سانحہ لال مسجد اور وفاق المدارس کا اجلاس

   
۹ اگست ۲۰۰۷ء

دو روز سے ملتان میں ہوں اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ اور مجلس شوریٰ کے ہنگامہ خیز اجلاس میں شریک ہوں۔ یہ اجلاس لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے المناک سانحہ کے بارے میں خصوصی طور پر طلب کیا گیا تھا اور اس کے بارے میں کئی دنوں سے خبریں آ رہی تھیں کہ اس میں خاصی گہماگہمی ہوگی، اس لیے کہ سانحہ لال مسجد کے حوالے سے وفاق المدارس کی جدوجہد کے بارے میں بہت سے احباب شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور تحفظات رکھتے ہیں جبکہ بعض حلقوں کی طرف سے شکوک و شبہات کا ماحول پیدا کرنے کی باقاعدہ کوشش بھی کی جا رہی ہے- اس لیے اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی اس قسم کی گہماگہمی کی توقع کی جا رہی تھی اور یہ گہماگہمی ہوئی بھی مگر ’’رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت‘‘ والا معاملہ ہوا اور بحمد اللہ تعالیٰ اجلاس کم و بیش ساڑھے پانچ گھنٹے جاری رہنے کے بعد حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کے اختتامی خطاب اور دعا پر اختتام پذیر ہوا۔

وفاق المدارس کے بارے میں دوستوں کے گلے شکوے دو قسم کے ہیں:

  1. ایک طرف وہ دوست ہیں جن کا کہنا ہے کہ وفاق المدارس لال مسجد کے سانحہ کے بارے میں کوئی کردار کیوں ادا کر رہا ہے؟ ان کے خیال میں وفاق ایسا کر کے اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے اور خواہ مخواہ سیاست میں گھس رہا ہے، چنانچہ ہمارے مخدوم زادہ محترم مولانا میاں محمد اجمل قادری صاحب کا ایک بیان اجلاس والے روز ہی یعنی ۷ اگست کو ملتان کے اخبارات میں شائع ہوا کہ وفاق المدارس نے لال مسجد کے سانحہ کے بارے میں سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر کے اپنی حدود کار سے تجاوز کیا ہے اور خواہ مخواہ سیاست میں گھسنے کی کوشش کی ہے، اس لیے اسے یہ رٹ واپس لے لینی چاہیے کیونکہ لال مسجد کے بارے میں ایسا کرنا صرف مولانا عبد العزیز کا حق ہے۔
  2. لیکن اس کے علی الرغم بعض دوسرے احباب کا خیال ہے جس کا اظہار انہوں نے پورے جوش و خروش کے ساتھ اجلاس میں بھی کیا کہ وفاق کو یہ رٹ بہت پہلے دائر کرنی چاہیے تھی، اور جس وقت لال مسجد کے خلاف آپریشن شروع ہوا تھا اس وقت سپریم کورٹ سے رجوع کر کے اس آپریشن کو رکوانا چاہیے تھا۔ ان کے خیال میں وفاق کا یہ اقدام بعد از وقت ہے اور اس نے یہ قدم اپنی ساکھ بچانے کے لیے کیا ہے۔ مگر یہ دوست وفاق پر اتنا بڑا الزام لگاتے ہوئے یہ بات بھول گئے کہ سپریم کورٹ نے لال مسجد کے خلاف آپریشن کے دوران ہی اس کا ازخود نوٹس لیا تھا، لیکن جب عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی کہ آپریشن کے خلاف حکم امتناعی جاری کر کے اسے رکوایا جائے تو اس نے یہ کہہ کر اس سے انکار کر دیا تھا کہ یہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔

وفاق کی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے دوران میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دوستوں نے دونوں طرح کی باتیں کیں۔ ایک دوست نے وفاق کے دستور کی ایک دفعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دستور میں لکھا ہے کہ وفاق المدارس کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے گا، اس لیے وفاق کو اپنی سرگرمیاں تعلیمی اور امتحانی حدود تک محدود رکھنی چاہئیں۔ مگر دوسری طرف بہت سے دوستوں کا اصرار تھا کہ وفاق المدارس کی مجلس شوریٰ کو حکومت کے خلاف باقاعدہ تحریک کا اعلان کرنا چاہیے بلکہ بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا کہ صدر پرویز مشرف کو ’’واجب العزل‘‘ قرار دینے کا فتویٰ جاری کر کے اس کے لیے تحریک منظم کرنی چاہیے۔ چنانچہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن نے اس صورتحال پر اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں یہ تبصرہ کیا کہ وفاق المدارس عجیب مخمصے کی حالت میں ہے۔ اگر وہ کچھ کرتا ہے تو دوست معترض ہوتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے، اور اگر وہ اپنی حدود کار سے آگے بڑھنے سے ہچکچاتا ہے اور اس سے آگے کچھ نہیں کرتا تو بھی بہت سے احباب کو اعتراض ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں نہیں کر رہا؟

بہرحال اس فضا میں وفاق المدارس کی مجلس عاملہ اور مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقد ہوئے۔ مجلس عاملہ کا اجلاس ۶ اگست کی شام کو ہوا اور مجلس شوریٰ کا اجلاس ۷ اگست کو صبح دس بجے کے لگ بھگ شروع ہو کر تقریباً ساڑھے تین بجے تک جاری رہا۔ اس کے درمیان صرف نماز ظہر کا وقفہ ہوا اور شرکاء نے کھانا اجلاس سے فراغت کے بعد کھایا۔

مجلس عاملہ کے اجلاس میں زیادہ تر بحث مولانا عبد الغفار کی اس باضابطہ درخواست کے حوالے سے ہوئی کہ جامعہ فریدیہ کا وفاق المدارس کے ساتھ الحاق بحال کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی زیر بحث رہی کہ جامعہ فریدیہ کے طلبہ اور جامعہ حفصہ کی طالبات کا تعلیمی سال بچانے کے لیے ۱۱ اگست کو شروع ہونے والے وفاق کے سالانہ امتحانات میں ان کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو کس طرح یقینی بنایا جائے۔ مولانا عبد الغفار جامعہ فریدیہ کے پرانے اساتذہ میں سے ہیں جن کے بارے میں وفاق المدارس نے یہ تجویز کیا تھا کہ جامعہ فریدیہ کا نظام اگر حکومت مولانا عبد الرشید غازی شہیدؒ کی خواہش کے مطابق وفاق المدارس کے سپرد نہیں کرتی تو مولانا عبد الغفار کی سربراہی میں جامعہ فریدیہ کے پرانے اساتذہ کی کمیٹی قائم کر کے جامعہ فریدیہ کا نظم اس کے سپرد کر دیا جائے۔ جبکہ مولانا عبد العزیز نے بھی جامعہ فریدیہ کے نظم و نسق کی نگرانی کے لیے انہی کو اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے اور مولانا عبد الغفار نے وفاق کو الحاق کی بحالی کے لیے باقاعدہ درخواست ارسال کی ہے۔

امتحانات میں جامعہ حفصہ کی طالبات اور جامعہ فریدیہ کے طلبہ کی شرکت کے بارے میں اجلاس میں بتایا گیا کہ وفاق کی مجلس عاملہ نے اپنے ۱۸ اپریل ۲۰۰۷ء کے اجلاس میں ہی یہ اعلان کر دیا تھا جو وفاق کے ماہنامہ میں شائع ہو چکا ہے کہ وہ وفاق سے الحاق رکھنے والے کسی بھی مدرسہ کی طرف سے داخلہ کے لیے فارم بھجوا سکتے ہیں، انہیں امتحان میں شریک کیا جائے گا۔ اس موقع پر دفتر وفاق کی طرف سے بتایا گیا کہ لال مسجد کے آپریشن سے قبل بھی جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کے سینکڑوں طلبہ اور طالبات کی طرف سے امتحان میں داخلہ کے فارم مختلف مدارس کی طرف سے بھجوائے گئے ہیں جو منظور کیے گئے ہیں اور ریکارڈ پر ہیں۔ جبکہ لال مسجد کے سانحہ کے بعد بھجوائے جانے والے اس نوعیت کے داخلہ فارموں کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ ہے اور جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کے طلبہ اور طالبات کے لیے یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ وہ امتحان شروع ہونے کے دن یعنی ۱۱ اگست کی صبح کو بھی داخلہ فارم پیش کریں گے تو انہیں امتحان میں شریک کیا جائے گا اور ان کا داخلہ فارم آخر وقت تک سنگل فیس کے ساتھ وصول کیا جائے گا۔ اس پر مجلس عاملہ نے مولانا عبد الغفار کی درخواست کے بعد یہ اضافہ کیا کہ دیگر مدارس کی طرف سے بھجوائے جانے والے داخلہ فارموں کے علاوہ جامعہ حفصہ کی طالبات اور جامعہ فریدیہ کے طلبہ اگر مولانا عبد الغفار کی تصدیق کے ساتھ داخلہ فارم بھجوائیں گے تو اسے بھی منظور کیا جائے گا اور انہیں امتحان میں شریک کر لیا جائے گا۔ البتہ جامعہ فریدیہ کے وفاق المدارس کے ساتھ الحاق کی بحالی کا معاملہ چونکہ کچھ ضروری تفصیلات کا متقاضی ہے، اس لیے اس سلسلے میں وفاق المدارس کے نائب صدر حضرت مولانا حسن جان مدظلہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں مولانا عبد الغفار کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں جامعہ فریدیہ اور اس کی شاخوں کے بارے میں وفاق کی آئندہ پالیسی طے کی جائے گی۔

وفاق المدارس کی طرف سے لال مسجد آپریشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے کے بارے میں اجلاس کو بتایا گیا کہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے اس سلسلے میں وفاق کی جانب سے ممتاز قانون دانوں کے مشورہ سے تیاری کرائی ہے اور وفاق اس رٹ کی پیروی میں پوری طرح سنجیدہ ہے۔ چنانچہ اس کے لیے باضابطہ کمیٹی بنائی گئی ہے جو اس رٹ کی پیروی کرے گی اور یہ طے پایا کہ ۹ اگست کو سپریم کورٹ میں اس رٹ کی ابتدائی پیشی کے موقع پر حضرت مولانا سلیم اللہ خان اور حضرت مولانا محمد تقی عثمانی سمیت وفاق کی اعلیٰ قیادت اور اسلام آباد اور راولپنڈی کے سرکردہ علماء کرام عدالت عظمیٰ میں موجود ہوں گے۔

مجلس شوریٰ کا اجلاس ۷ اگست کو صبح دس بجے کے قریب شروع ہوا۔ اجلاس کا آغاز حضرت مولانا حسن جان صاحب کی صدارت میں ہوا جبکہ تھوڑی دیر کے بعد صدر وفاق حضرت مولانا سلیم اللہ خان تشریف لے آئے اور مسند صدارت سنبھال لی۔ اجلاس میں وفاق کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے سانحہ لال مسجد کے بارے میں آغاز سے اب تک کی صورتحال کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی اور اس سلسلے میں کیے جانے والے بہت سے سوالات و اعتراضات کی وضاحت کی۔ اس کے بعد عمومی بحث کا آغاز ہوا جس میں ایک درجن کے لگ بھگ احباب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان میں جذبات کی شدت بھی تھی جو سانحہ لال مسجد کی سنگینی کے پس منظر میں فطری بات تھی اور یہ دوستوں کا حق بھی تھا۔ ان تقاریر میں شکوک و اعتراضات کی بھرمار بھی تھی، بہت سے تحفظات کا اظہار بھی تھا اور وفاق کی قیادت سے مستعفی ہونے کے مطالبات بھی تھے۔ لیکن جب جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن نے، جو اس اجلاس میں جامعہ معارف شرعیہ ڈیرہ اسماعیل خان کے مہتمم کی حیثیت سے رکن شوریٰ کے طور پر شریک تھے، اپنے تفصیلی خطاب میں موجودہ عالمی اور ملکی صورتحال کا جائزہ پیش کیا اور بتایا کہ اس خطے میں عالمی استعماری قوتیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے کس انداز سے آگے بڑھ رہی ہیں، تو مجلس شوریٰ کے اجلاس کا ماحول خاصا تبدیل ہو گیا۔ اور ان کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمن کی تائید کرتے ہوئے کچھ مزید امور کا اضافہ کیا تو اجلاس میں جوش اور ہوش کا توازن بحال ہوا اور پھر ان دونوں بزرگوں کی تجویز پر ہاؤس نے ہاتھ اٹھا کر غالب اکثریت کے ساتھ یہ فیصلہ صادر کیا کہ مجلس شوریٰ کے اجلاس میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، ان سب کو منضبط کیا جائے اور انہیں منظم و مرتب صورت میں وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے سامنے پیش کر دیا جائے، تاکہ وہ ان کی روشنی میں لال مسجد کے سانحہ کے بارے میں وفاق المدارس کی آئندہ جدوجہد کا تفصیلی لائحہ عمل طے کر سکے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے مجلس عاملہ کا اجلاس ۱۸ اگست کو کراچی میں طلب کر لیا گیا ہے۔

اس موقع پر حضرت مولانا سلیم اللہ خان نے بعض شرکاء کے مطالبہ کی وجہ سے اپنی طرف سے اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کی طرف سے وفاق کے صدر اور سیکرٹری جنرل کے عہدوں سے مستعفی ہونے کی پیشکش کی مگر مانسہرہ کے مولانا مفتی کفایت اللہ کی تحریک پر شرکاء اجلاس نے ہاٹھ اٹھا کر مجلس عاملہ پر اعتماد کا اظہار کیا جس سے یہ بات ختم ہو گئی۔

وفاق کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کا تفصیلی خطاب میرے نزدیک موجودہ عالمی اور ملکی صورتحال میں دینی حلقوں کے کردار کے حوالے سے ایک بہترین اور راہنما تجزیہ کی حیثیت رکھتا ہے جسے مکمل طور پر شائع کیا جانا چاہیے، مگر اس کالم میں ان کے خطاب کے صرف دو حصوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں جو ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

  • حضرت مولانا سلیم اللہ خان، حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی جیسی شخصیات ہمارے لیے راہنما اور سایہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور دیوبندی مسلک کی علمی قیادت کی صف اول ہیں۔ اگر ہم ان کی بات بھی نہیں مانیں گے اور ان پر بھی اعتماد نہیں کریں گے تو پھر اور کون ہے جسے ہم اپنے راہنما کی حیثیت دیں گے اور ان پر اعتماد کر کے ان کی بات مانیں گے؟
  • وفاق المدارس العربیہ وہ واحد فورم ہے جو دیوبندی مسلک کی تمام جماعتوں اور حلقوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ ہم وقتاً فوقتاً اس گھر میں سب اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ایک چھت کے نیچے مل جل کر بیٹھ جاتے ہیں، اسی وجہ سے اسے سبوتاژ کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ ہمیں ایسی کوششوں سے خبردار رہنا چاہیے اور اس وحدت کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ اس وقت ہماری مسلکی وحدت کا یہی ایک نشان باقی رہ گیا ہے۔

خدا کرے کہ ہم مولانا فضل الرحمن کی ان دو فکر انگیز باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے سکیں۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter