بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان جلیل القدر صحابہ کرامؓ میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کی طویل عرصہ تک خدمت کا موقع عنایت فرمایا۔ ان کا شمار امت کے بڑے لوگوں میں ہوتا ہے اور وہ عرب کے ممتاز دانشوروں اور مدبرین میں سے ہیں جن پر اسلام اور عرب کی تاریخ کئی حوالوں سے فخر کرتی ہے۔ وہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر نسبتی تھے اور سلطنتِ اسلامیہ کے باب میں انہیں امیر المؤمنین حضرت عمرؓ اور امیر المؤمنین حضرت عثمانؓ جیسے بزرگوں کا اعتماد حاصل تھا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے دور میں وہ کم و بیش بیس سال تک شام کے گورنر رہے، پھر تقریباً پانچ سال تک امیر المؤمنین حضرت علیؓ کے دور میں ان کے متوازی امیر کے طور پر شام کے حکمران رہے، جسے اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک ان کا اجتہادی خطا کا دور شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے بعد حضرت حسنؓ کی خلافت سے دستبرداری کے بعد کم و بیش بیس برس تک حضرت امیر معاویہؓ پوری امتِ مسلمہ کے متفقہ امیر المؤمنین کی حیثیت سے عالمِ اسلام کے واحد حکمران رہے۔
اس طرح حضرت معاویہؓ نے تقریباً پینتالیس سال مسلمانوں پر حکومت کی، ظاہر بات ہے کہ اتنا لمبا عرصہ حکومت کرنے کی وجہ سے ان سے لوگوں کو شکایات بھی زیادہ ہوئی ہوں گی اور ایک مجتہد کے طور پر ان کے اجتہادی فیصلوں سے اختلاف کا دائرہ بھی اسی قدر وسیع ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود تاریخِ اسلام کے عالمی منظر میں انہیں ایک مدبر، حلیم الطبع، دانشور، بردبار اور رعیت نواز حکمران کے طور پر جو مقام حاصل ہے وہ عالمِ اسلام کے حکمرانوں میں ان کے امتیاز و افتخار کا نمایاں عنوان ہے۔ یہ انسانی سماج کی فطرت ہے کہ جسے سوسائٹی میں جتنا زیادہ مقام اور مرتبہ حال ہوتا ہے اسی حساب سے اسے ناقدین اور معترضین کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہی معاملہ سیدنا حضرت معاویہؓ کو پیش آیا۔
حضرت معاویہؓ کی ذات اور کردار پر ہر دور میں اعتراض ہوتے آئے ہیں اور ہر زمانے میں اہلِ سنت کے اکابر علماء کرام نے ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے حضرت معاویہؓ کے مقام و مرتبہ اور منقبت و فضیلت کو دلائل و براہین کے ساتھ واضح کیا۔ انہی میں سے گزشتہ صدی ہجری کے ممتاز فقیہ و محدث حضرت مولانا عبد العزیز فرہارویؒ بھی ہیں جنہوں نے ’’الناھیۃ عن طعن امیر المؤمنین معاویۃؓ‘‘ کے نام سے ایک مختصر اور جامع رسالہ تحریر فرما کر اس تسلسل کو قائم رکھا ہے اور حضرت معاویہؓ کے اس مقام و مرتبہ کی وضاحت فرمائی ہے جو اہل السنۃ والجماعۃ کے ہاں ان کے لیے مُسلّم چلا آرہا ہے۔ مولانا محمد غزالی سلّمہٗ نے اس رسالہ کا اردو ترجمہ کیا ہے اور اس کی روایات کی تخریج کر کے اس کی افادیت کو دوچند کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول فرمائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے نفع بخش بنائیں، آمین یا رب العالمین۔