یادش بخیر جناب کوثر نیازی وفاقی وزیر مذہبی امور طویل عرصہ کی معنی خیز خاموشی کے بعد گزشتہ دنوں پشاور میں چہکے ہیں اور ان کی گفتگو کا عنوان وہی پرانا ہے جو ان کے ذمہ ہے یعنی دینی مدارس اور حکومت کی پالیسی۔ نیازی صاحب نے جو کچھ فرمایا روزنامہ نوائے وقت ۳ جنوری ۱۹۷۷ء کے مطابق اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
- مولانا مفتی محمود کا یہ الزام درست نہیں ہے کہ حکومت دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں لینا چاہتی ہے۔
- دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے سے اخراجات بڑھ جائیں گے اور تعلیمی بجٹ کو نقصان پہنچے گا۔
- البتہ حکومت دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلیاں کرے گی، ان کی نگرانی کرے گی اور ان کے حسابات خود آڈٹ کرائے گی۔
گویا نیازی صاحب نے بالواسطہ اس امر کا اعتراف کر لیا ہے کہ دینی مدارس کے اخراجات جن دیندار مسلمانوں کے عطیات و صدقات سے پورے ہوتے ہیں وہ سرکاری تحویل میں آنے کے بعد دینی مدارس کی امداد نہیں کریں گے اور اپنے عطیات و صدقات کے سلسلہ میں سرکاری مشینری پر اعتماد نہیں کریں گے، اس طرح تمام اخراجات کا بوجھ تعلیمی بجٹ پر پڑے گا اور تعلیمی بجٹ کو نقصان پہنچے گا۔ اس لیے حکومت نے سوچا ہے کہ عطیات و صدقات کی وصولی کا شعبہ تو علماء کرام ہی کے پاس رہنے دیا جائے کیونکہ عوام اس سلسلہ میں صرف انہی پر اعتماد کرتے ہیں لیکن اخراجات اور تعلیمی نصاب کا شعبہ حکومت اپنی نگرانی میں لے لے تاکہ دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے کی بدنامی تو حصہ میں نہ آئے لیکن عملاً اس کے مقاصد پورے ہوتے رہیں۔ اور دینی مدارس سے خالص دینی ذہن رکھنے والی جو کھیپ ہر سال تیار ہو کر معاشرہ میں آتی ہے، نصاب میں تبدیلی کر کے اسے سرکاری پالیسی اور مقاصد کے مطابق تیار اور استعمال کیا جا سکے۔
بلاشبہ یہ پالیسی حکمرانوں کی عیارانہ چابکدستی کی واضح مثال ہے اور ’’ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے‘‘ کا محاورہ بھی ایسے ہی موقع پر کام آتا ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلٰی حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ نے پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ہم حکومت کو دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔