بیت المقدس اور مسلم حکمرانوں کا طرزِ عمل

   
جنوری ۲۰۱۸ء

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے امریکی سفارت خانہ کی بیت المقدس میں منتقلی کے اعلان کو بھاری اکثریت کے ساتھ مسترد کر کے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ بیت المقدس ابھی تک متنازعہ علاقہ ہے اور اسے اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ بین الاقوامی معاملات اور قوانین کے منافی ہے۔

فلسطین آج سے سو سال قبل خلافت عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا، جنگ عظیم میں جرمنی کے ساتھ خلافت عثمانیہ بھی شکست سے دوچار ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں جرمنی کے ساتھ ساتھ خلافت عثمانیہ کے بہت سے علاقوں کو بھی فاتح اتحادی فوجوں نے قبضہ میں لے لیا تھا اور اس بندر بانٹ میں فلسطین برطانیہ کے حصے میں آیا تھا۔ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی آبادی صرف دو ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے لیکن یہودیوں نے عالمی سطح پر فیصلہ کر رکھا تھا کہ وہ دنیا بھر سے فلسطین میں آ کر آباد ہوں گے اور اپنی ریاست قائم کر کے بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنائیں گے۔ اس کے لیے برطانیہ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا ہوا تھا کہ وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتا ہے اور جب موقع ملا انہیں فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کرے گا۔ یہ وعدہ برطانوی وزیر خارجہ مسٹر بالفور کے ساتھ ایک معاہدہ کی صورت میں ہوا تھا جسے ’’اعلان بالفور‘‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ چنانچہ برطانیہ نے فلسطین کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں بلا کر بسانے کا سلسلہ شروع کیا جو کم و بیش ربع صدی جاری رہا اور جب یہودیوں کی آبادی اتنی ہو گئی کہ ان کی ریاست بنوائی جا سکے تو برطانوی حکومت نے اقوام متحدہ کے سامنے یہ معاملہ پیش کر کے ۱۹۴۷ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا فیصلہ کروا لیا اور فلسطین کے ایک حصے پر اسرائیل کے نام سے یہودی ریاست دنیا کے نقشے پر نمودار ہو گئی۔

اس موقع پر اقوام متحدہ نے فلسطین کے ایک حصے پر اسرائیل کا حق تسلیم کرتے ہوئے دوسرے حصہ میں فلسطین کی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا جو آج تک ایک باقاعدہ اور خود مختار ریاست کے طور پر تشکیل نہیں پا سکی، جبکہ بیت المقدس کو متنازعہ قرار دے کر عارضی طور پر اردن کی تحویل میں دے دیا اور کہا گیا کہ اس کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا، اس طرح فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ مگر اسرائیل نے ۱۹۶۷ء میں مصر، شام اور اردن کے ساتھ جنگ میں بیت المقدس پر قبضہ کیا اور اس کے ساتھ مصر اور شام کے بعض علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد سے بیت المقدس کا شہر اسرائیل کے زیر انتظام ہے جبکہ وہ بین الاقوامی معاہدات اور اعلانات کی رو سے ایک متنازعہ علاقہ ہے، اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دینے کا بھی اس کے بعد اعلان کر دیا جسے بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہیں کیا۔

اس وقت اسرائیل، فلسطین اور بیت المقدس کے حوالہ سے عالمی سطح پر تین موقف پائے جاتے ہیں۔

  1. ایک موقف فلسطینیوں کا ہے جس کی حمایت پاکستان، سعودی عرب، ایران اور بہت سے دوسرے ممالک کر رہے ہیں کہ فلسطین میں یہودیوں کی آبادی اور اسرائیلی ریاست کا قیام ناجائز ہیں، فلسطین پر صرف فلسطینیوں کا حق ہے اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کو باقی رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے، نیز بیت المقدس فلسطین کا ہی دارالحکومت ہے۔
  2. دوسرا موقف اسرائیل اور اس کے چند حمایتیوں کا ہے کہ فلسطین یہودیوں کا قومی وطن ہے اور بیت المقدس میں اپنا پرانا قبلہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا ان کا حق ہے، حتٰی کہ اسرائیل اپنی موجودہ سرحدوں کی بجائے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے نام سے اپنا دائرہ وسیع تر کرنا چاہتا ہے اور اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔
  3. تیسرا موقف ان ملکوں کا ہے جنہوں نے اسرائیل کو ایک جائز ریاست کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے مگر ان کا مطالبہ یہ ہے کہ اسرائیل ان سرحدوں میں واپس چلا جائے جو اقوام متحدہ نے اس کے لیے ۱۹۴۷ء میں طے کی تھیں، اور ان علاقوں کو خالی کر دے جو ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اس نے قبضہ میں لیے تھے، اس کے ساتھ ہی وہ بیت المقدس کا قبضہ چھوڑ دے کیونکہ بیت المقدس متنازعہ شہر ہے اور اس کا فیصلہ ابھی بین الاقوامی سطح پر ہونا باقی ہے۔ مسلمان ملکوں میں سے ترکی، مصر، شام، اردن اور دوسرے بعض ممالک کا بھی یہ موقف ہے۔

اس کشمکش میں امریکہ کی عملی پشت پناہی شروع سے اسرائیل کو حاصل ہے اور اس نے مختلف مواقع پر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کرنے کے لیے تیار رہے۔ امریکہ کے موجودہ صدر نے اسی امریکی ارادے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی سفارت خانہ کو بیت المقدس میں منتقل کر رہے ہیں جسے پورے عالم اسلام کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی مسترد کر دیا ہے مگر امریکہ ان عالمی فیصلوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ارادے پر بدستور قائم دکھائی دیتا ہے۔

اس سلسلہ میں سب سے زیادہ قابل توجہ امر مسلم حکمرانوں کا طرز عمل ہے کہ ترکی کے صدر حافظ رجب طیب اردگان نے تو متحرک اور جرأتمندانہ کردار ادا کرتے ہوئے عالمی رائے عامہ کے ساتھ ساتھ او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے ملت اسلامیہ کا اجتماعی موقف دنیا کے سامنے ازسرِنو پیش کرنے کا اہتمام کیا ہے، اور ہمارے خیال میں او آئی سی کا یہی فیصلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے مذکورہ فیصلے کا محرک بنا ہے۔ لیکن اس مسئلہ پر دنیا بھر کی مسلمان حکومتوں بالخصوص عرب حکمرانوں کو جس طرح فعال ہونا چاہیے تھا وہ نظر نہیں آیا۔ بیت المقدس صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا قبلۂ اول اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزۂ سفر معراج کی ایک اہم منزل ہونے کی وجہ سے پورے عالمِ اسلام کی عقیدتوں اور محبتوں کا بھی مرکز ہے اور اسے اس طرح عالمی طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ملّی حمیت کے منافی ہے۔

او آئی سی کی قرارداد اس حوالہ سے حوصلہ افزا ہے مگر ہمارے خیال میں ترکی کے صدر محترم کے اس اعلان کو بھی اجتماعی شکل دینے کی ضرورت کہ وہ مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں اور ترکی کا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیلی عزائم اور اقدامات کے خلاف قراردادیں تو پون صدی سے منظور ہوتی آرہی ہیں، اصل ضرورت عملی اقدامات، عالم اسلام کے متفقہ موقف کو پوری قوت کے ساتھ عالمی سطح پر پیش کرنے، اس کے لیے عالمی رائے عامہ ہموار کرنے اور بین الاقوامی اداروں کو اس کی طرف توجہ دلانے کی ہے۔ جس کے لیے عرب لیگ اور او آئی سی کو کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے، ورنہ محض قراردادوں اور اعلانات کے ذریعے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکنا اور اس کے امریکہ جیسے سرپرستوں کو صدر ٹرمپ کے مذکورہ اعلان جیسے اشتعال انگیز اقدامات سے باز رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter