میٹرک کے نصاب سے قرآن کریم کی بعض سورتیں نکالنے اور ناظرہ قرآن کریم کو امتحان میں ضروری قرار نہ دینے کے حکومتی فیصلے کے خلاف مختلف دینی حلقوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ ایک حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ سکولوں میں اساتذہ میسر نہ ہونے کی وجہ سے اس سال امتحانات کے پرچوں میں قرآن کریم کے بارے میں سوالات شامل نہیں کیے گئے جبکہ اگلے سال سے اس کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔ اسکولوں میں اساتذہ میسر نہ ہونے کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اس مقصد کے لیے حکومت کے پاس بجٹ میں کوئی فنڈ نہیں ہے، اور عالم مالیاتی اداروں نے اس مد میں کوئی رقم فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
سرکاری تعلیمی نصاب میں موجود دینی مواد کو کم سے کم کرنے اور خاص طور پر جہاد سے متعلقہ آیات کو نصاب سے خارج کرنے کی مہم ایک عرصہ سے جاری ہے۔ اور بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے مسلسل دباؤ کے باعث اس سے پہلے بھی کئی بار اس قسم کے سرکاری اقدامات سامنے آ چکے ہیں جو عوامی دباؤ کی وجہ سے حکومت کو واپس لینا پڑے تھے۔ لیکن اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے بین الاقوامی دباؤ اور اپنے ملک کے عوام اور دینی حلقوں کے دباؤ کی اس کشمکش میں عوامی دباؤ کو نظرانداز کرنے اور عالمی دباؤ کے سامنے سپرانداز ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے، اور مذکورہ بالا اقدام اسی سلسلہ میں عملی پیشرفت کی غمازی کرتا ہے۔
تعلیمی نظام و نصاب کو سیکولر حیثیت دینے کی خواہش بہت پرانی ہے۔ آزاد بک ہاؤس اردو بازار گوجرانوالہ کے شائع کردہ ایک رسالہ ’’اذان‘‘ میں معروف اہلحدیث عالم دین مولانا محمد علی قصوری ایم اے مرحوم کے مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اب سے ایک صدی قبل جب مولانا شبلی نعمانیؒ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سربراہ تھے، انہیں یو پی (اتر پردیش) کے انگریز گورنر سر جان ہیرٹ نے پیشکش کی تھی کہ اگر ندوہ کے نصاب میں حدیثِ نبویؐ کے مضمون کو لازمی کی بجائے اختیاری قرار دے دیا جائے، اور ترجمۂ قرآن کریم کے نصاب سے سورۃ انفال، سورۃ توبہ، سورۃ ممتحنہ اور سورۃ صف کو خارج کر دیا جائے تو انگریزی حکومت ندوہ کو ایک لاکھ روپے سالانہ گرانٹ دینے کے لیے تیار ہے، مگر ندوہ والوں نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
عالمی سیکولر حلقوں کی یہ خواہش آج بھی موجود ہے، اور خاص طور پر قرآن و حدیث کے وہ حصے جو جہاد اور خاندانی نظام کے بارے میں ہیں، ان بین الاقوامی سیکولر حلقوں کے نزدیک مسلمانوں میں انتہاپسندی اور جداگانہ مذہبی تشخص و امتیاز کا احساس اجاگر کرنے کا باعث ہیں۔ اس لیے انہیں نصاب سے خارج کرنے کے لیے خصوصی محنت ہو رہی ہے۔ اس لیے ہم حکومت سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں عالمی دباؤ کو خود پر اس قدر مسلط نہ کر لے کہ پاکستان کا اسلامی تشخص اور مسلمانوں کا جداگانہ دینی امتیاز ہی اس کی بھینٹ چڑھ جائے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے دینی اور تعلیمی حلقے اس صورتحال کی سنگینی کا احساس کریں اور مل جل کر بین الاقوامی حلقوں کے اس دباؤ کو قومی زندگی پر مسلط ہونے سے روکیں، ورنہ مغرب کی مادر پدر آزاد ثقافت اور فلسفہ کی یلغار کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا۔