۵ مارچ ۱۹۸۲ء
وزیرداخلہ جناب محمود ہارون نے اپنے دورۂ کویت کے دوران کویت کی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کو علاقائی اور اندرونی طور پر درپیش صورتحال پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور اس ضمن میں یہ بھی فرمایا ہے کہ افغانستان میں روسی جارحیت کے جاری رہنے تک پاکستان میں انتخابات نہیں ہو سکتے اور یہ بھی کہا کہ سیاستدان حکومت کو متفقہ سیاسی لائحہ عمل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
انٹرویو کے دیگر مندرجات سے قطع نظر ہم جناب محمود ہارون کے ان دو نکات سے اختلاف کی جسارت کریں گے کیونکہ:
- ہمارے خیال میں پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کو روسی جارحیت کے ساتھ منسلک کرنا درست نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہنا مبنی برحقیقت ہے کہ پاکستان میں حالات انتخابات کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک ایران نے اپنی چوٹی کی لیڈرشپ کے حادثہ میں ہلاک ہونے کے بعد عراق کے ساتھ جنگ کے دوران انتخابات منعقد کرائے ہیں اور ہماری طرح ایران کو بھی روسی جارحیت کے اثرات کا سامنا ہے۔ ہاں اگر انتخابات کے ضمن میں روسی جارحیت کے حوالہ سے انتخابات کے حامی عناصر بات کریں تو زیادہ جچتی ہے کیونکہ ان کا یہ کہنا زیادہ قرین قیاس ہوگا کہ افغانستان میں روسی جارحیت کے تسلسل کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے ذریعے منتخب حکومت کا قیام جلد از جلد عمل میں لایا جائے تاکہ نمائندہ حکومت عالمی برادری میں پاکستان کے موقف کو زیادہ اعتماد اور حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھا سکے۔
- اسی طرح جناب محمود ہارون کا یہ کہنا بھی واقعہ کے مطابق نہیں ہے کہ پاکستان کے سیاسی رہنما حکومت کو متفقہ سیاسی لائحہ عمل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کیونکہ ملک کے تمام قابل ذکر سیاسی رہنما سیاسی عمل کی بحالی، ۱۹۷۳ء کے آئین کی بالادستی، سنسرشپ کے مکمل خاتمہ اور انتخابات کے ذریعے نمائندہ حکومت کے جلد از جلد قیام پر متفق ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جسے ان نکات سے اختلاف ہو اور یہ چار متفقہ نکات موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ ہے جسے اختیار کرنے میں حکومت کو تاخیر سے کام نہیں لینا چاہیے۔