پاکستان شریعت کونسل کا موقف اور پروگرام

   
۳۱ جولائی ۲۰۰۳ء

۲۳، ۲۴ جولائی ۲۰۰۳ء کو مدرسہ تعلیم القرآن لنگرکسی مری میں پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس مشاورت کا دو روزہ سالانہ اجلاس امیر مرکزیہ حضرت مولانا فداء الرحمٰن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں ملک کے مختلف حصوں سے سرکردہ علماء کرام نے شرکت کی۔ اجلاس میں پاکستان شریعت کونسل کو ہر سطح پر ازسرنو متحرک کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس موقع پر ملک میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کے سلسلہ میں تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے راقم الحروف نے جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد دینی حلقوں نے نفاذ شریعت کے لیے جس رخ سے بھی کوشش کی، ایک خاص مرحلہ پر آ کر ان کا راستہ روک دیا گیا۔ کیونکہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے ایک ایسی ریڈ لائن قائم کر رکھی ہے جو ابھی تک کراس نہیں کی جا سکی اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے کراس ہونے کا کوئی امکان ہے۔

  • قرارداد مقاصد کے تحت ملک میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان دستور ساز اسمبلی نے کیا تھا۔ یہ ملک کے ہر دستور میں شامل رہی ہے اور اعلیٰ عدالتوں نے اسے دستور کا بالاتر حصہ قرار دیا، لیکن سپریم کورٹ کے فل بینچ نے آخری اور فیصلہ کن مرحلہ میں یہ فیصلہ دے کر قرارداد مقاصد کو بے اثر بنا دیا کہ قرارداد مقاصد کو دستور کی دیگر دفعات پر کوئی بالاتر پوزیشن حاصل نہیں ہے، اور یہ بھی دوسری عام دفعات کی طرح ہے جس کے ساتھ دستور کی دوسری دفعات کے تعارض اور تضاد کی صورت میں آخری فیصلہ پارلیمنٹ ہی کرے گی۔
  • سود کا مسئلہ عدالتوں کے ذریعے طویل جدوجہد کے بعد طے ہوا اور سپریم کورٹ نے سودی قوانین کو خلاف آئین قرار دے کر حکومت کو سود ختم کرنے کی ہدایت کر دی، لیکن سپریم کورٹ ہی نے آخر میں اس فیصلے پر نظر ثانی کا حکم دے کر پورے کیس کو دوبارہ زیرو پوائنٹ پر پہنچا دیا۔
  • قرآن و سنت کی دستوری بالا دستی کے لیے ’’شریعت بل‘‘ کے عنوان سے تحریک چلی، سینٹ آف پاکستان اور قومی اسمبلی میں شریعت بل کے نصف درجن کے لگ بھگ مسودات آئے، ان میں سے بعض منظور بھی ہوئے، جبکہ ان کے علاوہ ’’شریعت آرڈیننس‘‘ کا نفاذ بھی ایک سے زائد مرتبہ ہوا، لیکن کوئی عملی نتیجہ سامنے نہ آیا۔ اور ایک موقع پر تو قومی اسمبلی میں شریعت بل کو منظور کرتے ہوئے قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کو اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا گیا کہ اس سے ملک کا سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ متاثر نہیں ہو گا۔
  • اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت دستور کے تحت قائم ہونے والے ادارے ہیں۔ ان دونوں اداروں نے قوانین کی شرعی تعبیر و تشریح اور اسلامی قوانین کی ترتیب و تدوین میں قابل قدر کام کیا ہے، لیکن ان کے فیصلے اور سفارشات معطل پڑی ہیں اور ان کے نفاذ کے لیے بھی کوئی حکومت سنجیدہ نہیں ہوئی۔

جبکہ دوسری طرف ہماری اعلیٰ عدالتیں قوانین کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے مسلسل فیصلے کرتی جا رہی ہیں، جو قانون کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور خاص طور پر نکاح، طلاق اور وراثت کے قوانین اور ہمارا خاندانی نظام ان فیصلوں کی زد میں ہے۔ گھروں سے لڑکیاں بھاگ رہی ہیں اور عدالتیں انہیں تحفظ فراہم کر رہی ہیں۔

ایک کیس میں جوان لڑکی گھر سے بھاگ کر ایک غیر محرم مرد کے ساتھ مہینوں گھومتی پھرتی رہی اور پھر نکاح کر لیا، جسے ہائی کورٹ نے جائز قرار دے دیا۔ میں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جج صاحب نے یہ تو دیکھ لیا کہ بالغ لڑکی ہے اور اسے اپنی مرضی سے نکاح کرنے کا فقہ حنفی کی رو سے حق حاصل ہے، لیکن ان جج صاحب کو یہ بات نظر نہ آئی کہ جوان لڑکی گھر سے بھاگ کر غیر محرم مرد کے ساتھ کئی ماہ گھومتی رہی اور جج صاحب نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ گویا ہماری عدالتوں نے طے کر لیا ہے کہ ہمارے خاندانی نظام کے روایتی ڈھانچے کو قائم نہیں رہنے دینا اور اسے مغربی اقدار سے بہرصورت ہم آہنگ کرنا ہے۔

آپ حضرات نے صوبہ سرحد میں خواتین کے لیے شیلٹر ہوم کی تعمیر کے سلسلہ میں جرمنی کی حکومت کا اعلان اخبارات میں پڑھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جرمنی صوبہ سرحد میں خواتین کے لیے شیلٹر ہوم تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ جس میں صوبہ سرحد کی حکومت رکاوٹ ڈال رہی ہے، اس لیے جرمنی نے صوبہ کو دی جانے والی امداد معطل کر دی ہے۔ بعد میں اس کی گول مول سی وضاحت اور تردید بھی ہوئی، لیکن اصل مسئلہ اسی طرح قائم ہے۔ خواتین کے لیے یہ شیلٹر ہوم یورپ میں جگہ جگہ قائم ہیں، جن میں گھر سے بھاگنے والی خواتین کو پناہ دی جاتی ہے، وظائف دیے جاتے ہیں، تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور قانونی سپورٹ مہیا کی جاتی ہے۔ وہاں سولہ یا اٹھارہ سال کے بعد لڑکی ماں باپ کے اثر سے آزاد ہو جاتی ہے، ماں باپ اور بہن بھائیوں کو اس کی کسی بات پر اعتراض اور اس کے کسی معاملہ میں مداخلت کا حق نہیں رہتا، وہ جو چاہے کرے اسے کوئی نہیں ٹوک سکتا اور اگر وہ خاندان والوں کے رویہ کو پسند نہ کرے تو ان شیلٹر ہومز میں پناہ لے سکتی ہے جہاں اس کی مکمل حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اور اسی وجہ سے یورپ اور امریکا میں خاندانی نظام کی بربادی کا رونا رویا جاتا ہے۔

اب یہی ماحول ہمارے ہاں بھی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس سلسلہ میں ہماری ہائی کورٹس کے ساتھ ساتھ پاکستان لاء کمیشن بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے، جس کی سفارشات مسلسل سامنے آ رہی ہیں اور آرڈیننسوں کے ذریعے قانون کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ہمارے ہائی کورٹس اور پاکستان لاء کمیشن جس طرح قوانین کی تعبیر و تشریح مسلسل کرتے جا رہے ہیں، اگر اس صورتحال کا نوٹس نہ لیا گیا تو چار پانچ سال کے بعد پاکستان کو ترکی بنانے کے لیے کسی رسمی اعلان کی ضرورت باقی نہیں رہے گی اور یہ خودبخود ترکی بن چکا ہو گا۔

ہم سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ آپ لوگوں نے ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کے نام سے الگ جماعت کیوں بنائی؟ ہماری گزارش ہے کہ نفاذ اسلام کا علمی و فکری محاذ مکمل طور پر خالی ہے۔ ہماری دینی جماعتیں خود کو سیاست کے لیے وقف کر چکی ہیں، ان کا ہر کام سیاست اور اسمبلی کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جبکہ علمی و فکری کام کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی گروہ بندی سے بالاتر ہو، کیونکہ اگر آپ اپوزیشن سے وابستہ ہیں تو آپ کی کوئی اچھی سے اچھی بات بھی حکومتی حلقوں میں نہیں سنی جائے گی، اور اگر آپ حکومتی کیمپ میں شمار ہوتے ہیں تو آپ کی بات میں کتنا ہی وزن کیوں نہ ہو، اپوزیشن کا کوئی شخص آپ کی بات پر کان نہیں دھرے گا۔ اس لیے علمی و فکری جدوجہد کا یہ ناگزیر تقاضہ ہے کہ وہ اقتدار کی سیاست سے الگ ہو کر کی جائے اور الیکشن کی کشمکش سے بالاتر ہو کر کی جائے۔ اسی وجہ سے ہم نے پاکستان شریعت کونسل کی تشکیل کے موقع پر تین باتیں اصولی طور پر طے کر لی تھیں:

  1. ہماری جدوجہد علمی و فکری ہو گی اور نفاذ اسلام کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے اور اسلام دشمن عناصر کی سرگرمیوں کی نشاندہی اور تعاقب کے دائروں میں محدود رہے گی۔
  2. ہم انتخابی سیاست اور اقتدار کی کشمکش سے مکمل طور پر الگ تھلگ رہیں گے، البتہ پاکستان شریعت کونسل کا کوئی بھی رکن کسی بھی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخابی سیاست میں حصہ لے سکے گا، مگر اس مقصد کے لیے وہ پاکستان شریعت کونسل کا نام استعمال نہیں کر سکے گا۔
  3. نفاذ اسلام کی جدوجہد اور اسلام دشمن سرگرمیوں کے تعاقب کے حوالے سے ملک کی کسی بھی دینی جماعت کی جدوجہد کے ساتھ پاکستان شریعت کونسل مکمل تعاون کرے گی، البتہ کسی باہمی کشمکش اور کھینچا تانی میں فریق نہیں بنے گی۔

ہمیں انتخابی سیاست میں شریک جماعتوں سے کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہم ان کے حریف ہیں۔ ہمارا میدان الگ ہے اور وہ علمی اور فکری جدوجہد کا میدان ہے۔ ہم نے تو چند سال قبل ملک میں پاکستان شریعت کونسل کی رکن سازی اور ہر سطح پر تنظیم کے قیام کی مہم کو خاصا آگے بڑھانے کے بعد صرف اسی لیے خود روک لیا تھا کہ ہمارے بعض دوست ہمیں اپنا حریف تصور کرنے لگے تھے، اور یہ تاثر عام ہونے لگا تھا کہ شاید ہم اس بہانے ملک میں کوئی نئی سیاسی جماعت کھڑی کرنے لگے ہیں۔ ہماری گزارش صرف یہ ہے کہ جو حضرات انتخابی سیاست میں شریک ہیں شوق سے اپنا کام کریں، ہم ان کے معاون ہیں، ان کے لیے دعاگو ہیں اور ان کی کامیابی کے متمنی ہیں، لیکن وہ بھی ہمیں اپنا معاون سمجھیں اور علمی و فکری محاذ پر ہمارے ساتھ تعاون کریں۔

میں آپ حضرات پر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ظاہری سیاست کا منظر اور ہے، اور ملک میں اسلامی اقدار کو مٹانے کے لیے درپردہ خاموشی کے ساتھ جو کام جاری ہے اس کا منظر بالکل مختلف ہے۔ بین الاقوامی لابیاں، این جی اوز، ان کے علمی و فکری حلقے اور ہماری فوج، انتظامیہ اور عدلیہ میں اعلیٰ مناصب پر براجمان ان کے نمائندے خاموشی کے ساتھ اپنا کام کر رہے ہیں۔ ملک کا قانونی، معاشرتی اور تہذیبی ڈھانچہ دھیرے دھیرے بدل رہا ہے۔ اس کا راستہ علمی اور فکری جدوجہد کے ساتھ ہی روکا جا سکتا ہے اور ہم نے اپنے لیے کام کا یہی میدان منتخب کیا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter