روزنامہ جنگ لاہور ۲۵ اگست ۲۰۰۵ء کی خبر کے مطابق اقوام متحدہ کے فنڈ برائے بہبود آبادی نے آبادی کی روک تھام کے لیے پاکستان کو دی جانے والی امداد بند کر دی ہے اور وزارت بہبود آبادی کے ساتھ چلنے والے اپنے تمام منصوبے ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اسٹاف اور گاڑیوں کو بھی واپس لے لیا ہے، جس پر پاکستان نے یہ معاملہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میں مذکورہ پروگرام کے انچارج ڈاکٹر مبشر کا کہنا ہے کہ وہ امداد دیتے ہیں مگر وزارت کے افسر اس میں غبن کرتے ہیں اور اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ اسے قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جو انتظامی مشنری اور بیوروکریسی میسر آئی ہے اس نے کرپشن اور بدعنوانی میں کمال حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا، افراد کی حد تک اس میں دیانتدار اور فرض شناس حضرات ہر دور میں موجود رہے ہیں لیکن ایک طبقہ اور ادارہ کے طور پر ہماری بیوروکریسی کا کردار کبھی قابل تعریف نہیں رہا۔ پاکستان کو مختلف حوالوں سے ملنے والی بیرونی امداد بلکہ بیرونی قرضوں کا معاملہ بھی یہی چلا آرہا ہے کہ اسے اصل مقاصد اور صحیح مصرف پر خرچ کرنے کی بجائے اس سے افسران نے اپنی جیبیں بھری ہیں اور مراعات یافتہ طبقوں نے عیاشی کا سامان فراہم کیا ہے۔ مختلف مدّات میں حاصل کیے جانے والے قرضوں اور متعدد عالمی اداروں اور حکومتوں کی طرف سے ملنے والی امداد کا جائزہ لیا جائے تو کم و بیش ہر شعبہ میں صورتحال وہی ہے جس کا تذکرہ بہبود آبادی کے لیے ملنے والی امداد کے حوالہ سے اس پروگرام کے انچارج نے کیا ہے۔
اس کی ایک اور مثال گزشتہ دنوں اس وقت سامنے آئی جب امریکہ نے پاکستان میں دینی مدارس کی اصلاح کے نام پر اربوں روپے کی امداد حکومت پاکستان کو فراہم کی جسے قبول کرنے سے دینی مدارس کے تمام وفاقوں نے انکار کر دیا جبکہ سرکاری طور پر اعلان کیا گیا کہ اس رقم کا بڑا حصہ تقسیم کر دیا گیا ہے۔ مگر جب ہماری طرف سے سوال ہوا کہ دینی مدارس نے یہ رقم قبول نہیں کی تو اسے کن لوگوں میں تقسیم کیا گیا ہے تو اس کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ ظاہر ہے کہ اس کا بھی وہی حشر ہوا ہوگا جو آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے دی گئی امداد کا ہوا ہے اور جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کو نہ صرف یہ امداد بند کرنا پڑی ہے بلکہ اس نے اپنا عملہ اور گاڑیاں بھی واپس منگوا لی ہیں۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کی جانے والی کاروائیوں کی اسلامی تعلیمات کی رو سے کیا حیثیت ہے اور معاشرہ میں اس کے منفی یا مثبت طور پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں، مگر کسی بھی شعبہ میں بیرون ملک سے آنے والی امداد کا اس طرح غبن اور خوردبرد ہو جانا ایک مستقل المیہ ہے جو ہماری قومی زندگی کی تباہی کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ بھی اسلامی تعلیمات سے رو گردانی کا نتیجہ ہے ورنہ اگر بیورو کریسی کے لیے بھرتی کیے جانے والے افراد کی تعلیم و تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق کی جائے اور انتظامیہ، عدلیہ اور نقشہ کا ڈھانچہ خلافت راشدہ کے سنہری اصولوں کی روشنی میں ترتیب دیا جائے تو بددیانتی، کرپشن اور نااہلی کے اس عفریت پر قابو پایا جا سکتا ہے جس نے قومی زندگی کے تمام شعبوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور جس کی موجودگی میں اصلاح احوال کی کوئی صورت کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔