برطانیہ والوں کے بقول اکیسویں صدی عیسوی کا آغاز ہوگیا ہے اور میں نے بھی نئی صدی کا آغاز برطانیہ میں ہی کیا ہے۔ اگرچہ اکیسویں صدی کے آغاز میں اختلاف ہے کہ ۲۰۰۰ء سے نئی صدی شروع ہوگئی ہے یا ۲۰۰۱ء میں شروع ہوگی۔ چین اور اس کے ساتھ بعض اور حلقوں کا خیال ہے کہ بیسویں صدی ۲۰۰۰ء کا سال مکمل ہونے پر ختم ہوگی اور اس کے بعد ۲۰۰۱ء سے اکیسویں صدی کا آغاز ہوگا اس لیے وہ نئی صدی کی تقریبات اگلے سال منائیں گے۔ مگر برطانیہ نے نئی صدی کا آغاز گزشتہ روز کر دیا ہے اور پورے جوش و خروش کے ساتھ کیا ہے۔
گزشتہ دنوں قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد کا ایک بیان اخبارات کی زینت بنا تھا کہ وہ نئی صدی کے آغاز کے بارے میں عوامی جمہوریہ چین کے موقف کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی جماعت نئی صدی کی تقریبات چین کے ساتھ منائے گی۔ اس سلسلہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزا طاہر احمد تو اکیسویں صدی کی تقریبات منانے کا اعلان کر رہے ہیں مگر ان کے دادا مرزا غلام احمد قادیانی نے چودھویں صدی ہجری کو دنیا کی آخری صدی قرار دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اس کے بعد اور کوئی صدی نہیں ہے اور وہ اس آخری صدی کے مجدد اور مہدی ہیں۔ مگر چودہویں صدی ختم ہوئی اور پندرہویں صدی ہجری شروع ہو کر اس کے بیس سال گزر چکے ہیں اور اب مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے مرزا طاہر احمد اس کے بھی ایک سال بعد نئی عیسوی صدی شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں۔ اسی سے مرزا غلام احمد قادیانی کے دعاویٰ اور ان پر خود ان کے اپنے خاندان کے اعتقاد و ایمان کا وزن معلوم کیا جا سکتا ہے۔
خیر نئی عیسوی صدی شروع ہوگئی ہے یا اگلے سال شروع ہوگی یہ بحث اپنی جگہ مگر اس حوالہ سے چند گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
عیسوی صدی کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے ہوتا ہے اور چونکہ ہمارے یعنی مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات نہیں ہوئی بلکہ وہ زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے تھے اور قیامت سے پہلے اسی دنیوی زندگی کے ساتھ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے، تو اس لحاظ سے یہ عیسوی سن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر کا بھی تعین کرتا ہے کہ ان کی عمر شمسی لحاظ سے دو ہزار برس ہوگئی ہے اور وہ نسل انسانی کی سب سے لمبی عمر والی شخصیت ہیں۔
عیسوی سن کا حساب سورج کی گردش کے مطابق ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہجری سن کا حساب چاند کی گردش کے مطابق کیا جاتا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں دنوں اور اوقات کے تعین و حساب میں سورج اور چاند دونوں کی گردش کا اعتبار کیا گیا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ شرعی احکام میں دنوں کا تعین چاند کی گردش سے ہوتا ہے جبکہ اوقات کا تعین سورج کی گردش کے مطابق طے پاتا ہے۔ مثلاً آج کل رمضان کا مہینہ جاری ہے، رمضان کے مہینے اور دنوں کا تعین ہم چاند دیکھ کر کرتے ہیں جبکہ روزے کے سحری و افطار کے اوقات سورج کی گردش کے مطابق متعین ہوتے ہیں۔ یہی حال لیلۃ القدر، عیدین، حج، پنج وقتہ نماز اور دیگر احکام کا ہے۔
چاند کا سال سورج کے سال سے چند دن چھوٹا ہوتا ہے اور غالباً ۳۶ برس کے بعد ایک سال کا فرق پڑ جاتا ہے۔ اس پر ایک بزرگ نے خوب تبصرہ کیا ہے کہ اسلامی شریعت میں دنوں اور مہینوں کے تعین میں چاند کی گردش کا اعتبار کرنے کی ایک حکمت یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مثلاً رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں اور یہ مبارک مہینہ پینتیس چھتیس برس کے دوران سال کے سارے موسموں میں اپنی گردش مکمل کر لیتا ہے۔ اس طرح چودہ پندرہ سال کی عمر میں بالغ ہونے کے بعد ایک مسلمان کو پچاس برس کی عمر تک مسلسل روزے رکھنے کی صورت میں سال کے ہر موسم کے روزے مل جاتے ہیں۔
نئی صدی کے آغاز پر مختلف حوالوں سے یہ بحث جاری ہے کہ دنیائے انسانیت بالخصوص عالم اسلام اس صدی کا آغاز کس ماحول میں کر رہا ہے اور نئی صدی کے تقاضے کیا ہیں؟ اس حوالہ سے کسی بھی بحث میں پڑے بغیر اختصار کے ساتھ یہ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں نے گزشتہ صدی عیسوی یعنی بیسویں صدی کا آغاز اس ماحول میں کیا تھا کہ دنیا کے بہت سے مسلم ممالک مغربی استعماری ملکوں کی نوآبادیاں بنے ہوئے تھے۔ خود ہم پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور برما کے وسیع خطے میں برطانوی استعمار کی غلامی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے اور آزادی کی تحریکیں مختلف سمت سے آگے بڑھ رہی تھیں۔ دوسری طرف عالم اسلام کی سیاسی وحدت کے آخری علامتی مرکز ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کو سبوتاژ کرنے کے لیے یورپی ممالک کی سازشیں نقطۂ عروج کو پہنچی ہوئی تھیں اور ملت اسلامیہ مغربی قوتوں کے مقابلہ میں مسلسل پسپائی کی حالت میں تھیں۔ لیکن بیسویں صدی کے وسط سے ہی حالات نے پلٹا کھانا شروع کیا اور دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور اسلامی نظام کی اجتماعی زندگی سے بے دخلی کے تھوڑے عرصے بعد اسلام ہی کے نام پر ایک نئی سلطنت وجود میں آگئی اور متعدد مسلمان ملکوں کی سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں اسلامی نظریاتی تحریکوں نے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ اور صدی کے اختتام سے قبل پورا عالم اسلام نہ صرف اسلامی نظام کے نفاذ کی نئی تحریکات سے متعارف ہوگیا ہے بلکہ جس جہاد کےختم کرنے کے لیے یورپی قوتوں نے پورا زور صرف کر دیا تھا اس جہاد کا پرچم اٹھانے والے نوجوان دنیائے اسلام کے ہر خطے میں منظم ہو رہے ہیں اور جہادی تحریکات کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔
آج اگرچہ ہم معاشی طور پر آزاد نہیں ہیں، عسکری طور پر معاصر دنیا سے بہت پیچھے ہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید ترین تکنیک سے بڑی حد تک محروم ہیں لیکن اسلام کے ساتھ وابستگی، آزادی اور اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے حوالہ سے ہم الحمد للہ تعالیٰ معاصر قوموں سے بہت آگے ہیں۔ اور دنیا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ تمام تر محرومیوں اور پسپائی کے باوجود مسلمانوں نے اپنے عقیدہ، تہذیب اور ماضی سے دستبرداری قبول نہیں کی اور وہ اس محاذ پر مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
اس لیے بیسویں صدی کا آغاز ہماری پسپائی کا عنوان تھا مگر اکیسویں صدی ہماری پیش قدمی اور پیش رفت کا پیغام لے کر آئی ہے۔ آج کا مجموعی منظر یہ ہے کہ مسلمانوں کی عام صفوں میں دینی بیداری اور اپنے عقیدہ و تہذیب کے ساتھ وابستگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ پیش قدمی کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ مگر مسلمان حکومتیں ابھی تک نوآبادیاتی ماحول سے باہر نہیں نکل سکیں اور بدستور مغربی آقاؤں کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں۔ اس لیے نئی صدی کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ مرعوب اور غلامانہ ذہنیت کی حامل مسلمان حکومتوں سے جس قدر ممکن ہو نجات حاصل کی جائے اور اسلامی تحریکات میں باہمی ربط و مفاہمت کی صورتیں پیدا کی جائیں تاکہ عالم اسلام ایک بار پھر انسانی معاشرہ کی قیادت کر کے انسان کو انسان کی خدائی کے مکروہ منظر سے نجات دلا سکے۔