طبیب کسی بھی طریق علاج سے تعلق رکھتا ہو، مریض کا علاج شروع کرنے سے پہلے دو باتیں ضرور چیک کرتا ہے۔ ایک یہ کہ اسے بیماری کیا ہے اور دوسری یہ کہ اس بیماری کا سبب کیا ہے۔ بیماری اور اس کے سبب کا تعین کیے بغیر کوئی معالج کسی مریض کے علاج کا آغاز نہیں کرتا۔ پھر وہ صرف بیماری کا علاج نہیں کرتا بلکہ سبب کے سدّباب کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ بسا اوقات سبب سے پیچھا چھڑانے کو بیماری کے علاج سے بھی مقدم کرتا ہے، اس لیے کہ جب تک سبب کا خاتمہ نہ ہو کسی بیماری کے علاج کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو پاتی۔
ہم اس وقت قومی سطح پر دہشت گردی کے سدّباب کی جس مہم میں مصروف ہیں اس میں بھی علاج کے اس مسلّمہ اصول اور طریق کار کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، جو کہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اور اس سے اصحابِ فکر و دانش کی تشویش مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حدود میں حکومت کی رٹ کا قائم ہونا اور دستور کی بالادستی کو تسلیم کیا جانا ہر لحاظ سے ضروری اور ناگزیر ہے۔ اور کسی بھی دینی یا سیاسی مطالبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا ملکی سالمیت، قومی وحدت اور ملّی تقاضوں کے منافی ہے۔ افواج پاکستان دستور کی بالادستی اور حکومتی رٹ کے لیے جو کاروائی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شمالی وزیرستان میں آپریشن سے متاثرہ بے گھر شہریوں کی دیکھ بھال اور امداد کے لیے قوم کے مختلف اداروں اور طبقات کی جو سرگرمیاں جاری ہیں، پوری قوم ان کے ساتھ ہے اور اس مشن کی کامیابی کے لیے دعا گو ہے۔ لیکن معاملات کو اس سطح تک لے جانے والے اسباب و عوامل کی طرف کسی ادارے یا طبقے کی کوئی توجہ نظر نہیں آرہی جو تشویشناک امر ہے اور اہل فکر و نظر سے سنجیدگی اختیار کرنے کا تقاضہ کر رہی ہے۔
بلاشبہ دہشت گردی ایک کینسر ہے جو پورے قومی وجود میں سرایت کرتا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور سمیت ملک کے اہم مراکز اس کی زد میں ہیں۔ مگر ہمارے قومی پالیسی سازوں نے قومی جسم کے کینسر زدہ اعضا کو کاٹتے چلے جانے کی پالیسی کے ساتھ کینسر کا سبب بننے والے عوامل کے سدباب کو ابھی تک اپنی پالیسی میں شامل نہیں کیا۔ اس لیے ہم اس قومی کینسر کے علاج کی ریاستی پالیسی کی حمایت کرنے کے باوجود یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت اور دیگر پالیسی ساز اداروں سے گزارش کریں کہ اسباب و عوامل کا سدباب کیے بغیر کینسر کا علاج کینسر زدہ اعضا کو کاٹتے چلے جانے کی صورت میں مسلسل جاری رکھنے کے نتائج پر ضرور غور کر لیا جائے اور اس سلسلے میں پالیسی ترجیحات کا ایک بار پھر جائزہ لے لیا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے شمال مغربی علاقوں سوات، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان وغیرہ میں حکومتی رٹ کو چیلنج اور اس کے جواب میں فوجی آپریشن کے اسباب پر غور کیا جائے تو دو سبب سب سے بڑے اور نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ جہادِ افغانستان میں روس کے خلاف جنگ میں شریک ہونے والے ہزاروں ملکی اور غیر ملکی افراد کو جنگ ختم ہونے کے بعد اپنا ایجنڈا طے کرنے میں آزاد چھوڑ دیا گیا اور کسی قومی پالیسی کا انہیں حصہ نہیں بنایا گیا، جس کی وجہ سے ہر گروہ نے اپنا ایجنڈا خود طے کیا اور آج پوری قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغانستان کے جہاد میں جو لوگ شریک ہوئے وہ پاکستانی شہری ہوں یا بیرون ممالک سے آئے ہوں، ان کی آمد اور جہاد میں شرکت خود ہماری ریاستی پالیسی کا حصہ تھی۔ ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ ان لوگوں کو جہاد کی تربیت دینے اور اس میں عملاً شریک کرنے کے عمل کے ہر مرحلہ میں ہم ان کے ساتھ شریک تھے۔ لیکن روسی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے بعد اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا کہ ہزاروں لوگوں نے ہمارے ذریعہ ہتھیاروں کی ٹریننگ حاصل کی ہے اور انہیں ہتھیاروں تک رسائی بھی میسر ہے۔ اس لیے ان کے مستقبل کے پروگرام اور ایجنڈے میں ان کی راہ نمائی اور نگرانی کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سندھ کے چند ہزار مسلح حروں کو تو حکمت عملی کے تحت قومی نظم کا حصہ بنا لیا گیا تھا، لیکن جہاد افغانستان کے بعد ان سے کم از کم دس گنا زیادہ مسلح افراد کے بارے میں کوئی قومی پالیسی طے نہیں کی گئی اور انہیں اس طرح آزاد چھوڑ دیا گیا کہ آج وہ حکومتی رٹ اور دستوری بالادستی کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔
ہمیں اس حقیقت کا اعتراف بہرحال کرنا ہوگا اور اس کی روشنی میں اس خطرے سے نمٹنے کی حکمت عملی اور ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے تو ایک موقع پر یہ اعتراف کیا تھا کہ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد مجاہدین کے گروپوں کو نظر انداز کرنا ہماری غلطی تھی، مگر ہماری قومی قیادت ابھی اس کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ جبکہ اس حقیقت کو تسلیم کر کے اس کی بنیاد پر قومی پالیسی کی تشکیل کے بغیر اس مسئلہ کے پائیدار حل کی کوئی صورت کم از کم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
دوسرا سبب ہمارے نزدیک نفاذِ شریعت کے اہم قومی تقاضے کو مسلسل نظر انداز کرتے چلے جانا ہے۔ حالانکہ اس مسئلہ میں اصولی طور پر کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ دستور پاکستان نفاذِ شریعت کی بات کرتا ہے۔ ہماری قومی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشوروں میں اسلامی احکام و تعلیمات کی عملداری کی بات موجود ہے۔ جبکہ ریاستوں کو پاکستان کا باقاعدہ حصہ بناتے وقت اور اس کے بعد مختلف تحریکات کے ساتھ کیے جانے والے معاہدات میں اس کا باقاعدہ وعدہ کیا گیا ہے، لیکن اس کی کوئی عملی صورت سامنے نہیں آرہی۔ اس حوالہ سے ایک عذر یہ کیا جاتا ہے کہ نفاذ شریعت کے لیے طالبان کا وژن ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ یہ بات درست ہوتی اگر ہم نے دستور میں طے شدہ طریق کار کے مطابق نفاذ شریعت کی طرف پیشرفت کی ہوتی اور منتخب پارلیمنٹ اور دستوری عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کا کچھ نہ کچھ اہتمام کر لیا ہوتا۔ اس صورت میں یہ کہا جا سکتا تھا کہ پاکستانی قوم کے جمہوری وژن کے مطابق ہم نے نفاذ اسلام کے لیے یہ اقدامات کر رکھے ہیں، اس لیے اس کے برعکس کسی وژن کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ نفاذِ اسلام کے لیے پارلیمنٹ کے فیصلوں، دستور کے تقاضوں اور عدالت عظمیٰ کی واضح ہدایات کے باوجود کوئی عملی پیشرفت موجود نہیں ہے۔ مگر نفاذِ شریعت کے مطالبات کو ہم ’’طالبان کا وژن‘‘ قرار دے کر مسترد کرتے چلے جا رہے ہیں، یہ بات نہ قرین انصاف ہے اور نہ ہی عقل و دانش اس کا کوئی جواز فراہم کرتی ہے۔
آج بھی نفاذِ شریعت کے حوالہ سے ’’طالبان کے مبینہ وژن‘‘ کو روکنے کا راستہ یہی ہے کہ دستور و پارلیمنٹ نے ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے جو فیصلے کر رکھے ہیں ان پر عملدرآمد کا اہتمام کیا جائے۔ اور طالبان کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو یہ واضح پیغام دیا جائے کہ دستور و قانون اور عدلیہ و پارلیمنٹ کے فیصلوں کے مطابق نفاذِ اسلام کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اور یہ آغاز عملاً دکھائی بھی دے۔ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ دستور کے مطابق نفاذ اسلام کو قومی پالیسی کا عملی حصہ بنانے کے اعلان سے ہی نفاذ شریعت کے کسی متبادل وژن کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔
ہم دستور کی بالادستی اور حکومت رٹ کی بحالی کے لیے حکومت اور افواج پاکستان کے ساتھ ہیں اور شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کی بحالی اور دیکھ بھال کے لیے ریاستی اداروں اور قوم کے مختلف طبقات کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ مگر یہ درخواست کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ کینسر کا علاج کرتے ہوئے کینسر کے اسباب کے سدّباب اور روک تھام کی بھی کوئی صورت نکالی جائے۔ ورنہ کینسر کا شکار ہونے والے ایک کے بعد دوسرے عضو کو کاٹتے چلے جانے کا آخری نتیجہ بہرحال ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوگا۔