ائمہ مساجد اور علماء کرام کی معاشرتی ذمہ داریاں

   
۲۶ جنوری ۲۰۰۴ء

بنگلہ دیش میں ضلع سونام گنج کے ایک قصبہ دیرائی میں ۸ جنوری ۲۰۰۴ء کو ائمہ و علماء کانفرنس کے عنوان سے اجتماع تھا۔ لندن میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے دینی مرکز ’’المرکز الاسلامی‘‘ کے مدیر مولانا محمد شعیب اس کے منتظم تھے۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور مولانا محمد فاروق ملا کے ہمراہ وہاں پہنچا تو علماء کرام نے بڑی محبت کا اظہار کیا۔ استقبال کرنے والوں میں مولانا نور الاسلام خان بھی شامل تھے جو دیکھتے ہی چمٹ گئے اور کان میں کہا کہ میں نصرۃ العلوم کا فاضل ہوں، میں نے ۱۳۹۱ھ میں دورۂ حدیث کیا تھا۔ مجھے بھی بہت خوشی ہوئی، ایک دوسرے سے حال احوال دریافت کیا، پتہ چلا کہ دارالعلوم درگارپور میں شیخ الحدیث ہیں اور ایک عرصے سے تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ درگارپور واپسی پر راستہ میں تھا، تھوڑی دیر کے لیے دارالعلوم میں رکے اور دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا عبد الحق دامت برکاتہم کی زیارت کی جو شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے خلفاء میں سے ہیں۔ ائمہ و علماء کانفرنس ایک ہال میں تھی جس میں علاقہ بھر کے علماء کرام اور ائمہ کرام کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ کانفرنس کا مقصد علماء اور ائمہ کو ان کی معاشرتی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا تھا۔ راقم الحروف نے جو گزارشات پیش کیں، ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ علماء کرام کے بارے میں ایک حدیث نبویؐ کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں، جبکہ ائمہ جس مصلے پر کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے ہیں اسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مصلیٰ سمجھا جاتا ہے، اور جس منبر پر خطبہ دیتے ہیں اسے منبر رسولؐ کے عنوان سے پکارا جاتا ہے۔ اس حوالے سے علماء اور ائمہ اس معاشرہ میں جناب نبی اکرمؐ کی نیابت اور نمائندگی کے منصب پر فائز ہیں اور ہمیں اس منصب کی ذمہ داریوں اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو کہاں تک ادا کر رہے ہیں؟

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف حیثیات میں سے اس وقت تین چار امتیازی امور کا تذکرہ کرنا چاہوں گا تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ ہم لوگ، جو علماء کرام کہلاتے ہیں اور امامت کے منصب پر فائز ہیں، اپنے فرائض کی انجام دہی میں کہاں تک کامیاب ہیں؟

  • احادیث نبوی کے مطابق غار حرا میں پہلی وحی کے نزول کے بعد جناب نبی اکرمؐ کا جو سب سے پہلا تعارف روایات میں ملتا ہے، ام المومنین حضرت خدیجہ الکبرٰیؓ کی زبان سے ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور حوصلہ دیتے ہوئے ان کا وہ معاشرتی رول اور کردار یاد دلایا تھا جسے ایک سوشل ورکر کا کردار کہا جاتا ہے۔ جناب نبی اکرمؐ غار حرا میں پہلی وحی کے اچانک واقعہ کی وجہ سے گھبراہٹ کا شکار تھے جس پر ام المومنین حضرت خدیجہؓ نے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں، اس لیے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہیں، بیواؤں کے کام آتے ہیں، محتاجوں کی مدد کرتے ہیں اور مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

    غار حرا کی وحی کے بعد ہمیں احادیث نبوی میں جناب نبی اکرمؐ کا پہلا تعارف یہی ملتا ہے اور ہمیں آنحضرتؐ کی نیابت اور نمائندگی کی بات کرتے ہوئے اس بات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے کہ اس حیثیت سے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا نمائندگی کر رہے ہیں؟

  • اس کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا تعارف ایک داعی اور مصلح کا ہے۔ آپ نے لوگوں کو توحید کی دعوت دی اور معاشرہ میں ہر طرف پھیلی ہوئی ان برائیوں کے خلاف آواز بلند کی جن کی وجہ سے وہ معاشرہ جاہلی معاشرہ کہلاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار اور اس کی بندگی کی دعوت تو آنحضرتؐ کی سب سے بڑی دعوت تھی، لیکن اس کے ساتھ آپ نے عرب معاشرے کو جن باتوں کی طرف توجہ دلائی، ان کا تذکرہ قیصر روم کے دربار میں نبی اکرمؐ کے اس وقت کے سب سے بڑے حریف حضرت ابو سفیانؓ نے ان الفاظ سے کیا تھا کہ وہ ہمیں صدق، صلہ اور عفاف کا حکم دیتے ہیں۔ ابو سفیان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قریش کی قیادت کر رہے تھے، لیکن انہیں دنیا کے ایک بڑے بادشاہ کے دربار میں یہ کہنا پڑا کہ جناب نبی اکرمؐ کی دعوت کا ایک بڑا حصہ یہ ہے کہ لوگ سچ بولیں، آپس کے تعلقات اور روابط کو قائم رکھیں اور پاک دامنی اختیار کریں۔ عرب معاشرے میں اس وقت پھیلی ہوئی باہمی رقابتوں، بدکاری اور جھوٹ کے ماحول میں یہ معاشرتی اصلاح کی بہت بڑی دعوت تھی جس سے نبی کریمؐ عرب معاشرہ میں ایک عظیم داعی اور مصلح کے طور پر سامنے آئے۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی اور نیابت کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں، اس میں داعی اور مصلح کے طور پر ہمارا کردار کیا ہے اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے، نیز معاشرتی برائیوں سے سوسائٹی کو نجات دلانے کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں؟
  • اس کے بعد جناب نبی اکرمؐ کے عظیم کردار کا ایک اور رخ سامنے آتا ہے اور وہ ان کی معلم کی حیثیت ہے جسے قرآن کریم نے کئی جگہ بیان کیا ہے اور خود آپؐ نے فرمایا کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد رہنے والوں کو اور اپنے پاس آنے والوں کو براہ راست اور ان کے ذریعے سے مختلف اطراف کے لوگوں کو جن باتوں کی تعلیم دی، ان کا دائرہ بہت متنوع اور وسیع ہے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، آپ علماء کرام ہیں، خوب جانتے ہیں۔ البتہ میں اس طرف ضرور توجہ دلانا چاہوں گا کہ جناب نبی اکرمؐ کے معلم کے کردار کو سامنے رکھ کر ہم اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں کہ جس ماحول میں ہم رہتے ہیں، وہاں کے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ ایک معلم کی حیثیت سے ہمارا کیا رابطہ ہے؟

    اگر گستاخی معاف فرمائیں تو میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جو لوگ مسجد میں ہمارے پاس آ جاتے ہیں اور مدرسہ میں ہم سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں، ان پر تھوڑی بہت محنت کر کے ہم مطمئن ہیں کہ ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ ہم نے ان افراد پر قناعت کر لی ہے اور ان کے علاوہ باقی لوگوں سے رابطہ اور تعلق کی ہمیں کوئی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔ میری درخواست ہے کہ مسجد اور مدرسہ میں ہمارے پاس آنے والوں کا معاشرہ کے باقی افراد کے ساتھ عددی تناسب ہمیں ضرور معلوم کرنا چاہیے اور پھر یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے ماحول اور آبادی کی وہ عظیم اکثریت جس کا ہمارے ساتھ مسجد یا مدرسہ کا کوئی رابطہ نہیں ہے، اس کے ساتھ ایک مصلح اور معلم کے طور پر ہمارا کیا معاملہ ہے؟ یہ بات سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ہے، ورنہ ہو سکتا ہے کہ قیامت کے روز یہی لوگ ہمارا گریبان پکڑ لیں کہ ہماری اصلاح اور تعلیم کے لیے ان لوگوں نے ہمارے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔

  • جناب نبی اکرمؐ کے معاشرتی کردار کی اور بھی بہت سی حیثیات ہیں۔ آپ حکمران بھی تھے، کمانڈر بھی تھے اور قاضی بھی تھے، لیکن میں سرِدست سوشل ورکر، داعی، مصلح اور معلم کی حیثیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے علماء کرام اور ائمہ عظام کو غور و فکر کی دعوت دینا چاہتا ہوں کہ ان معاملات میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا نیابت کر رہے ہیں اور آپؐ کے وارث ہونے کا حق کہاں تک ادا کر رہے ہیں؟ معاف کیجیے! ہم نے صرف نماز پڑھا دینے اور اپنے پاس آ جانے والوں کو تھوڑی بہت تعلیم دینے پر قناعت کر لی ہے اور اسے رسول اکرمؐ کی وراثت، نیابت اور نمائندگی سمجھ لیا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے اور ہمیں اس حوالے سے اپنے کردار، طرز عمل اور ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔

دوسری بات جس کی طرف ائمہ اور علماء کی اس کانفرنس کے شرکاء کو توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے احتساب اور اپنی سرگرمیوں کے ناقدانہ جائزہ کی ضرورت محسوس کرنی چاہیے۔ ہمارے ہاں اس بات کو نہ صرف غیر ضروری سمجھا جاتا ہے بلکہ معیوب قرار دیا جاتا ہے۔ یہ طرز عمل صحیح نہیں ہے۔ مثلاً بعض دوست جب یہ بات کرتے ہیں کہ طالبان ہمارے بھائی ہیں، بہت نیک ہیں، مخلص ہیں اور انہوں نے قربانی اور ایثار کی شاندار روایات زندہ کی ہیں، اس لیے ان کی غلطیاں نہیں نکالنی چاہئیں اور ان کے طرز عمل کا ناقدانہ جائزہ نہیں لینا چاہیے، تو مجھے تعجب ہوتا ہے اور میں عرض کرتا ہوں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سب سے بہترین اور مقدس طبقہ صحابہ کرامؓ کا گروہ ہے، لیکن جب انہیں غزوۂ احد میں وقتی طور پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور حنین کی لڑائی میں تھوڑی دیر کے لیے ان کے قدم اکھڑے تو قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا اور ان کی ناکامی کا اعتراف کیا، اس کے اسباب بیان کیے اور ان وجوہ کی نشاندہی کی جن کی وجہ سے انہیں ان دونوں غزووں میں وقتی طور پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس سے حضرات صحابہ کرامؓ کے تقدس اور بزرگی میں کوئی فرق نہیں پڑا اور ان کے خلوص اور قربانیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، اس لیے قرآن کریم کا اسلوب اور ہدایت ہمارے لیے یہی ہے کہ اگر کسی مرحلہ میں ناکامی ہو تو اس کے اسباب کا جائزہ لو اور وجوہات کی نشاندہی کرو تاکہ ان کے ازالہ کے لیے کوئی صورت نکال سکو۔

اس پس منظر میں آج کی اس ائمہ و علماء کانفرنس کی وساطت سے میں علماء کرام اور ائمہ عظام کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ کسی بھی جگہ دینی خدمات سرانجام دے رہے ہوں، دو باتوں کا ہر وقت خیال رکھیں:

  1. ایک یہ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث کہلاتے ہوئے اور آپؐ کے مصلے پر کھڑے ہو کر آپؐ کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ انسانی معاشرے میں رسول اکرمؐ نے مختلف حیثیات سے جو عظیم کردار ادا کیا تھا، ہم ان میں سے کس حیثیت کی نمائندگی کر رہے ہیں؟
  2. اور دوسری بات یہ کہ ہم اس وقت کم و بیش ہر محاذ اور ہر شعبہ میں جس پسپائی کا مسلسل شکار ہو رہے ہیں، اس کے اسباب اور وجوہات کیا ہیں؟ کیونکہ اسی صورت میں ہم انبیاء کرام علیہم السلام کے ورثاء کی حیثیت سے اپنے کردار کو بہتر بنا سکتے ہیں اور جناب نبی اکرمؐ کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔
   
2016ء سے
Flag Counter