۱۲ اکتوبر ۲۰۱۹ء کو راولاکوٹ آزاد کشمیر میں متحدہ علماء کونسل کے زیر اہتمام ’’جہاد کشمیر اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر ہل ٹاپ ہوٹل میں منعقدہ سیمینار میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا جس کی صدارت مولانا مفتی عبد الخالق نے کی جبکہ مہمانان خصوصی میں پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی نائب امیر مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے سابق امیر سردار اعجاز افضل ایڈووکیٹ شامل تھے۔ ان گزارشات کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ گزشتہ کل مجھے منگ آزاد کشمیر حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، وہاں حاضری کے لیے مولانا محمد یاسین اور مولانا قاری سعید الرحمان تنویر کا ایک عرصہ سے تقاضہ تھا، ان کے حکم پر کل مرکزی جامع مسجد منگ میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کیا اور آج راولاکوٹ میں متحدہ علماء کونسل کے اس پروگرام میں آپ کے سامنے حاضر ہوں۔
خطۂ کشمیر کی موجودہ صورتحال آپ کے سامنے ہے، کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کہ گزشتہ سات عشروں سے کشمیری عوام کو ان کے مسلمہ حق خودارادیت سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے اور حالیہ صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام دو ماہ سے زیادہ عرصہ سے کرفیو کے ماحول میں ہیں، آزادانہ نقل و حرکت کے حق سے محروم ہیں اور اشیائے خورد و نوش کی قلت کا شکار ہیں، جبکہ ان کی بے بسی اور مظلومیت پر ارباب فہم و شعور کا اضطراب بڑھتا جا رہا ہے مگر عملاً کوئی بھی کچھ کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہا۔ اس پس منظر میں علماء کشمیر اور آزاد حکومت کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہ رہا ہوں۔ یہ جنگ ابتدا سے دو محاذوں پر لڑی جا رہی ہے:
- پہلا جہاد کا ہے کہ ڈوگرہ راجہ کے خلاف ۱۹۴۷ء میں جہاد کے شرعی فتوٰی کی بنیاد پر جنگ کا آغاز کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیر کا موجودہ خطہ آزاد ہوا اور یہاں آزاد حکومت قائم ہوئی۔ جہاد کا یہ عمل سری نگر کے دروازے تک جا پہنچا تھا اور پونچھ شہر کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا کہ اقوام متحدہ درمیان میں کود پڑی اور اس وعدہ کے ساتھ جنگ بندی کرا دی کہ جموں و کشمیر اور دیگر متعلقہ علاقوں کے عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا، اور اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ استصواب رائے کا اہتمام کر کے اس خطہ کے لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس وعدہ کو سات دہائیاں گزر چکی ہیں مگر ابھی تک اس کی تکمیل کے لیے کوئی سنجیدگی سامنے نہیں آئی بلکہ عالمی استعماری قوتوں کے سامنے اقوام متحدہ کی بے بسی دیکھتے ہوئے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر اقوام متحدہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اسے دنیا کے سامنے اپنی لاچارگی کا اقرار کرنا چاہیے کیونکہ ایک قوم کو اس سلسلہ میں مسلسل گومگو کی کیفیت میں رکھنا بجائے خود ظلم اور نا انصافی ہے۔
- دوسرا سفارت کاری کا ہے کہ بہت سے ممالک کی حکومتیں بھارتی مفادات کے تحفظ کا عندیہ ظاہر کرتی نظر آرہی ہیں اور اس سلسلہ میں کشمیری عوام کی مظلومیت اور اسلامی دنیا کے عوامی رجحانات کو نظر انداز کرتے ہوئے محض اپنے معاشی و سیاسی مفادات بچانے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ سفارتی محاذ پر بھارت کا پلڑا وزنی دکھائی دے رہا ہے اور کشمیر کے مسئلہ پر عالمی برادری کی خاموشی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے، اس لیے عالمی اور علاقائی سطح پر سفارت کاری کو ازسرنو منظم کرنا اور کشمیری عوام کی مظلومیت و بے بسی سے دنیا کوآگاہ کرتے ہوئے بین الاقوامی لابنگ میں زیادہ مؤثر کردار ادا کرنا ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔
جہاں تک جہاد کا تعلق ہے میرا علماء کشمیر سے یہ سوال ہے کہ انہوں نے جہاد کے جس شرعی فتوے پر ۱۹۴۷ء میں جنگ لڑی تھی اور یہ آزاد ریاست قائم کی تھی، کیا وہ فتوٰی باقی ہے یا ختم ہوگیا ہے؟ علماء کرام کو اس سوال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا اور اگر ان کے خیال میں وہ فتوٰی ابھی باقی ہے اور ختم نہیں ہوگیا تو اس پر آج کے حالات میں عملدرآمد کے راستے تلاش کرنا بہرحال علماء کرام کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلہ میں میری تجویز یہ ہے کہ پہلے مرحلہ میں آزاد کشمیر کے سرکردہ مفتیان کرام کو مل بیٹھ کر اس فتوٰی کی موجودہ شرعی حیثیت کا جائزہ لینا چاہیے اور طے کرنا چاہیے کہ جہاد کے شرعی فریضہ کی آج کے دور میں ادائیگی کی کیا صورت ہوگی۔ اس کے بعد علماء کرام کی تجاویز کی روشنی میں آزاد جموں و کشمیر کی ریاستی حکومت ایک وسیع تر قومی کانفرنس کا اہتمام کر کے اجتماعی موقف طے کرے اور حکومت پاکستان سے اس سلسلہ میں بات چیت کی جائے۔ میں ذاتی طور پر جہاد کے ’’پرائیویٹ فتوٰی‘‘ کے حق میں نہیں ہوں اور اس بات کا قائل ہوں کہ ریاست کی موجودگی میں جہاد کے اعلان کا حق صرف ریاست کو ہے، مگر یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ صرف حق نہیں بلکہ ذمہ داری بھی ہے، اسے صرف ریاست کا حق کہہ کر ٹالتے رہنا درست نہیں بلکہ حق اور ذمہ داری کے دونوں پہلو سامنے رکھ کر حکومت آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
جہاں تک شرعی ضرورت کا تعلق ہے وہ تو واضح ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آغاز سے ہی خوف و ہراس کا ماحول موجود ہے، اور کچھ عرصہ کے وقفہ سے آزادی کی جدوجہد کو بار بار کچلنے کے لیے ظلم و جبر اور دہشت کی جو فضا قائم کر دی جاتی ہے وہ جہاد کا تقاضہ کر رہی ہے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف مسلسل توجہ دلا رہی ہے۔ اس لیے میں آج کے اس اجتماع کی وساطت سے (۱) علماء آزاد کشمیر (۲) حکومت آزاد کشمیر (۳) اور حکومت پاکستان، تینوں سے یہ درخواست کر رہا ہوں کہ اس مسئلہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور تمام ریاستی ادارے باہمی مشاورت و مفاہمت کے ساتھ اس کا کوئی عملی طریق کار طے کریں، یہ ایک پڑوسی مسلم ملک ہونے کی وجہ سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو ظلم و جبر کے ماحول سے نکالیں۔
جہاد کے حوالہ سے بھی اور عالمی رائے عامہ اور اداروں کو متحرک کرنے کے حوالہ سے بھی میری پاکستان اور آزاد کشمیر کے متعلقہ حلقوں، طبقات، اداروں اور جماعتوں سے گزارش ہے کہ وہ خدا کے لیے سنجیدہ ہو جائیں، کشمیری عوام کے مستقبل اور موجودہ صورتحال کو امریکی صدر ٹرمپ اور اقوام متحدہ کی موجودہ پالیسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا سراسر زیادتی کی بات ہے، اس لیے کہ وہ اس وقت تک کچھ نہیں کریں گے جب تک ہم متحرک و بیدار نہیں ہوں گے۔ متعلقہ عالمی اداروں کو ان کی ذمہ داریاں پورا کرنے کے لیے آمادہ کرنے کا ماحول ہم نے بنانا ہے اور یہ محنت طلب کام ہے جو محض تقریروں اور بیانات سے نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لیے مسلسل سفارتی محنت کرنا ہوگی۔
میں ایک بار پھر متحدہ علماء کونسل راولاکوٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان معروضات پر توجہ دینے کی گزارش کر رہا ہوں، خدا کرے کہ ہم تاریخ کے اس نازک مرحلہ میں کشمیری بھائیوں کے لیے صحیح رخ پر محنت اور جدوجہد کا اہتمام کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔