گزشتہ روز حضرت مولانا سعید احمد رائے پوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات حسرت آیات پر تعزیت کے لیے ان کے قائم کردہ ادارہ رحیمیہ لاہور میں حاضری اور ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کا موقع ملا۔ جمعیۃ اہل سنت ضلع گوجرانوالہ کے صدر حاجی عثمان عمر ہاشمی اور مولانا محمد اشرف فاروقی میرے ہمراہ تھے۔ مولانا مفتی عبد الخالق آزاد، مولانا مفتی عبد الغنی اور دیگر حضرات و احباب سے ملاقات ہوئی۔ حضرت مولانا سعید احمد رائے پوریؒ کی وفات پر ان سے تعزیت کی، کچھ دیر مولانا رائے پوری کی شخصیت اور دینی خدمات کے حوالہ سے گفتگو ہوتی رہی اور نمازِ ظہر وہیں ادا کرنے کے بعد ہم نے وہاں سے واپسی کی۔
مولانا سعید احمد رائے پوریؒ کے ساتھ میرا رابطہ سب سے پہلے ۱۹۶۷ء میں ہوا جب دینی مدارس اور کالجوں کے طلبہ پر مشتمل ایک مشترکہ طالب علم تنظیم ’’جمعیت طلباء اسلام پاکستان‘‘ کے نام سے وجود میں آئی۔ سرگودھا اور لاہور کے ساتھ ساتھ گوجرانوالہ بھی اس تنظیم کی سرگرمیوں کے ابتدائی مراکز میں سے تھا۔ گوجرانوالہ میں ہمارے ایک استاذ محترم مولانا عزیز الرحمنؒ ، میاں محمد عارف اور راقم الحروف اس کے لیے متحرک تھے جبکہ مولانا سعید احمد رائے پوریؒ جمعیۃ طلباء اسلام کی تنظیم و توسیع کے لیے مسلسل سرگرم عمل تھے۔ حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ اور حضرت سید نفیس شاہ صاحبؒ کے ساتھ وہ بھی جے ٹی آئی کے سرپرست کے طور پر متعارف تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جے ٹی آئی کو شہر شہر اور قصبہ قصبہ منظم کرنے اور طلبہ کی ذہن سازی میں ان کا کردار سب سے زیادہ نمایاں رہا۔ ہمارا یہ رابطہ اور اشتراک کار جمعیۃ طلباء اسلام کے بعد جمعیۃ علماء اسلام میں بھی سالہا سال تک جاری رہا اور ہم نے متعدد دینی تحریکات میں اکٹھے کام کرنے کی سعادت حاصل کی۔
اس طرح کم و بیش ایک عشرہ تک فکری، سیاسی اور تحریکی رفاقت کے بعد جب جمعیۃ طلباء اسلام دو حصوں میں بٹ گئی تو ہم دو الگ الگ کیمپوں میں شمار ہونے لگے، لیکن باہمی ملاقاتوں اور تبادلۂ خیالات کا سلسلہ چلتا رہا۔ بعض مسائل پر اختلاف رائے کے باوجود ہماری دوستی اور باہمی احترام و مودّت میں کوئی فرق نہ آیا۔ حتیٰ کہ گزشتہ سال کے دوران وہ گوجرانوالہ میں اپنے عقیدت مندوں کے پاس ایک دو روز کے لیے تشریف لائے تو میں نے ان سے ملاقات کی اور تھوڑی دیر کے لیے الشریعہ اکادمی تشریف لانے کی درخواست کی۔ جمعیۃ اہل سنت ضلع گوجرانوالہ کے ضلعی صدر حاجی عثمان عمر ہاشمی بھی اس ملاقات میں میرے ساتھ تھے، حضرت مولانا رائے پوریؒ ، مولانا مفتی عبد الخالق آزاد اور دیگر احباب کے ہمراہ اکادمی میں تشریف لائے، ایک مختصر سی نشست ہوئی جس میں مولانا مفتی عبد الخالق آزاد نے گفتگو کی اور پھر دعا پر مجلس اختتام پذیر ہو گئی۔ مولانا رائے پوریؒ کے ساتھ یہ ملاقات آخری ثابت ہوئی اور پھر ان کی زندگی میں ان سے ملاقات کا کوئی موقع نہ بن سکا۔
جماعتی ، تنظیمی اور تحریکی تعارف سے ہٹ کر ان کا اصل تعارف رائے پوری کی خانقاہ رحیمیہ کے حوالہ سے تھا کہ وہ خانقاہ رائے پور شریف کے مسند نشین حضرت مولانا عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند اور رفیق کار تھے۔ رائے پوری کی خانقاہ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں روحانی اور فکری اثر و رسوخ رکھنے والی خانقاہوں میں ایک نمایاں مرکز کی حیثیت رکھتی ہے اور تحریک آزادی میں اس کا مستقل کردار ہے۔ حضرت شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ ، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے شاگرد اور ان کے رفقائے کار میں سے تھے، حضرت شیخ الہندؒ نے تحریک آزادی کے لیے جو تانا بانا بنا تھا، حضرت شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ اس نظم کے اہم رکن تھے اور مالٹا کی اسارت سے رہائی کے بعد حضرت شیخ الہندؒ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ضعف و علالت کے باوجود تحریک آزادی کو نیا رنگ دینے کی جو طرح ڈالی تھی، رائے پور کی خانقاہ کا اس میں بھی حصہ ہے، حضرت شیخ الہندؒ نے تشدد اور عسکریت کی پالیسی کو خیرباد کہہ کر عدم تشدد کو اپنی نئی جدوجہد کی اساس بنایا اور سیاسی و فکری تربیت سازی کو برصغیر میں علماء حق کی جدوجہد کے نئے دور کا سب سے بڑا ہتھیار قرار دیا۔ حضرت شیخ الہندؒ نے قرآنی تعلیمات کے عام سطح پر فروغ، مختلف طبقات اور علمی حلقوں کے درمیان اختلاف کو کم کرنے اور دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے فضلاء و طلبہ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کو اپنی جدوجہد کے اہم اہداف بتایا اور پھر اس رُخ پر جب کام شروع ہوا تو مفکر انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے دہلی میں نظارت قرآنیہ کے عنوان سے فکری تربیتی مرکز کی بنیاد رکھی جو حالات زمانہ کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی متعدد فکری مراکز کی شکل اختیار کر گئی۔ اس پروگرام کے مطابق علماء اور کالجوں کے فضلاء کی ذہن سازی میں جہاں بہت سے دیگر اکابر علماء کرام کی محنت تاریخ کا حصہ ہے، وہاں رائے پور کی خانقاہ رحیمیہ کے مسند نشین حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کی شخصیت بھی ایک نمایاں حصہ رکھتی ہے۔
یہ اللہ والے بظاہر متحرک نظر نہیں آتے اور سٹیج پر خطابت کے جوہر نہیں دکھاتے، لیکن ان کی خاموشی، مجالس، قلب و ذہن کی کیفیات کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اکسیر کا کام دیتی ہیں، ماضی قریب میں حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمہ اللہ تعالیٰ آف کندیاں شریف کے بارے میں بعض لوگ کہتے تھے کہ وہ بولتے نہیں ہیں اور کسی عمومی مجلس میں خطاب نہیں کرتے لیکن تحریک ختم نبوت کے سب سے بڑے قائد شمار ہوتے ہیں۔ میں ان سے عرض کیا کرتا تھا کہ حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کی خاموشی بڑے بڑے خطباء کی خطابت پر بھاری ہے اور ان کی خاموش مجالس بڑی بڑی کانفرنسوں سے زیادہ اثر رکھتی ہیں۔ حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کی زیارت کا شرف مجھے حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی ان کی کسی مجلس سے فیضیاب ہو سکا ہوں لیکن مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ ان کی مجالس کا رنگ کیسا ہوتا ہوگا اور ان کی توجہات اور چھوٹے چھوٹے جملے کس طرح ذہن و قلب کی دنیا کو بدل دیتے ہوں گے۔
حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کے ملفوظات اور مجالس کا تذکرہ پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زمانے کی نبض پر ان کا ہاتھ تھا اور وہ اخلاقی اور روحانی بیماریوں کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عقیدت مندوں کی سیاسی اور فکری صحت کا بھی لحاظ رکھتے تھے، وہ اپنے دور کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر مسلسل نظر رکھتے تھے اور امت کی خاموش مگر مؤثر راہنمائی سے کسی وقت بھی غافل نہیں رہے۔ حضرت شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ اور حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کا تذکرہ میں نے کتابوں میں پڑھا ہے اور کچھ انہیں دیکھنے والوں سے سنا ہے لیکن حضرت مولانا عبد العزیز رائے پوریؒ کی زیارت و مجلس سے کئی بار فیضیاب ہوا ہوں اور ان کے روحانی فیض سے حظ اٹھایا ہے، ان کی خدمت میں جب حاضری ہوتی تو ان کے فرزند و جانشین مولانا سعید احمد رائے پوریؒ سے بھی ملاقات ہوتی تھی، مختلف مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا تھا اور اختلاف رائے کے باوجود تبادلۂ خیالات کا یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔
مجھ سے متعدد دوستوں نے ان کی زندگی میں ہمارے باہمی اختلاف رائے کے بارے میں پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ اس اختلاف کا عقیدت و مسلک سے تعلق نہیں تھا بلکہ بعض سیاسی، معاشی اور تحریکی مسائل کی تعبیرات و تشریحات میں ہمارا زاویۂ نگاہ مختلف تھا جو اب بھی مختلف ہے لیکن یہ نظری اور فکری اختلاف ہے، مسلکی اختلافات اور نظری و فکری اختلافات کے الگ الگ دائروں کا فرق اب زیادہ تر ملحوظ نہیں رہا اور جس طرح ہم نے فقہی معاملات میں حق، باطل، خطا و صواب اور اولٰی و غیر اولٰی کے دائروں کو گڈمڈ کر رکھا ہے اسی طرح فکری اور اعتقادی دائروں کا فرق بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا جا رہا ہے۔
بہرحال حضرت مولانا سعید احمد رائے پوریؒ ہجری لحاظ سے کم و بیش نوے برس اس جہان رنگ و بو میں گزار کر خالق حقیقی کے حضور پیش ہو چکے ہیں اور ان کے رفقاء کار خصوصاً ان کے جانشین مولانا مفتی عبد الخالق آزاد ان کے قائم کردہ روحانی و فکری مرکز جامعہ رحیمیہ میں ان کی جدوجہد اور مشن کی مرکزیت کو قائم رکھنے کی سعی میں مصروف ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت حضرت مولانا سعید احمد رائے پوریؒ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ان کے پسماندگان، رفقاء اور متوسلین کو حوصلہ و استقامت کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔