ گھر والوں سے فرماتے کہ اس دابۃ الارض کو تلاش کرو کہاں ہے۔ حتٰی کہ جب جامعہ نصرۃ العلوم میں میرے ذمہ کچھ اسباق لگائے گئے تو اس کے لیے عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے اساتذہ کے اجلاس میں کہا کہ زاھد کو بھی دو تین سبق دینے چاہئیں۔ اس پر والد گرامیؒ نے فرمایا کہ اس دابۃ الارض کو باندھے گا کون؟ حضرت صوفی صاحبؒ نے کہا کہ اچھا پڑھائے گا۔ والد محترمؒ نے فرمایا کہ وہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ اچھا پڑھائے گا مگر اسے باندھے گا کون؟ پھر ان بزرگوں نے مجھے ایسا باندھا کہ اب اسباق کے دوران اگر کبھی طلبہ سے کہوں کہ میں دو تین روز تک نہیں آ سکوں گا تو وہ مجھے تعجب سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اگرچہ ایسا سال میں دو تین بار ہی ہوتا ہے مگر اساتذہ اور طلبہ کے لیے تعجب کا باعث ہوتا ہے۔ یہ میرے بزرگوں کا ہی فیض ہے، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔
اپنی سیلانی طبیعت اور متحرک مزاج پر ایک اور بڑی شہادت اب تک چھپائے پھرتا ہوں، وہ بھی میرے خیال میں اب ریکارڈ پر آ جانی چاہیے۔ جماعتی زندگی کے ابتدائی کئی سال مجھے مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی رفاقت میں گزارنے کی سعادت حاصل رہی ہے۔ میں ایک کارکن کے طور پر جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی دفتر اور بعض اسفار میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ ایک بار ان سے کسی دوست نے میرے بارے میں کہا کہ وہ بڑا متحرک کارکن ہے، بے ساختہ فرمایا کہ وہ تو ’’متحرک بلا اِرادہ‘‘ ہے۔
میری شادی کے موقع کی بات ہے، حضرت والد محترمؒ کے استاد گرامی حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ ہمارے ساتھ بارات میں تشریف لے گئے تھے، میرا سسرالی قصبہ گلیانہ ہے جو لالہ موسٰی سے مشرق کی جانب چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ میرا نکاح حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ اور حضرت مولانا نذیر اللہ خانؒ دونوں نے مل کر پڑھایا تھا، ایک بزرگ نے خطبہ پڑھا تھا اور دوسرے بزرگ نے ایجاب و قبول کرایا تھا۔ یہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات سے قبل الیکشن مہم کا دور تھا اور حضرت مفتی عبد الواحدؒ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے۔ شادی والے دن ہم سے رخصت ہوتے ہوئے حضرت مفتی صاحبؒ نے میرے کان میں فرمایا کہ کل شام کا فلاں جگہ کا جلسہ بہت اہم ہے، اسے نہ بھول جانا۔ مجھے وہ یاد تھا اور بحمد اللہ تعالٰی میں نے اس میں حاضری دی۔
اس سلسلہ میں ایک اور بات شاید پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ ایک موقع پر میں جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے ساتھ ساتھ مرکزی ناظم انتخابات بھی تھا اور پورا ملک میری جولانگاہ تھا۔ حضرت والد گرامیؒ ایک دن فرمانے لگے ’’او خبطی! تم ایک دن کہیں ہوتے ہو دوسرے دن کہیں اور سے خبر آتی ہے، اور تیسرے دن کسی اور صوبے میں بیٹھے ہوتے ہو، یہ بتاؤ کہ سوتے کب ہو؟‘‘ میں نے مسکرا کر بات ٹال دی۔ انہی دنوں گوجرانوالہ کے ہمارے پرانے بزرگ حاجی محمد ابراہیم عرف کالے خان مرحوم کے فرزند حاجی محمد مبین مرحوم کی شادی تھی، برات چنیوٹ سے آگے لالیاں جانی تھی، حضرت والد محترمؒ کے ساتھ میں بھی تھا۔ ہم دونوں باپ بیٹا کو انہوں نے ایک ویگن میں ڈرائیور کے پیچھے والی کھلی سیٹ دے دی اور ہم روانہ ہو گئے۔ سفر شروع ہوا تو مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ راستے میں قلعہ دیدارسنگھ سے گزرے تھے اس کے بعد کی مجھے کچھ خبر نہیں کہ اگلی سیٹ پر سر ٹکا کر میں سو گیا تھا۔ چنیوٹ سے گزرتے ہوئے ایک مسجد کے سامنے نماز کے لیے بارات رکی تو والد صاحب نے مجھے کندھے سے پکڑ کر جگایا اور فرمایا کہ اٹھو نماز پڑھ لیں، اور کہا اب مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم کہاں اور کب سوتے ہو۔
اس پس منظر میں دوستوں کا مجھ سے یہ پوچھنا بے جا نہیں ہے کہ تم آرام سے گھر میں کیسے بیٹھے ہو؟ پہلی بات یہ ہے کہ اس بحران کے دوران ڈاکٹر صاحبان کے مشوروں اور سرکاری ہدایات پر اگر سو فیصد نہیں تو کم از کم اسی فیصد ضرور عمل کر رہا ہوں، بحمد اللہ تعالٰی۔ الشریعہ اکادمی اور میرا گھر آمنے سامنے ہیں، دن رات وہیں گزرتے ہیں۔ خیال تھا کہ فرصت کے اوقات میں کچھ مسودات دیکھ لوں گا جو کافی عرصہ سے لائن میں لگے ہوئے ہیں مگر ایک دو مسودات کو ہاتھ لگانے کے بعد احساس ہوا کہ نزدیک کی نظر خاصی کمزور ہو گئی ہے اور عینک کے شیشوں کا نمبر تبدیل کرانا ضروری ہو گیا ہے جو کہ اب مارکیٹ کھلنے کے بعد ہی ہو سکے گا۔ اب صرف یہ ہو رہا ہے کہ ویب سائیٹ پر اشاعت کے لیے کچھ پرانے کالموں کی پروف ریڈنگ کر لیتا ہوں اور ہفتہ میں ایک دو نئے کالم بمشکل لکھ پاتا ہوں۔ اس کے علاوہ اخبارات کی سرخیاں دیکھ لیتا ہوں جبکہ خبر تفصیل کے ساتھ پڑھنے کے لیے خود پر خاصا جبر کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ مطالعہ کی مصروفیت تو اتنی نہیں ہے اور زیادہ وقت موبائل پر واٹس ایپ کے رابطوں میں گزرتا ہے جو بجائے خود نظر کے لیے نقصان دہ ہے مگر مجبوری ہے۔
بچے بحمد اللہ تعالٰی سعادت مند اور خدمت گزار ہیں۔ بڑا بیٹا ڈاکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر میرے آنے جانے، کھانے پینے، آرام وغیرہ کے بارے میں پوچھتا رہتا ہے۔ عمار خان کی فیملی اوپر والی منزل میں جبکہ ہمارے ساتھ نیچے والی منزل میں چھوٹے بیٹے حافظ ناصر الدین خان عامر کی فیملی رہتی ہے۔ عامر خان نماز فجر کے بعد چائے بنا کر پلاتا ہے اور اس نے رات کو سونے سے قبل دوائی کھلانے اور ٹانگیں دبانے کے ساتھ ساتھ میرے لکھنے پڑھنے اور کمپوزنگ وغیرہ کے معاملات سنبھال رکھے ہیں۔ اہلیہ اور دونوں بہوویں ہر وقت دھیان رکھتی ہیں اور ضرورت کی ہر چیز مجھے وقت پر میسر رہتی ہے۔ دن کا آغاز واٹس ایپ پر بیٹی کی دعا اور اس پر میری آمین سے ہوتا ہے۔ چار نواسوں اور تین پوتوں سے اللہ رب العزت نے نواز رکھا ہے، سب کے سب فرمانبردار اور ماشاء اللہ سمجھدار ہیں۔
آخر میں اس داستان کا اختتام اس کے سب سے خوبصورت پہلو پر کر رہا ہوں کہ رات کو سونے سے قبل عمار خان کا چھوٹا بیٹا اور میرا سب سے لاڈلا گیارہ سالہ پوتا ابدال خان یہ کہہ کر بچوں کے مختلف رسالے ہاتھ میں پکڑے نیچے آجاتا ہے کہ دادا ابو بور ہو رہے ہوں گے میں جا کر انہیں کچھ لطیفے سنا دوں۔ پھر وہ ہمیں لطیفے سناتا ہے اور ہم بیٹھ کر اس کے لطیفوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ویسے بچوں کے ساتھ مفید معلومات اور چٹکلوں کا سلسلہ دن کے وقت بھی چلتا رہتا ہے اور واٹس ایپ پر ان کے ساتھ تبادلہ ہوتا رہتا ہے، اللہ تعالٰی ان سب کو سعادت دارین سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔