خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد عربوں اور ترکوں کے کیمپ الگ الگ ہو گئے اور گزشتہ ایک صدی سے وہ اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ حالیہ تناظر میں عالمِ اسلام اور خاص طور پر بیت المقدس اور فلسطین کے حوالہ سے ترک قوم اور حکومت کے کردار نے پورے عالم اسلام کو پھر سے اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے، چنانچہ موجودہ صورتحال میں اس تبدیلی کے پس منظر اور اسباب پر بحث و تمحیص کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس پر ہفت روزہ ’’الامان‘‘ بیروت میں معروف عرب دانشور جناب نبیل البکیری نے اپنے نقطۂ نظر سے اظہار خیال کیا جس کا اردو ترجمہ جناب مسعود الرحمان خان ندوی نے کیا اور سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی نے ۴ نومبر ۲۰۱۰ء کے شمارہ میں اسے شائع کیا ۔ اس نقطۂ نظر کے تمام پہلوؤں سے اتفاق ضروری نہیں لیکن یہ صرف عربوں کی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی گزشتہ پون صدی کی ناکامیوں پر غوروفکر کا ایک رخ ضرور مہیا کرتا ہے اور اسی حوالہ سے یہ مضمون قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
’’ترک کامیاب ہوئے اور عرب ناکام! بلکہ اسلام پسند ترک کامیاب ہوئے، اسلام پسند عرب ناکام! یہ کیا بات ہے؟ جب کہ اسلام پسند ترک اسلام پسند عربوں کے شاگرد رشید ہیں اس کے برعکس نہیں ہے۔ مگر شاگرد کیوں کامیاب ہوئے اور استاد کیوں ناکام؟ یہ سوال اہم و معروضی ہے لیکن سخت و تلخ بھی ہے۔ اس لیے کہ ہم عربوں کا مزاج غلطیوں کے اعتراف، ناکامیوں کے اقرار، تجربات پر نظرثانی اور ان سے استفادہ سے فرار کا ہے۔ ہم عربوں کا یہ اصل مسئلہ ہے۔ حقیقت کے سامنے سے ہمیشہ فرار اور اس سے آنکھیں چرانا، بلکہ سننے سے بھی گریز، یا جو کچھ بھلا برا ہو گیا اس کا جواز پیش کرنا ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ ہمارا مسئلہ عرب قبائلی اکھڑپن اور جاہلی عصبیت ہے جس کو ہم سختی سے پکڑے ہوئے اسی کے تنگ مفادات، عرف اور اخلاق کی بنیاد پر دوسرے اسلام کی تشکیل کے لیے کوشاں ہیں۔
چودہ صدی بعد ہم ابھی تک ’’سقیفہ‘‘ کی بحث سے فارغ نہیں ہوئے، ہم ابھی تک ’’صفین و جمل‘‘ کی فضاؤں میں جی رہے ہیں، مستقبل کو ماضی کے رخ دیکھتے ہیں، گویا یہ ماضی اپنی تمام غلطیوں اور منفی پہلوؤں کے ساتھ ہمارا مستقبل ہے۔ حالانکہ وہ ماضی چمکدار بھی ہے، اس میں بہت سے خیر کے پہلو ہیں جن کی بنیاد پر ہم اپنے حال و مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ اس میں بہت سی غلطیاں بھی ہیں جن سے بشری تجربات کے لحاظ سے صرف نظر کر سکتے ہیں۔ الغرض ہم ماضی کے تمام منفی پہلوؤں کے ساتھ جیتے ہیں اور اس کے مثبت پہلوؤں سے بھاگتے بلکہ ان کا انکار کرتے ہیں۔ اس لیے ہم حقائق کی تلاش اور ماضی میں خیر و شر کے تجربات و اخطاء سے استفادہ پسند نہیں کرتے۔ ہمیں ہمارے آپسی خطوط مشترک کے طور پر اختلافی نقاط بھاتے ہیں۔ جب کہ اغیار ان چیزوں کو تلاش کرتے ہیں جو ان کو متحد کریں نہ کہ متفرق، اور طاقت بخشیں نہ کہ کمزور کریں۔ یہی ہم عربوں میں مفقود ہے۔
ترکی میں العدالۃ والتنمیہ کے اسلام پسندوں کی کامیابی تجربات و معارف اور کامیابیوں و ناکامیوں کے مجموعہ کو فلٹر و مطالعہ و تنقیح کر کے ان کو ایسی بہترین شکل میں پیش کرنے سے ہوئی جس سے استفادہ اور تعمیر نو ممکن ہو۔ اس کے برعکس عرب کسی سے استفادہ کرنا نہیں چاہتے، اس لیے کہ ہم میں سے ہر ایک خود تجربہ کرنا اور دیکھنا چاہتا ہے، خواہ وہ ساری امت کی کوششوں کے حساب اور اس کے حال و مستقبل کی بربادی پر منتج ہو۔ یہ ہماری ذات کی گہرائی میں پیوست ’’انا کمپلیکس‘‘ ہے جس سے ہم اپنی ذات اور امت پر ڈھائے ہوئے تمام مصائب و پریشانیوں کے باوجود نجات حاصل نہیں کر سکے۔ وہ گناہ کے ذریعے عزت حاصل کرنا، غلطی کا اعتراف و تدارک نہ کرنا، اور حق و صواب کی طرف واپس نہ ہونا ہے۔ وہ تشریع و تاریخ میں واضح خلط مبحث دین اور سیاست میں عدم تفریق ہے۔
یہ ہم عربوں کا مسئلہ ہے کہ ایک فریق نے اپنی ترقی میں دین کو رکاوٹ سمجھا تو اس نے اس کو کنارے کر دیا جس کی وجہ سے وہ جلد ہی راہ سے بھٹک گیا۔ اس لیے کہ اس نے اس چراغ ہی کو پھینک دیا جو اس کے راستہ کو روشن کرتا۔ دوسرے فریق نے دین کو ترقی کا ضروری مقدمہ سمجھا لیکن اس نے اس کو اپنی فہم کے مطابق سمجھا اور اپنے پیمانے کے مطابق لیا اور ایسے بشری اجتہادات پر اڑ گیا جن کا اب چودہ صدی سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد کوئی جواز نہیں ہے۔ جبکہ ترکوں نے غلط و صحیح کے نکات کو مقرر کر کے ان کو آگے بڑھنے کا زینہ بنایا، مستقبل کی طرف دیکھا، انسان کی ضروریات اور اس کے روحانی اشواق کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو دیکھا۔ جبکہ عرب ماضی میں غرق رہے، دنیا کو بے سود مواعظ سے بھر دیا، مگر یہ نہ سوچا کہ بھوکے معدہ کا درد و الم کانوں کو بہرا اور عقلوں کو منجمد کر دیتا ہے۔ ترک اسی لیے کامیاب ہوئے کہ انہوں نے بیک وقت ترک اور مسلم ہونے میں تعارض محسوس نہیں کیا۔ جب کہ عرب مرغ کے مشابہ کشمکش میں مبتلا رہے۔ ایک کہتا ہے کہ حل عرب قومیت سے گلوخلاصی میں ہے، جبکہ دوسرا بولتا ہے کہ حل اسلام سے دستبرداری میں ہے، اور دیگر کہنے والے کہتے کہ ایک وقت میں عرب و مسلم ہونا ممکن نہیں۔
ترک اس لیے کامیاب ہوئے کہ انہوں نے تمام ترکی عوام کے ساتھ ایک ملک کے حکمران کی حیثیت سے معاملہ کیا۔ ان کے ساتھ پارٹی یا طائفہ یا قبیلہ کی بنیاد پر معاملہ نہیں کیا۔ اس ملک کے حکمرانوں نے مملکت کو عزت و جاہ، ملت و ثروت، اور حکومت و اقتدار کا وسیلہ بنا کر بیٹوں و پوتوں کی موروثی جائیداد بنانے کا معاملہ نہیں کیا۔ ترک اس لیے کامیاب ہوئے کہ وہ جمہوریت پسند اور ظلم و استبداد سے نفرت کرنے والے ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کو نمائش کے لیے زیب و زینت کا ڈیکوریشن اور اس کے نام پر بین الاقوامی امداد کی بھیک مانگنے کا ذریعہ نہیں بنایا۔ وہ اس لیے کامیاب ہوئے کہ انہوں نے ترکی کو ایک مملکت سمجھا، قبیلہ نہیں۔
ترکوں کے پاس پیٹرول ہے نہ گیس، مگر وہ اس لیے کامیاب ہوئے کہ ان کے پاس طاقتور سیاسی ادارہ اور اس سے زیادہ قومی فکری آزادی ہے۔ انہوں نے اپنی اس اندرونی طاقت کے بل پر ترکی کے میدانی علاقوں کو گیہوں، چاول اور جو پیدا کرنے کے کھیت بنا ڈالا۔ اس طرح خطہ میں وہ پہلی مملکت بنی جس نے گیہوں کا اہم اسٹریٹجک محصول حاصل کیا۔ جس کو عرب پیدا کر کے نہیں بلکہ عزت کی مفقود روٹی حاصل کرنے کے لیے اپنے پیٹرول و گیس کو بلیک مارکیٹ میں بیچ کر حاصل کرتے ہیں۔
ترکوں کی کامیابی کے یہ بعض نکات ہیں۔ عرب جماعتوں کو چاہیے کہ تھوڑی تواضع اختیار کر کے اپنا جائزہ لیں، دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے میں سرفہرست ترکی تجربہ کا غور سے مطالعہ کریں، پھر اس تجربہ کی روشنی میں اپنے مسلّمات پر غور کریں۔ نمایاں مفکر احمد داؤد اور غلو اور ان کے دونوں ساتھیوں اردوغان اور غول کی اسٹریٹجک فکر پر غور کریں۔ یہ تجربہ ستر برس سے بھٹک رہی عرب جماعتوں و تحریکوں کے غور و فکر کا مستحق ہے۔‘‘
(ہفت روزہ الامان، بیروت)