خلفائے راشدین اور ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم کی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنات مکرمات بھی پوری امت کی عقیدت و ادب کا مرکز ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں بیٹیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن کے ساتھ عقیدت و ادب ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے، ان میں سے چونکہ خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ چھوٹی اور لاڈلی بیٹی ہونے کی وجہ سے فطری اور طبعی طور پر محبت و انس زیادہ تھا، اس لیے ظاہر بات ہے کہ یہ نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کی طرف بھی منتقل ہوئی، ایک خاندان کے لوگوں میں مختلف مسائل و امور پر رائے اور طرزِ عمل کا اختلاف فطری بات ہے، جس سے کوئی خاندان مستثنیٰ نہیں ہو سکتا، لیکن خاندان نبوت کا یہ اعزاز و افتخار ہے کہ باہمی اختلاف رائے اور مزاجوں کے تنوع کا مختلف مواقع پر اظہار ہونے کے باوجود ان کی باہمی الفت و احترام میں کبھی فرق نہیں آیا اور وہ تاریخ میں بھی ’’رحماء بینہم‘‘ کا اعلیٰ ترین نمونہ دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے ان بزرگوں کے کسی اختلاف کو اس طرح بیان کرنا جو ان کے درمیان کسی نفرت یا ان میں سے کسی کے ساتھ سوءادب کا تاثر دیتا ہو کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا بلکہ اس سے ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا وہ واقعہ جس میں موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی پکڑ کر انہیں جھنجھوڑا تھا اور حضرت ہارون علیہ السلام نے ان سے اس پر گفتگو کی تھی مذکور ہے، اب کوئی شخص اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ان دونوں بزرگوں کو ایک دوسرے سے خدانخواستہ بیزار ظاہر کرے یا ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی خود سوء ادب کا مظاہرہ کرے تو اپنا ایمان خطرے میں ڈالنے کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پائے گا۔
ان دنوں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالہ ملک کے ایک معروف خطیب کے چند جملوں پر مناظرہ و مشاتمہ کا جو ماحول پیدا ہو گیا ہے، وہ پریشان کن اور افسوسناک ہے، اگرچہ مسئلہ بریلوی مکتب فکر کے علماء کرام کے درمیان ہے مگر صحابہ کرام و اہل بیت عظام، ازواج مطہرات اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کی عزت و ناموس اور حرمت و ادب کا مسئلہ دیوبندی بریلوی مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے ہر مسلمان کا مسئلہ ہے، اس لیے بات جس طرح بڑھتی نظر آرہی ہے اس کے پیش نظر کچھ گزارش کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔
بنیادی بات اس مسئلہ پر چل رہی ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد خلیفہء وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے وراثت کا حصہ مانگا تو حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف باغات اور دیگر اموال جو غنیمت اور فئی کے حصہ کے طور پر تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف میں تھے وہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کے مطابق ان کی ملکیت نہیں تھے بلکہ ان کے اور ان کے خاندان کے اخراجات کے لیے مخصوص تھے، جبکہ ملکیت بیت المال کی تھی ، اس لیے ان میں سے کسی چیز کو ملک کے طور پر وراثت میں منتقل نہیں کیا جا سکتا، البتہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور خاندان کے دیگر افراد کو ان کے اخراجات اس میں سے حسبِ سابق ملتے رہیں گے جو بدستور ملتے رہے۔
بعض روایات میں اس کا ذکر اس طور پر بھی ہے کہ اس پر سیدہ فاطمہؓ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور پھر ناراضگی کے تسلسل اور ان کی وفات اور جنازے کے بارے میں مختلف باتیں بیان کر کے عجیب سا ماحول بنا دیا جاتا ہے۔ اس مسئلہ کا ایک فقہی پہلو ہے کہ کیا حضرت ابوبکرؓ کا یہ موقف تسلیم کر لیا گیا تھا یا نہیں؟ تاریخ کا تسلسل گواہ ہے کہ نہ صرف عام صحابہ کرام ؓ بلکہ خاندان نبوت نے بھی اس اصولی موقف کو تسلیم کر لیا تھا، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے دورِ خلافت میں اس پر نظر ثانی نہیں کی اور اسے اسی طرح برقرار رکھا۔
پھر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تصرف ان اموال کی شرعی حیثیت کا مسئلہ صرف حضرت ابوبکرؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے درمیان زیر بحث نہیں آیا بلکہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہوا تھا، جیسا کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ازواج مطہرات نے بھی مشورہ کر کے اس بات کیلئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نمائندہ کے طور پر حضرت صدیق اکبرؓ کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کیا کہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تصرف اموال میں سے بیویوں کے طور پر وراثت میں حصہ دیا جائے، جس پر حضرت عائشہؓ نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہہ کر انہیں اس سے منع فرمایا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی وراثت تقسیم نہیں ہوا کرتی، وہ جو ترکہ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔
چنانچہ ازواج مطہراتؓ سب نے اس موقف کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ خلیفۃ المسلمین کی خدمت میں اس مقصد کیلئے نمائندہ بھیجنے کا ارادہ ترک کر دیا بلکہ زندگی بھر ان میں سے کسی نے بھی اس تقاضے کا اظہار نہیں کیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ ، خاندان نبوت اور خلفاء راشدین ؓ میں اس بات پر اتفاق و اجماع ہو گیا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کا موقف صائب ہے۔
دوسرا پہلو تاریخی ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کی مبینہ ناراضگی اور جنازے کے حوالہ سے بعض روایات کو بنیاد بنا کر طعن و اعتراض اور طنز و تشنیع کا بازار گرم کر دیا جائے یہ کسی طرح بھی ایمانی تقاضوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا، سیدہ فاطمہؓ نہ تو اس کے بعد چند ماہ سے زیادہ حیات رہی تھیں اور نہ ہی وہ اس قدر معاشرتی میل جول کا مزاج رکھتی تھیں کہ صرف چند ماہ کے دوران حضرت صدیق اکبرؓ کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کی تعداد شمار کرنا شروع کر دی جائے، جنازے کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں اور بعض روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کا جنازہ حضرت ابوبکرؓ نے پڑھایا تھا، مگر میری طالب علمانہ رائے میں اس مسئلہ کو تاریخی روایات کی چھان پھٹک کی نذر کرنے اور اپنے ایمان و عقیدت کو مجروح کرنے کی بجائے صحابہ کرامؓ، اہل بیت عظامؓ ، ازواج مطہرات ؓ اور خلفاء راشدینؓ کے بارے میں ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کی تصریحات اور جمہور امت مسلمہ کے متفقہ موقف کے دائرے میں ہی رکھنا چاہئے، وہی صواب اور ثواب دونوں کا راستہ ہے۔
صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ کے داخلی ماحول میں بہت سے فقہی مسائل پر باہمی اختلاف رہا ہے جو فطری بات ہے مگر کسی مسئلہ پر اختلاف رائے کے بہانے ان میں سے کسی بزرگ کی بے ادبی اور اہانت کا کوئی پہلو قابل قبول نہیں رہا، آج بھی کسی قانونی اور دستوری مسئلہ پر اعلیٰ عدالتوں میں بحث ہوتی ہے تو جج صاحبان اور وکلاء اپنا اپنا موقف بیان کرتے ہیں، بحث ہوتی ہے اور آخری نتیجہ کسی ایک موقف کو قبول کر لینے کی صورت میں سامنے آ جاتا ہے، فقہی مسائل میں بھی چودہ سو سال سے یہی ہوتا آرہا ہے، چنانچہ حتمی فیصلہ کو قبول کر کے باقی آراء کو تاریخ کی نذر کر دیا جاتا ہے ، بعض تاریخی روایات کے مطابق ایک مقدمہ میں قاضی شریح ؒنے حضرت علیؓ کے حق میں حضرت حسنؓ کی شہادت کو قانونی بنیاد پر قبول نہیں کیا تھا، جسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مناقب میں بیان کیا جاتا ہے کہ قاضی شریح ؒکو اس پر کسی طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کی بجائے ان کے فیصلے کو اسلامی قانون کے سب پر یکساں نفاذ کی علامت بتایا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب متعلقین کے احترام کی توفیق دیں ، آمین یا رب العالمین۔