انتخابات اور توقعات

   
تاریخ : 
۱۰ مئی ۲۰۱۳ء

حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی ہم سب کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ ملک کے مختلف انتخابی حلقوں میں گھوم پھر کر ان امیدواروں کے درمیان مفاہمت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو ہم مسلک ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں اور مذہبی ووٹ کو تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ جگ ہنسائی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔

ہمارے تین بزرگوں حضرت مولانا سلیم اللہ خان، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر کی طرف سے اس سلسلہ میں مشترکہ دردمندانہ اپیل مسلسل شائع ہو رہی ہے اور راقم الحروف نے بھی متعدد کالموں میں اس درد کا اظہار کیا ہے مگر اس حوالہ سے عملی جدوجہد کے لیے جو چند حضرات مختلف حلقوں میں سرگرم عمل ہیں ان میں مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی سرِ فہرست ہیں اور ان کی سرگرمیاں اور بعض جگہ مثبت نتائج کی خبریں معلوم کر کے بے حد دلی خوشی ہو رہی ہے۔ پیر صاحب موصوف شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلفاء میں سے ہیں جبکہ ان کی فکری تربیت مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی قدس اللہ سرہ العزیز کے زیر سایہ ہوئی ہے اور وہ حضرت ہزارویؒ کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔ اس لیے وہ مسلکی تقاضوں، تحریکی مصلحتوں، گروہی نفسیات اور سیاسی اتار چڑھاؤ سے بخوبی واقف ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دینی حمیت اور عملی جذبہ سے بھی بہرہ ور ہیں۔ اس پس منظر میں ان کا اس مقصد کے لیے متحرک ہونا سمجھ میں آتا ہے کہ وہ درد دل رکھنے والے سب حضرات کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس جدوجہد میں کامیابی سے نوازیں اور سعادت دارین سے بہرہ ور فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

مجھ سے گزشتہ روز ایک دوست نے پوچھا کہ ۱۱ مئی کو ہونے والے انتخابات میں آپ کیا توقعات رکھتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ توقعات کا دائرہ تو قدرے مختلف دکھائی دیتا ہے مگر خواہشات کے درجے میں یقیناً میں یہ چاہوں گا کہ

  • مولانا فضل الرحمن ایک مضبوط ٹیم لے کر پارلیمنٹ میں آئیں کیونکہ اگلی پارلیمنٹ کے لیے سیکولر حلقوں کی جدوجہد کا جو تانا بانا بُنا جا رہا ہے اسے وہی بہتر طور پر توڑ سکتے ہیں بشرطیکہ ان کے اردگرد مضبوط ٹیم کا ہالہ موجود ہو۔
  • مولانا حامد الحق حقانی کو اپنے عظیم باپ اور عظیم دادا کی پارلیمانی روایت کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے قومی اسمبلی میں موجود ہونا چاہیے کہ یہ روایت بھی ہماری دینی ضروریات کا حصہ ہے۔
  • مولانا محمد احمد لدھیانوی اور ان کے ساتھ ان کے رفقاء کی ایک مضبوط ٹیم کا پارلیمنٹ میں موجود ہونا ضروری ہے اس لیے کہ مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ کشمکش جو رخ اختیار کر رہی ہے اور پاکستان میں اس کے اثرات کا دائرہ جس طرح متنوع اور وسیع ہوتا جا رہا ہے اس کے پیش نظر پاکستان کو پارلیمنٹ میں اہل سنت کے حوالہ سے مؤثر آواز اٹھانے والوں کی ضرورت یقیناً پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
  • میں اس سے آگے بڑھ کر زیادہ وسیع دائرے میں یہ بھی چاہوں گا کہ پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی، جمعیۃ علماء پاکستان (نورانی گروپ) اور جمعیۃ اہل حدیث کی مؤثر نمائندگی ہو تاکہ ہم پاکستان کی اسلامی شناخت اور دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ میں وہ ماحول اور دائرہ قائم کر سکیں جو ۱۹۷۳ء کے دوران دستور پاکستان کی تدوین و تشکیل کے وقت موجود تھا کیونکہ اس کے بغیر شاید ہم سیکولر قوتوں کے ایجنڈے کا زیادہ مؤثر طور پر مقابلہ نہ کر سکیں۔
  • میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ایسے افراد کی پارلیمنٹ میں موجودگی کا بھی خواہاں ہوں جو اپنی اپنی جماعتوں کے فورم سے اسلامی مقاصد کے لیے دینی قوتوں کو سپورٹ فراہم کر سکیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ مثال کے طور پر ذکر کروں گا کہ وفاق المدارس کی سند کو ایم اے کا درجہ دلانے کی جو قرارداد قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تھی اس کی منظوری میں گوجرانوالہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی میاں منظور الحسن مرحوم کا کردار سب سے اہم تھا اور انہیں اس کے لیے تیار کرنے میں کچھ حصہ میرا بھی تھا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

بہرحال ان خواہشات اور توقعات کے ساتھ ہم ۱۱ مئی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ خدا کرے کہ ۱۲ مئی کا سورج ملک و قوم کی بہتری کی خبریں لے کر طلوع ہو اور اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہو سکے۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter