(رمضان المبارک کے سالانہ ’’ فہمِ قرآن و سنت کورس‘‘ کی ایک نشست)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا حافظ گلزار احمد آزاد ہمارے پرانے باذوق اور متحرک ساتھی ہیں، ان کے ساتھ الحمد للہ نصف صدی کا تعلق ہے، ہر سال رمضان المبارک میں ایسی محافل کا اہتمام کرتے ہیں جن میں پیش آمدہ مسائل کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں اکابر علماء کی تعلیمات کے حوالے سے گفتگو ہوتی ہے۔ انہوں نے آج مجھے گفتگو کرنے کے لیے ’’برداشت‘‘ کا موضوع دیا ہے جو اُن کے اسی ذوق کا ایک پہلو ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی دیا ہے اور غصہ نکالنے کی جرأت بھی دی ہے، یہ دونوں انسانی مزاج کا حصہ ہیں۔ میں اس نشست میں اعتقادی اور دینی حوالوں سے برداشت کے چند ایک پہلوؤں پر بات کروں گا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوی زندگی میں دو اَدوار سامنے آئے ، ایک مکی زندگی کا تیرہ سالہ دور اور دوسرا مدنی زندگی کا دس سالہ دور۔ مکی زندگی میں نبوت سے پہلے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن بعثت کے بعد مشکلات کا دور شروع ہوا اور ان تیرہ سالوں میں مشرکینِ مکہ نے زبانی اذیتیں بھی دیں، جسمانی اذیتیں بھی دیں، معاشرتی دباؤ کے حربے بھی استعمال کیے، برا بھلا بھی کہا، راستے میں کانٹے بھی بچھائے، ناکہ بندی بھی کی، غرض یہ کہ جو حربہ بھی کسی شخصیت یا گروہ کو تنگ کرنے کے لیے ممکن ہو سکتا تھا، وہ انہوں نے اختیار کیا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال انسان تھے، جب بات حد سے بڑھ جاتی تھی تو بسا اوقات پریشان بھی ہو جاتے تھے جو فطری بات ہے۔ اللہ رب العزت نے نبی کریمؐ سے فرمایا ’’واصبر علیٰ ما یقولون واھجرھم ھجراً جمیلا‘‘ (المزمل ۱۰) ان کی باتوں پر صبر کریں اور ان کو باوقار طریقے سے نظرانداز کریں۔ یہ مکی زندگی کی ابتدائی ہدایات تھیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اور آپ کے ساتھیوں کو بھی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ’’کفوا ایدیکم واقیموا الصلوٰۃ‘‘ (النساء ۷۷) مقابلہ نہ کریں بس اپنی نماز قائم کریں۔
حضرت خباب بن ارتؓ عنہ ایک شخص کے غلام تھے، یہ مسلمان ہو گئے تھے اور مالک کافر تھا جو بہت ظلم کرتا تھا۔ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے سائے میں بیٹھے تھے کہ حضرت خبابؓ آ گئے۔ یارسول اللہ! مالک بہت ظلم کرتا ہے، کیا کروں؟ فرمایا، صبر کرو۔ یا رسول اللہ! کہاں تک صبر کروں؟ کمر سے کپڑا اٹھایا۔ یا رسول اللہ! میرا مالک مجھے جلتے ہوئے کوئلوں پر لٹا دیتا ہے اور خود اوپر بیٹھ جاتا ہے یا پتھر رکھ دیتا ہے، میرے جسم کی چربی پگھل کر کوئلے بجھاتی ہے۔ ان کا مالک عاص بن وائل قریشی سرداروں میں سے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے لیکن فرمایا، خباب! صبر کرو۔ یہ آزمائش کا دور ہے، گزر جائے گا۔ یہ مکی دور کی کیفیت تھی جو مغلوبیت اور مظلومیت کا دور تھا ، جہاں کفر مضبوط اور دشمن طاقتورتھا۔
مدینہ منورہ ہجرت ہوئی تو یہاں اللہ تعالیٰ نے دو راستے دیے: (۱) ’’ولمن انتصر بعد ظلمہ فاولئک ما علیہم من سبیل‘‘ (الشوریٰ ۴۱) یہاں یہ اختیار ملا کہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے والے پر کوئی الزام نہیں ہے بلکہ مومنین کی اللہ تعالیٰ نے یہ صفت بیان کی ہے کہ ’’والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون‘‘ (الشوریٰ ۳۹) وہ ظلم کا بدلہ لیتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ حکم یہ تھا کہ ’’وجزاء سیئۃ سیئۃ بمثلھا‘‘ (الشوریٰ ۴۰) بدلہ برابر کا ہو، زیادتی نہ ہو۔ (۲) دوسرا راستہ یہ بتایا کہ ’’ولمن صبر و غفر ان ذٰلک من عزم الامور‘‘ (الشوریٰ ۴۳) جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا تو یہ عزیمت کا کام ہے۔ یہ مدینہ کے دور میں اللہ پاک نے اختیار دیا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے حوالے سے بھی اس کا ذکر فرمایا ہے۔ مشرکین تو سیدھے سیدھے دشمن تھے لیکن یہودی سازشیں کرتے تھے اور ان کا مزاج یہ تھا کہ گول مول طریقے سے وار کر کے نکل جاتے تھے۔ قرآن کریم نے اس کو یوں تعبیر کیا ہے ’’لیا بالسنتھم وطعنا فی الدین‘‘ (النساء ۴۶) اعتراض کرتے ہیں زبان کو مروڑ کر۔ اللہ تعالیٰ نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور حضرات صحابہ کرامؓ کو ایک بات فرمائی کہ ’’لتبلون فی اموالکم وانفسکم ولتسمعن من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم ومن الذین اشرکوا اذًی کثیرا وان تصبروا وتتقوا فان ذٰلک من عزم الامور‘‘ (ال عمران ۱۸۶) تم اپنے مالوں میں بھی آزمائے جاؤ گے اور جانوں میں بھی، ان اہلِ کتاب اور ان مشرکین سے بڑی اذیت کی باتیں سننی پڑیں گی، اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ یہ مدنی دور میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور صحابہ کرامؓ کو قرآن کریم کی ہدایات ہیں۔ ایک جگہ فرمایا ’’لایحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم‘‘ (النساء ۱۴۸) کسی کے ساتھ سختی سے بات کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے لیکن جس پر ظلم ہوا ہے اگر وہ جواب میں کوئی ایسی بات کرتا ہے تو وہ مستثنیٰ ہے۔ اور ساتھ یہ فرمایا ’’وکان اللہ سمیعا علیما‘‘ (النساء ۱۴۸) اللہ تو سب سنتا اور جانتا ہے۔
یہودیوں کا تو انداز ہی اور تھا ’’واذا جاءوک حیوک بما لم یحیک بہ اللہ ویقولون فی انفسھم لولا یعذبنا اللہ بما نقول‘‘ (المجادلۃ ۸) یہ جب آتے ہیں تو آپ کو وہ سلام نہیں کرتے جو اللہ نے بتایا ہے۔ ایسا سلام کرتے ہیں جس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک مجلس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تشریف فرما تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ابھی پردے کے احکام نہیں آئے تھے، ہماری مائیں بھی مجلس میں بیٹھی ہوتی تھیں۔ ایک یہودی آیا اور تیزی سے کہا ’’السام علیک یا ابا القاسم‘‘۔
یہاں ضمناً ایک بات عرض کر دوں کہ عام طور پر ہم بھی تیزی سے سلام کرتے ہیں تو یہی کہتے ہیں ’’سام علیکم جی‘‘ ۔ جواب دینے والا بھی ’’سام علیکم‘‘ ہی کہتا ہے۔ ’’السلام‘‘ کا معنی ہے تم پر سلامتی ہو اور ’’سام‘‘ کا معنی ہے تمہیں موت پڑے۔ اس یہودی نے یہی کہا تھا۔
حضرت عائشہؓ بڑی ذہین خاتون تھیں، سمجھ گئیں کہ اس نے کیا کہا ہے، غصے سے بولیں ’’علیک السام واللعنۃ‘‘ تجھے موت پڑے اور تجھ پر لعنت ہو۔ آخر اماں جی تھیں۔ وہ تو چلا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! اتنا غصہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یا رسول اللہ! اس نے سلام تو نہیں کہا، سام کہا ہے۔ فرمایا، عائشہ! میں نے جواب دے دیا تھا ۔ اس نے کہا ’’سام علیک‘‘، میں نے کہا ’’علیک‘‘۔ اس نے کہا تم پر موت پڑے، میں نے کہا تم پر پڑے، مجھ پر کیوں پڑے۔ یہاں پر ایک تکنیکی بات ہے کہ ’’وعلیک‘‘ کہیں گے تو معنی ہے کہ ٹھیک ہے مجھ پر بھی پڑے اور تجھ پر بھی پڑے۔ واؤ کے بغیر ’’علیک‘‘ کہیں تو معنی ہے مجھ پر کیوں پڑے، تجھ پر پڑے۔
برداشت اور صبر کے حوالے سے آج کے دور میں ہمیں ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے، میں اس پر کچھ بات کرنا چاہوں گا۔ آج مسلمانوں کے بارے میں مغربی دنیا کا الزام ہے کہ یہ برداشت نہیں کرتے۔ یعنی قرآن پاک اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں کوئی توہین ہو تو غصے میں آجاتے ہیں۔ جبکہ یہ تو ہماری علامت ہے کہ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، ایک مسلمان سب کچھ برداشت کر لے گا لیکن دو باتیں برداشت نہیں کرے گا۔ قرآن کریم کی بے حرمتی برداشت نہیں کرے گا، اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی برداشت نہیں کرے گا اور غصے میں آجائے گا۔ اور یہ غصے میں آجانا تو محبت، عقیدت اور تعلق کی علامت ہے، جہاں تعلق نہ ہو تو وہاں غصہ نہیں آیا کرتا۔
عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اپنے دین کے ساتھ کمٹمنٹ بھی مغربی دنیا کے لیے ایک مستقل مسئلہ بنا ہوا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کسی مسلمان سے یہ بات کہی جائے کہ قرآن نے یہ بات کہی ہے اور صحیح نہیں کہی، کیا وہ یہ جملہ سن لے گا؟ اسی طرح دنیا کا کوئی مسلمان کیا یہ جملہ سن لے گا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہے لیکن نعوذ باللہ صحیح نہیں کہی؟ چاہے اسے مسئلے کا کچھ پتہ نہ ہو لیکن قرآن کریم اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی توہین برداشت نہیں کرے گا اور یہ جملہ قبول نہیں کرے گا کہ قرآن کریم، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات غلط کہی ہے۔ یہ ہمارے ایمان کی علامت ہے۔
اس کی میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ ہمارا پاور ہاؤس بھی سلامت ہے اور کنکشن بھی۔ ہماری کمزوریاں کنکشن میں نہیں ہیں، میٹر میں ہیں ۔ ایک مغربی اسکالر نے لکھا تھا کہ ہمیں تو غصہ نہیں آتا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرو، ہم تو انجوائے کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ تمہارا کنکشن ہی نہیں ہے تمہیں غصہ کیوں آئے گا؟
ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ مسلمان اختلاف برداشت نہیں کرتے۔ اور اختلاف تو حق ہے کہ جہاں عقل ہو گی وہاں اختلاف ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے عقل استعمال کرنے کا حکم دیا ہے کہ یہ نعمتِ خداوندی ہے اور انسان کا امتیاز ہے کہ اللہ نے اسے عقل دی ہے۔ یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل استعمال کرنے کے لیے دی ہے، عقل کے ہاتھوں خود استعمال ہونے کے لیے نہیں دی۔ عقل سواری ہے، سوار نہیں ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ گاڑی جتنی اچھی ہو گی اتنی بڑی نعمت ہے لیکن گاڑی ایک سواری ہے، سوار نہیں ہے۔ اگر گاڑی کے اسٹیئرنگ پر ہاتھ نہیں ہے اور بریک پر پاؤں نہیں ہے تو جتنی اچھی گاڑی ہو گی اتنی ہی بڑی تباہی کرے گی۔
خیر، اعتراض یہ ہے کہ مسلمان اختلاف برداشت نہیں کرتے اور غصے میں آجاتے ہیں۔ میں عرض کروں گا کہ یہ بات غلط ہے۔ اختلاف ہم نے ہمیشہ برداشت کیا ہے لیکن توہین کبھی برداشت نہیں کی۔ اختلاف اور چیز ہے، توہین اور چیز ہے۔ مستشرقین (Orientalists) تین سو سال سے مغرب کی یونیورسٹیوں میں بیٹھ کر قرآن کریم پر، حدیث پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر اعتراضات کر رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مستشرقین یہودی ہوں، عیسائی ہوں یا کوئی اور ، جس نے بھی کوئی اعتراض کیا ہے تو ہمارے علماء نے اس کا جواب دیا ہے۔
میں یہاں برصغیر کی ایک مثال دوں گا کہ آج سے کوئی ڈیڑھ سو سال پہلے ایک بڑے ہندو دانشور تھے پنڈت دیانند سرسوتی، انہوں نے ایک کتاب لکھی ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ کے عنوان سے، جس طرح ہمارے ہاں ’’تقابلِ ادیان‘‘ کا بیان ہوتا ہے، اس طرز پر انہوں نے ہندوؤں کا تقابل کیا ہے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں سے۔ اس کا چودھواں باب جو کہ آخری باب ہے، اس میں قرآن کریم پر ایک سو سترہ اعتراضات کیے ہیں۔ میں ان سے دو بطور مثال کے ذکر کر دیتا ہوں۔
مثلاً ایک یہ ہے کہ یہ مسلمان ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم پتھر کی پوجا کرتے ہیں، جبکہ یہ خود بھی تو پتھر یعنی خانہ کعبہ کی پوجا کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ مسلمانوں کو بارہ سو سال ہو گئے ہیں، روزانہ صبح اٹھ کر وضو کرتے ہیں اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں ’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ (الفاتحۃ ۵) یا اللہ ہمیں ہدایت دے دے۔ کیا ابھی تک انہیں ہدایت نہیں ملی جو اَب بھی مانگ ہی رہے ہیں۔ اور جب یہ خود مانگ رہے ہیں تو ان سے کیا ہدایت لیتے ہو، ہمارے پاس آؤ ، ہدایت ہمارے پاس ہے۔
اس قسم کے ایک سو سترہ اعتراضات ہیں۔ اللہ کی قدرت کہ ہمارے تینوں مکاتبِ فکر کے تین بڑے بزرگوں نے اس کا جواب دیاہے:
- حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے تو پنڈت جی کے ساتھ مناظرہ کیا، اور قبلہ والے اعتراض پر ’’قبلہ نما‘‘ کے عنوان سے مولانا نانوتویؒ نے کتاب لکھی ہے۔
- حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ بڑے اہل حدیث عالم تھے، انہوں نے اس کے جواب میں ’’حق پرکاش‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔
- بریلوی علماء میں ایک بڑے بزرگ تھے مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ، انہوں نے بھی جواب میں کتاب لکھی ہے۔ اللہ نے ان بزرگوں سے یہ کام لیا ہے۔
میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پنڈت دیانند سرسوتی نے چونکہ دلیل کے انداز میں اعتراضات کیے ہیں تو ان کا جواب دلیل سے دیا گیا۔ لیکن اسی لاہور میں جب راجپال نے ’’رنگیلا رسول‘‘ کے عنوان کتاب لکھی تو یہ نام ہی توہین آمیز تھا اور اس کتاب میں بھی توہین ہی تھی، دلائل نہیں تھے۔ اس لیے اس کا جواب کسی عالمِ دین نے نہیں بلکہ غازی علم الدینؒ نے دیا ۔ یہ ہماری برصغیر کی تاریخ ہے کہ بات دلیل سے کرو گے تو جواب دیں گے مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، اور مولانا نعیم الدین مراد آبادیؒ، لیکن توہین کرو گے تو جواب دے گا غازی علم الدینؒ ۔
اختلاف اور چیز ہے، توہین اور چیز ہے۔ اختلاف ہم نے ہمیشہ سنا ہے ، برداشت کیا ہے اور اس کا جواب دیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مغرب اختلاف کے نام پر توہین کا حق مانگتا ہے۔ اس پر ایک واقعہ عرض کروں گا۔ سلمان رشدی نے جن دنوں ’’شیطانی آیات‘‘ (The Satanic Verses) کے عنوان سے کتاب لکھی تو اس کے خلاف دنیا بھر میں تحریک چلی۔ کتاب میں توہین کے لہجے میں حضورؐ کا اور اکابر صحابہ کرامؓ کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ میں ان دنوں برطانیہ میں تھا، برمنگھم کے ایک اسکول میں جلسہ ہوا جس میں پاکستانی، انڈین، بنگلہ دیشی حضرات تھے، میں سلمان رشدی کے خلاف تقریر کر رہا تھا کہ ایک نوجوان کھڑا ہو گیا اور بولا مولوی صاحب! اتنا شور کیوں مچا رہے ہیں، کتاب کا جواب دو۔ میں نے کہا کہ بیٹا! جواب دلیل کا دیا جاتا ہے، گالی کا نہیں۔ میں نے مثال دی کہ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر، جو اس وقت حیات تھے، انہوں نے پچاس سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں، کوئی آدمی میرے سامنے کہے کہ تمہارے والد صاحب نے فلاں حوالہ غلط دیا ہے، یا یہ کہے کہ انہوں نے فلاں کتاب میں فلاں بات سے غلط استدلال کیا ہے، تو میں اس کا جواب دلیل سے دوں گا۔ لیکن اگر کوئی میرے سامنے کھڑا ہو کر میرے باپ کو گالی دے گا تو کیا میں لائبریری میں جاؤں گا کہ اس گالی کا جواب کون سی کتاب سے دینا ہے؟ نہیں بھئی! دلیل اور چیز ہے، گالی اور چیز ہے۔
یہ ہمارا مغرب کے ساتھ جھگڑا ہے کہ وہ بات اختلاف کی کرتا ہے اور حق توہین کا مانگتا ہے۔ جبکہ توہین تو جرم ہے۔ کیا دنیا کا کوئی ملک ایسا ہے جس میں عزتِ نفس کے تحفظ کا قانون نہ ہو؟ میں ایک شہری ہوں، کسی نے میری توہین کی ہے تو قانون مجھے دادرسی کا حق دیتا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں عام شہری کا یہ حق ہے کہ اس کی عزت کو کوئی نقصان پہنچائے تو وہ قانون کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ مغرب سے میرا سوال یہ ہے کہ ایک عام شہری کی توہین تو جرم ہے، کیا اللہ کے نبی کی توہین جرم نہیں ہے؟ اور پھر صرف توہین نہیں، ازالۂ حیثیتِ عرفی بھی ایک مستقل قانون ہے کہ جس کا جو معاشرتی تعارف اور حیثیت ہے، وہ اگر مجروح ہو رہا ہے تو یہ بھی اس کی توہین ہے۔ امریکی صدر کی حیثیتِ عرفی ہے اور روسی صدر کی بھی، تو کیا اللہ کے رسول کی کوئی حیثیتِ عرفی نہیں ہے؟ نعوذ باللہ۔
ایک بات اور کہ توہین ، توہین میں فرق ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک عام آدمی کی توہین بھی جرم ہے اور قائد اعظمؒ کی توہین بھی جرم ہے۔ برطانیہ میں ایک عام شہری کی توہین بھی جرم ہے اور بادشاہ کی توہین بھی جرم ہے۔ لیکن کیا یہ برابر کا جرم ہے؟ چنانچہ حیثیت کا بھی خیال کرنا پڑے گا کہ عام شہری کی توہین اِس کی سطح کا جرم ہے اور اللہ کے پیغمبر کی توہین اُس سطح کا جرم ہے۔ مغرب یہ اعتراض کرتا ہے کہ ہم برداشت نہیں کرتے۔ ہم نے اختلاف ہمیشہ برداشت کیا ہے، آج بھی کر رہے ہیں، قیامت تک کریں گے۔ لیکن توہین اور گستاخی نہ پہلے کبھی برداشت کی ہے، نہ آج کرتے ہیں، نہ آئندہ کبھی کریں گے۔ اللہ پاک ہمیں اس عزم پر قائم رکھے، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔