۱۰ ستمبر کو ادارۃ النعمان پیپلز کالونی گوجرانوالہ میں تقسیمِ انعامات کی تقریب سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا مفتی نعمان احمد ہمارے شہر کے باذوق اور فکرمند علماء کرام میں سے ہیں، دینی تعلیم و تربیت کے دائروں میں وسعت اور تنوع تلاش کرتے رہتے ہیں اور مجھے بھی شریک کار بنا لیتے ہیں۔ ان کے مرکز ادارۃ النعمان میں سہ ماہی امتحان میں اچھی پوزیشن حاصل کرنے والوں میں انعامات کی تقسیم کے لیے یہ تقریب منعقد ہوئی ہے جس میں لاہور سے ہمارے محترم بزرگ مولانا محمد سہیل احمد صاحب تشریف لائے ہیں جو تاجروں میں اسلامی تجارت کے طریقوں سے آگاہی اور تعلیم و تربیت کے لیے مسلسل کوشاں ہیں ۔ابھی انہوں نے اس پروگرام کی وضاحت اپنے خطاب میں کی ہے اور ان کی نگرانی میں گوجرانوالہ میں بھی تاجروں کے لیے تربیتی کلاسوں کے اہتمام کا پروگرام تشکیل پا رہا ہے۔ میں اس موقع پر دینی مدارس میں ہونے والے تخصصات کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
کچھ عرصہ قبل بڑے دینی مدارس میں تکمیل کے عنوان سے اس قسم کے تخصصات ہوتے تھے کہ جو فارغ التحصیل عالم دین دینی علوم کے کسی شعبہ میں خصوصی تعلیم حاصل کرنے کا خواہشمند ہوتا وہ کسی ماہرِ فن کے پاس چلا جاتا اور کچھ عرصہ ان کے پاس رہ کر اس علم یا فن کی خصوصی تعلیم سے فیضیاب ہوتا۔ وہی کام اب بہت سے جامعات میں منظم طریقہ سے اور اجتماعی طور پر ہو رہا ہے جس کی افادیت محسوس کی جا رہی ہے اور دائرہ دن بدن وسیع ہو رہا ہے۔ ان تخصصات کے بظاہر تین بڑے دائرے ہیں جن کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے:
- ایک دائرہ درسِ نظامی میں شامل علوم و فنون میں سے کسی شعبہ میں تخصص کا ہے۔ مثلاً (۱) تفسیر قرآن کریم (۲) علمِ حدیث (۳) اصول فقہ (۴) اصولِ کلام (۵) میراث (۶) صرف و نحو (۷) معانی (۸) ادب (۹) دعوت و ارشاد (۱۰) تقابلِ ادیان و مذاہب اور ان جیسے دیگر شعبوں میں تخصص کے عنوان سے جاری ہیں۔ ان کا ایک دائرہ تو یہ ہے کہ دورانِ تعلیم کسی شعبہ میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے پورا کر لیا جائے۔ اور دوسرا یہ ہے کہ کسی علم یا فن میں ذوق زیادہ ہے تو اس میں مزید تعلیم حاصل کر کے امتیاز و تخصیص سے بہرہ ور ہو جائیں۔
- دوسرا دائرہ معاشرتی ضروریات کا ہے کہ معاشرتی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق لوگوں کو ضروری تربیت و تعلیم سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ اپنے شعبوں میں اسلامی تعلیمات کے مطابق فرائض سرانجام دے سکیں۔ مثلاً ڈاکٹر صاحبان، تاجر برادری، وکلاء، کسان، زمیندار، انجینئر، سیاستدان، اساتذہ اور دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ پیشوں کے حوالہ سے لوہار، ترکھان، قصاب، دھوبی اور دیگر محنت کش طبقے سب اس صورتحال سے دوچار ہیں کہ وہ اپنے اپنے شعبوں اور دائروں میں اسلامی تعلیمات کے مطابق کام کرنے کے پابند تو ہیں لیکن انہیں ان شعبوں میں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کا نہ تو ریاستی نظامِ تعلیم میں کوئی بندوبست موجود ہے اور نہ ہی معاشرتی ماحول میں اس طرف کوئی سنجیدہ توجہ دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ اس سے بے شمار معاشرتی خرابیاں اور دینی احکام کی نافرمانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ بلکہ ہماری بیشتر قومی، معاشرتی، طبقاتی اور شعبہ جاتی خرابیوں اور نقصانات کی بڑی وجہ یہی دینی احکام و اخلاقیات سے بے خبری ہے جو ہم سب کا اجتماعی قصور اور کوتاہی ہے۔
اب کچھ عرصہ سے بعض فکرمند حضرات کو اس طرف متوجہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ اس سے بہت بڑے خلا کو کسی نہ کسی حد تک پر کرنے کی طرف مخلصین کی توجہ ہو رہی ہے جس میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں حلال و حرام کو صرف کھانے پینے میں محدود سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ عقیدہ و ایمان سے لے کر روز مرہ کے معمولات کے ہر دائرہ میں حلال و حرام کے اصول و احکام شریعت نے دیے ہیں جن کی خلاف ورزی پر سزا اپنے مقام پر مگر اس سے معاشرہ میں بے برکتی اور نحوست کا جو ماحول بڑھ رہا ہے وہ بھی ہم سب کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ اس تناظر میں ادارۃ النعمان گوجرانوالہ یہ کوشش خوش آئند ہے جس سے شہر کے علماء کرام کو تعاون کرنا چاہیے اور دیگر شہروں کے مخلصین کو بھی اپنے ہاں اس کام کا اہتمام کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق سے نوازیں۔
- اس کے ساتھ میں ایک تیسرے دائرہ کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جو بظاہر غیر ضروری علوم و فنون سے مہارت حاصل کرنے کا ہے۔ یہ بھی ہماری معاشرتی ضروریات کا حصہ ہے اور منفعت سے خالی نہیں ہے۔ میں اس پر ایک مثال قرآن کریم سے عرض کروں گا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب حضرت خضر علیہ السلام کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ جو علم آپ کے پاس ہے میں وہ حاصل کرنے آیا ہوں۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ جو علم مجھے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ آپ کے دائرہ کا نہیں ہے، اور جو علم آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا وہ میرے دائرہ کا نہیں ہے۔ اس کے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کچھ دن ان کے ساتھ رہے اور ان کے خصوصی علم سے استفادہ کرتے رہے۔
یہاں میں عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ علم و فنون جو بظاہر ہمارے دائرہ کے نہیں ہیں ان سے اس درجہ سے واقف ضرور ہونا چاہیے کہ ان کے ماحول میں ہمیں دین کی بات کرنی پڑ جائے تو ان کی زبان اور اسلوب میں کر سکیں۔ کیونکہ کسی بھی ماحول میں دین کی دعوت اور تعلیم و تربیت کی بات اس ماحول کے دائرہ میں کریں گے تو وہ موثر رہے گی۔ مثلاً وکلاء میں ان کے اسلوب میں بات کریں گے، تاجروں میں بات کرتے ہوئے ان کا لہجہ اختیار کریں گے، انجینئروں میں ان کی ماحول کے مطابق بات کریں گے تو نتیجہ خیز ہو گی، اسی طرح کسی دوسرے ملک میں یا کسی بین الاقوامی فورم پر گفتگو کے لیے وہاں کے ماحول سے واقفیت اور ان کا اسلوب و زبان استعمال میں لانا ضروری ہے۔ اس لیے وہ علماء کرام جو دعوت، اصلاح، نفاذِ دین اور ترویجِ شریعت کا ذوق و مشن رکھتے ہیں انہیں ان سب لوگوں کے ذوق و ماحول سے آگاہ ہونا چاہیے جن میں کام کرنے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ہر طبقہ سے ان کے انداز اور صورتحال کے مطابق دین کی بات کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دینی فرائض اور ان کے تقاضوں کو سمجھنے اور صحیح رخ پر خدمت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔