عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی ایک اہم علمی خدمت

   
۲ جنوری ۲۰۰۴ء

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما مولانا اللہ وسایا صاحب گزشتہ دنوں گوجرانوالہ تشریف لائے اور الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے عالمی مجلس کی شائع کردہ کتاب ”احتساب قادیانیت“ کا ہدیہ دیا جو دس جلدوں پر مشتمل ہے اور جس میں قادیانیت کے بارے میں ان اکابر علماء امت کی اہم تصانیف کو یکجا کر دیا گیا ہے جنہوں نے جو اپنے اپنے دور میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے محاذ پر سرگرم کردار ادا کیا، مگر ان کی تحریریں اس زمانے میں شائع ہونے کے باوجود اب نایاب ہو گئی تھیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے انیسویں صدی کے آخر میں مہدی اور نبی ہونے کے ساتھ ساتھ مسیح ہونے کا دعویٰ کیا، حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ارفع کا انکار کر کے ان کے نزول کے بارے میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور پیش گوئیوں کو اپنی ذات پر فٹ کرنا شروع کر دیا اور امام مہدی کے ظہور کے بارے میں احادیث نبویہ کا مصداق بھی خود اپنی ذات کو قرار دیا تو علماء امت نے اس شر انگیزی اور فتنہ خیزی کے خلاف کلمۂ حق بلند کیا اور مسلسل جدوجہد کے ساتھ امت کو اس دام ہمرنگ زمین کا شکار ہونے سے بچایا۔

مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں علماء لدھیانہ نے ابتدا میں ہی اس کے دعاوی سے محسوس کر لیا تھا کہ یہ صاحب کفر کے راستے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور انہوں نے اس پر کفر کا فتویٰ صادر کر دیا تھا۔ جبکہ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کو مرزا غلام احمد قادیانی کے ابتدائی دعاوی مبہم ہونے کی وجہ سے ابھی اس کے کفر میں تردد تھا، لیکن آہستہ آہستہ مرزا صاحب کے دعاوی واضح ہوتے چلے گئے اور تمام مکاتب فکر کے علماء امت اس بات پر متفق ہو گئے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے متبعین ان دعاوی کی وجہ سے جو مرزا قادیانی کی طرف سے سامنے آ چکے ہیں دائرہ اسلام سے خارج اور ایک نئے دین کے پیروکار ہیں۔ علماء امت کے اسی متفقہ فیصلے کی بنیاد پر پاکستان میں قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔

مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر و ارتداد کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں اور آخر الذکر دو بزرگوں کے ساتھ تو مرزا صاحب کا اس طرح آمنا سامنا بھی ہوا کہ ان کے درمیان تحریری محاذ آرائی اور چیلنج بازی کا بازار گرم ہوا اور مرزا قادیانی کو اس مقابلہ میں منہ کی کھانی پڑی۔ اس کے علاوہ جن اکابر علماء کرام نے مرزا قادیانی کے دعاوی اور قادیانی جماعت کے مکر و فریب کا پردہ چاک کرنے کے لیے قلم اٹھایا اور عام مسلمانوں کو اپنی تحریرات کے ذریعہ اس فتنہ کے شر سے آگاہ کرنے کی مسلسل جدوجہد کی، ان میں حضرت مولانا کرم الدین دبیرؒ آف بھیں ضلع چکوال، جو تحریک خدام اہل سنت پاکستان کے بانی اور امیر حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب مدظلہ کے والدمحترم تھے، ندوۃ العلماء لکھنؤ کے بانی حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ، ”رحمۃ للعالمین“ کے نامور مصنف حضرت مولانا قاضی سلیمان منصور پوریؒ، حضرت مولانا حبیب اللہ امرتسریؒ، حضرت مولانا غلام دستگیر قصوریؒ، شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ، حضرت مولانا لال حسین اختر اور محترم پروفیسر یوسف سلیم چشتیؒ کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں۔

قادیانیوں کا من پسند مشغلہ ہر دور میں قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی من مانی تشریح و تاویل، بلکہ تحریف کر کے عام مسلمانوں کو دھوکہ دینا تھا۔ اس دور میں چونکہ فرنگی استعمار کے تسلط کی وجہ سے مسلمانوں کے عام حلقوں میں قرآن و سنت کی تعلیم، عربی زبان اور سلف صالحینؒ کے علمی ذخیرہ سے تعلق کا دائرہ بہت محدود تھا اور عام لوگ قرآن کریم اور سنت نبویؐ کے ساتھ محبت و عقیدت کے باوجود معنی و مفہوم کو سمجھنے کے حوالہ سے اسلامی علم کے ساتھ وابستگی اور مناسبت نہیں رکھتے تھے، اس لیے عام مسلمانوں میں دھوکہ دہی اور مکر و فریب کے یہ حربے بسا اوقات کامیاب ہو جایا کرتے تھے۔ جبکہ قادیانی علم کلام کا تانا بانا مکر و فریب اور فکری وعلمی مغالطوں سے اس چابکدستی کے ساتھ بنایا گیا ہے کہ عام مسلمان تو کجا، تھوڑی بہت دینی تعلیم رکھنے والوں کے لیے بھی اس جال سے بچنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اس پس منظر میں مذکورہ بالا علماء کرام اور ان کے علاوہ سینکڑوں ارباب علم و قلم کو میدان میں آنا پڑا اور انہوں نے اس دجال کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی صلاحیتیں صرف کیں۔

قادیانیت کے خلاف تحریر کیا جانے والا بیشتر لٹریچر مارکیٹ میں موجود ہے اور ان میں سے بہت سی کتابیں مختلف اشاعتی اداروں کی طرف سے شائع ہو رہی ہیں، لیکن مذکورہ بالا بزرگوں کے بہت سے رسائل اور تحریریں ایسی بھی ہیں جو نایاب ہو گئی تھیں اور ایک دو دفعہ شائع ہونے کے بعد دوبارہ ان کی اشاعت کی نوبت نہیں آئی تھی، جبکہ ان کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ عالمی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا مرکزی دفتر اور خاص طور پر مولانا اللہ وسایا صاحب ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس علمی ذخیرہ کو تلاش کرنے اور پھر مرتب کر کے شائع کرنے میں خاصی محنت کی۔ انہیں ایک عرصہ اس تلاش میں لگ گیا اور طویل جستجو اور جدوجہد کے بعد ان بزرگوں کے بہت سے نایاب رسائل کو جمع کر کے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ”احتساب قادیانیت“ کے نام سے دس جلدوں میں شائع کر دیا۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی قائم کردہ جماعت ہے، جسے انہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے تعاقب اور عام مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کے تحفظ کے لیے قائم کیا تھا اور ان کے رفیق کار حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے قریہ قریہ گھوم کر اس جماعت کو منظم کرنے میں اپنی زندگی کھپا دی تھی۔ اس جماعت نے تحریک ختم نبوت کے ہر دور میں دینی مکاتب فکر کو متحد کرنے اور مشترکہ مجلس عمل تشکیل دینے میں داعی اور میزبان کا کردار ادا کیا۔ آج نہ صرف پاکستان کے مختلف حصوں میں، بلکہ بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، بیلجیم اور دوسرے کئی ملکوں میں مجلس کے حلقے، دفاتر اور مبلغ مسلسل مصروف کار ہیں اور حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم آف کندیاں شریف کی سربراہی اور امارت میں علماء کرام اور دینی رہنماؤں کی ایک ٹیم منظم انداز میں اس جدوجہد کی قیادت اور نگرانی کر رہی ہے۔

عالمی مجلس کی جدوجہد اور جذبات دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ ہر دور میں ہماری خدمات اور تعاون عالمی مجلس کے لیے حاضر رہا ہے، البتہ ملک کے دیگر دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی قیادت اور ارباب حل و عقد سے بھی ہمیں یہ شکوہ رہتا ہے کہ دین اور دینی اقدار و روایات کے خلاف اس وقت دنیا میں جس طرح کام ہو رہا ہے اور اس میں وسعت اور تنوع کی جو مختلف اور نت نئی صورتیں آئے دن سامنے آ رہی ہیں، ان کو سامنے رکھتے ہوئے دین اور اس کے مختلف شعبوں کے تحفظ کی جدوجہد میں روایتی طرز کو کافی سمجھ لینا اور نئے خطرات و خدشات اور نت نئے دین مخالف طور طریقوں سے یکسر آنکھیں بند کر لینا درست طرز عمل نہیں ہے۔

ہمارا مقصد روایتی جدوجہد کی نفی نہیں، بلکہ اسے مزید مضبوط اور مؤثر بنانا ہے۔ کیونکہ عام لوگوں کے ذہنوں تک رسائی اور رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کے جدید طریقوں کو اپنانے اور آج کے عالمی ماحول کی ضروریات کو سامنے رکھنے سے روایتی دینی جدوجہد کو یقیناً تقویت حاصل ہو گی، بلکہ اس کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے یہ انتہائی ناگزیر ہے۔ بہرحال ہم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو دس ضخیم جلدوں پر مشتمل ”احتساب قادیانیت “ شائع کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور اس کی جہد مسلسل کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter