عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیت اور اخوان المسلمین شام کے سابق مرشد عام الاستاذ عبد الفتاح ابوغدۃ گزشتہ دنوں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ الاستاذ عبد الفتاح ابوغدۃؒ کا تعلق شام سے تھا اور وہ شام کے معروف حنفی محدث الاستاذ محمد زاہد الکوثریؒ کے تلمیذ خاص اور ان کے علمی جانشین تھے۔ عرب دنیا میں حنفی مسلک کے تعارف اور اس کی ترویج و اشاعت میں ان دونوں بزرگوں کا بہت بڑا حصہ ہے اور یہ بزرگ گزشتہ پون صدی کے دوران عالم عرب میں حنفیت کے علمی ترجمان کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔
الاستاذ عبد الفتاح ابوغدۃؒ بنیادی طور پر ایک علمی شخصیت تھے، حدیث و فقہ ان کے خاص موضوعات تھے، تمام زندگی درس و تدریس میں گزاری اور ان کی متعدد علمی تصنیفات اہل علم کی راہنمائی کے لیے منظر عام پر آچکی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ظلم و جور اور الحاد و زندقہ کے خلاف اہل حق کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں حتیٰ کہ انہیں جلاوطن ہونا پڑا اور ان کی وفات جلاوطنی کے عالم میں ریاض میں ہوئی ہے۔ شام کے موجودہ حکمران حافظ الاسد کا تعلق بعث پارٹی سے ہے جو عرب نیشنلزم اور سیکولرازم کی علمبردار ہے اور مذہبی طور پر وہ نصیری فرقہ سے وابستہ ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی الوہیت کا عقیدہ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ الاسد کے دور حکومت میں اہل دین بالخصوص علماء اہل سنت شام میں مسلسل ابتلاء اور آزمائش سے دوچار ہیں۔ ہزاروں علماء اور دینی کارکن جیلوں میں ہیں اور ریاستی جبر کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بیان کی جاتی ہے۔ حماہ نامی ایک بڑا قصبہ جس کی طرف بعض اہل علم ’’حموی‘‘ نسبت رکھتے ہیں اہل دین کا مرکز ہونے کی وجہ سے بلڈوزروں کے ساتھ مسمار کیا جا چکا ہے اور لندن میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے ایک شامی عالم دین الشیخ عمر بکری محمد الشافعی کے بقول جہاں کسی زمانہ میں ’’حماہ‘‘ نامی بستی ہوا کرتی تھی اب وہاں چٹیل میدان ہے۔
الاستاذ عبد الفتاح ابوغدۃؒ اس ریاستی جبر کے مقابلہ میں ایک عرصہ تک اخوان المسلمین کے سربراہ کی حیثیت سے اہل دین کی قیادت کرتے رہے اور بالآخر جلاوطنی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کا پاکستان کے اہل علم کے ساتھ خصوصی تعلق تھا، محدث جلیل حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے قریبی دوستوں میں سے تھے، والد محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سے بھی متعارف اور ان کے مداح تھے۔ گزشتہ برس حرمین شریفین میں دونوں بزرگوں کی ملاقات بھی ہوئی۔
راقم الحروف کو الاستاذ عبد الفتاح ابوغدۃؒ سے شرف ملاقات و تلمذ حاصل ہے۔ ان سے پہلی ملاقات چار سال قبل ریاض میں ہوئی جبکہ دوسری اور آخری ملاقات کا شرف گزشتہ سال لندن میں حاصل ہوا، وہ اس طرح کہ محترم مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے بتایا کہ الاستاذ عبد الفتاح ابوغدۃؒ لندن آے ہوئے ہیں اور ایک دو روز میں واپس جانے والے ہیں۔ ان کے میزبانوں سے پروگرام معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہ روانگی کے لیے پابہ رکاب ہیں۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا محمد اکرم ندوی اور راقم الحروف بھاگم بھاگ ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچے کہ وہیں ملاقات ہو جائے گی۔ امام بخاریؒ کی ’’الادب المفرد‘‘ ساتھ لے لی کہ موقع ملا تو ایک دو حدیثیں سنا کر روایت حدیث کی اجازت کی درخواست کروں گا۔ ایئرپورٹ پہنچے تو وہ بورڈنگ کارڈ وغیرہ کے مراحل سے فارغ ہو کر روانگی کے ہال کی طرف جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ سلام عرض کر کے ’’الادب المفرد‘‘ سامنے کی تو وہیں بے تکلفی سے سیڑھیوں پر بیٹھ گئے اور فرمایا ’’اقرا‘‘۔ ابتدائی چند احادیث پڑھیں تو اپنی تمام اسناد کے ساتھ روایت حدیث کی عمومی اجازت مرحمت فرمائی اور دعا سے نوازا۔
اس ملاقات کا منظر ابھی تک نگاہوں کے سامنے ہے، ہمارے سیڑھیوں پر بیٹھ جانے کی وجہ سے اردگرد ہجوم اکٹھا ہوگیا تھا لیکن وہ اردگرد سے بے نیاز ’’الادب المفرد‘‘ پر نظریں جمائے بڑے اطمینان کے ساتھ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سماعت کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمایں، حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔