حضرت مولانا عزیر گلؒ

   
دسمبر ۱۹۸۹ء

سترہ نومبر کو روزنامہ جنگ لاہور کے آخری صفحہ پر ایک کونے میں یہ خبر نظر سے گزری کہ تحریکِ آزادی برصغیر کے نامور مجاہد اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کے رفیق حضرت مولانا عزیر گلؒ انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ علالت اور ضعف و نقاہت کی خبریں کافی عرصہ سے آرہی تھیں اور عمر بھی سو سال سے تجاوز کر چکی تھی مگر اس کے باوجود دل اس خبر پر یقین کرنے کو تیار نہ ہوا۔ خبر کو بار بار پڑھا، ذمہ دار علمائے کرام کے تعزیتی پیغامات بھی ساتھ تھے اس لیے مانے بغیر کوئی چارہ نہ تھا، زبان پر بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوا کہ موت ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے بہرحال جانا ہے۔ ’’کل من علیھا فان ویبقٰی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘۔

مولانا عزیر گلؒ کون تھے؟ آج کی نسل اس سے باخبر نہیں ہے اور نئی نسل کو اس کے ماضی اور اقدار و روایات سے باخبر رکھنے کی ذمہ داری جن حضرات پر ہے انہیں نہ اس کی ضرورت کا احساس ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت ان کے ذہنوں میں موجود ہے۔ مولانا عزیر گلؒ اس قافلۂ حریت کے فرد تھے جس نے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف عسکری، تہذیبی، تعلیمی اور سیاسی جنگ لڑی اور بالآخر اسے شکست دے کر اس خطۂ زمین کی آزادی کی راہ ہموار کی۔

اس قافلۂ حریت کے ایک عظیم سالار شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ تھے جنہوں نے اس صدی کے دوسرے عشرہ میں متحدہ ہندوستان کی آزادی کا منصوبہ بنایا اور ملک کے طول و عرض میں مجاہدین آزادی کی فوج منظم کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ترکی اور افغانستان کی حکومتوں کو جنگِ آزادی میں ہمنوا بنا کر ان کا تعاون حاصل کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ یہ منصوبہ برطانوی سی آئی ڈی کے کاغذات میں ’’ریشمی خطوط سازش کیس‘‘ کے نام سے اس کے ریکارڈ کا ایک اہم حصہ ہے اور ہماری تاریخ میں ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ’’دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا‘‘ کے مصداق یہ منصوبہ عین اس وقت برطانوی سی آئی ڈی کے ہتھے چڑھ گیا جب کہ ملک کے اندر حریت پسند افواج کی تربیت و تنظیم کا کام کم و بیش مکمل ہو چکا تھا اور ترکی کی خلافت عثمانیہ سے عسکری و سیاسی تعاون کے حصول کے لیے حجاز مقدس میں شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ترک حکام کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے۔ جہادِ آزادی کی منصوبہ بندی کے بارے میں ریشمی رومالوں پر لکھے گئے خفیہ خطوط برطانوی کارندوں کے ہتھے چڑھتے ہی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور ان کے رفقاء کو گرفتار کر لیا گیا اور متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں تحریک سے تعلق رکھنے والے تمام حضرات حراست میں لے لیے گئے۔

مولانا عزیر گلؒ اس تحریک اور منصوبہ بندی میں شیخ الہندؒ کے معتمد رفیق تھے اور انہی کے ساتھ گرفتار ہو کر مالٹا جزیرہ میں کم و بیش پونے چار سال تک نظر بند رہے۔ مولانا عزیر گلؒ مالاکنڈ ایجنسی کے رہنے والے تھے، دارالعلوم دیوبند میں شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ سے دینی تعلیم کی تکمیل کی اور پھر انہی کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ آزاد قبائل میں فرنگی فوجوں کے ساتھ مسلسل لڑنے والے حریت پسند قبائل کے ساتھ شیخ الہندؒ کے خصوصی روابط تھے اور اس علاقہ میں شیخ الہندؒ کے شاگردوں اور حریت پسند رفقاء کی ایک بڑی تعداد مصروفِ جہاد تھی۔ قبائل کے ساتھ خفیہ روابط کے لیے مولانا عزیر گلؒ کو شیخ الہندؒ کے معتمد ایلچی کی حیثیت حاصل تھی اور وہ باہمی رابطہ کا ایک اہم ذریعہ تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ کو مولانا عزیر گلؒ پر کس قدر اعتماد تھا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی سی آئی ڈی کی رپورٹوں کے مطابق حجازِ مقدس میں ترک حکام کے ساتھ شیخ الہندؒ کا جو خفیہ معاہدہ طے پانے والا تھا اسے ہندوستان کے معتمد رفقاء تک پہنچانے کی ذمہ داری مولانا عزیر گلؒ کے سپرد ہوئی تھی۔ مولانا عزیر گلؒ اپنے استاد اور قائد حضرت شیخ الہندؒ کے عاشق زار تھے، مالٹا کی تنہائیوں میں خدمت کی سعادت حاصل کی اور اپنے عظیم استادؒ کے عظیم مشن میں ان کی رفاقت کا حق ادا کر دیا۔

مولانا عزیر گلؒ حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی تک ان کے ساتھ متحرک رہے مگر ان کی وفات کے بعد پھر کام میں وہ مزہ نہ ملا اور قیام پاکستان کے بعد تو بالکل ہی گوشہ نشین ہوگئے۔ مالاکنڈ ایجنسی میں سخاکوٹ سے دو میل کے فاصلے پر ’’سیرے‘‘ نامی گاؤں ان کا آبائی گاؤں ہے، وہیں سکونت اختیار کر لی۔ راقم الحروف کو متعدد بار حضرت مولانا عزیر گلؒ کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔ تب صحت مند اور چاق و چوبند تھے، مزاج میں بے تکلفی، نمود و نمائش سے دلی نفرت اور مہمان نوازی ان کی خصوصیات تھیں۔ اپنے محبوب استاذ حضرت شیخ الہندؒ کی یادوں کے سہارے جی رہے تھے، انہی کا تذکرہ اکثر زبان پر رہتا اور بہت سے دوست تو یہی محبوب تذکرہ سننے ان کی مجلس میں جایا کرتے تھے۔

مولانا عزیر گلؒ کا سینہ تحریک آزادی کی کئی ان کہی کہانیوں کا مخزن تھا، اے کاش کہ اس خزانہ کو تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ کرنے کا کوئی اہتمام ہو جاتا مگر اب کفِ افسوس ملنے سے کیا فائدہ۔ وہ اپنی یادوں اور خزانوں سمیت ہم سے رخصت ہو چکے ہیں اور اپنے رب کے پاس جا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter