برادر مسلم ملک الجزائر کی حکومت نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں ایک ریفرنڈم کا اہتمام کیا جس کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ عوام نے اس ریفرنڈم میں حکومت کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے اسلامی بنیاد پرستوں کو مسترد کر دیا ہے۔ چنانچہ اس ریفرنڈم کے بعد دستوری طور پر یہ پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ ملک کی کوئی جماعت اسلام کا نام لے کر سیاست یا الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتی، اور اس طرح الجزائر کو سیکولر ریاست قرار دے دیا گیا ہے۔
ہم ان کالموں میں پہلے عرض کر چکے ہیں کہ الجزائر نے فرانسیسی استعمار کے طویل تسلط سے صبر آزما تحریکِ آزادی کے ذریعے نجات حاصل کی، اور تحریکِ آزادی میں الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ اور الشیخ بشیر ابراہیمیؒ جیسے سرکردہ علماء کی قیادت میں دینی جمعیت علماء الجزائر اور دیگر دینی حلقوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ آزادی کے بعد الجزائر کی اسلامی جماعتیں ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے سیاسی جدوجہد میں مصروف رہیں، حتیٰ کہ ۱۹۹۲ء کے انتخابات میں اسلامی نظام کے مکمل نفاذ کی داعی جماعت ’’اسلامک سالویشن فرنٹ‘‘ نے الیکشن کے پہلے مرحلہ میں ۸۰ فیصد ووٹ حاصل کر لیے، جس سے یہ امکانات واضح ہو گئے کہ اسلامک سالویشن فرنٹ اقتدار میں آ کر اسلامی نظام نافذ کر دے گا۔ لیکن مقتدر سیکولر قوتوں نے
- فوج کی مدد سے انتخابات منسوخ کرا دیے،
- اسلامک فرنٹ کو غیر قانونی قرار دیا،
- اور ریاستی جدوجہد کے ذریعے دینی جماعتوں کو کچل دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں اور ہزاروں کارکن جیلوں میں ہیں۔ بعض مقامات پر اس ناروا اور دہشتناک ریاستی تشدد کے خلاف دینی کارکنوں نے ہتھیار بھی اٹھا لیے ہیں جس کے باعث ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت دکھائی دے رہی ہے۔ یہاں تک کہ عالمی پریس کے مطابق ریفرنڈم والے دن بھی باہم جھڑپوں میں ۲۶ افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
اس پس منظر میں یہ ریفرنڈم اور اس کے ذریعے قومی سیاست سے مذہبی جماعتوں اور اسلامی نظام کے مطالبہ کو بے دخل کرنے کی یہ کارروائی بھی اسی ریاستی جبر کا حصہ ہے، جس کا مقصد اسلامی قوتوں کو مکمل طور پر کچل دینا اور الجزائر کو اسلامی نظام سے محروم رکھنا ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ ماہ لندن میں الجزائر کے ایک جلاوطن دینی راہنما الشیخ عبد اللہ المسعی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ ریاستی جبر اور ریفرنڈم الجزائر کی اسلامی تحریک کے لیے آزمائش اور ابتلا کے مراحل میں ضرور اضافہ کرے گی، لیکن اس کے ذریعے الجزائر میں اسلامی نظام کا راستہ زیادہ دیر تک روکا نہیں جا سکتا، اور الجزائر کی دینی جماعتیں بالآخر اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوں گی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت انہیں اپنے دینی مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار فرمائیں، آمین ثم آمین۔