بعد الحمد والصلٰوۃ۔ آج کی نشست میں سفرِ حج کے کچھ تاثرات بیان کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ پورے بیان کرنا تو مشکل ہے، ہلکی پھلکی گفتگو ہو گی۔ پہلی گزارش یہ ہے کہ حج اور اللہ تعالٰی کے گھر کی حاضری اللہ تعالٰی کی عنایت سے ہوتی ہے، طلبی ہوتی ہے تبھی حاضری ہوتی ہے۔ اور میں تو اس کا عینی شاہد ہوں کہ طلبی ہو تو اچانک ہو جاتی ہے، نہ ہو تو بندہ جا کے بھی رک جاتا ہے۔ میں دونوں کا شاہد ہوں، میرے ساتھ دونوں باتیں ہوئی ہیں۔ طلبی نہ ہو تو جا کے بھی آدمی واپس آجاتا ہے اور میں ایسے بھی واپس آیا ہوں۔ اللہ تعالٰی سے عنایت مانگتے رہنا چاہیے۔ الحمد للہ تین حج کیے ہیں اور عمرے بیسیوں ہیں، سب ایسے ہی ہوئے۔
پہلا حج میں نے ۱۹۸۵ء میں کیا تھا جبکہ ۱۹۸۴ء میں عمرہ کیا تھا۔ میرے بڑے بہنوئی حاجی سلطان محمود خان، اللہ تعالٰی سلامت رکھے، اچھڑیاں ضلع ہزارہ میں رہتے ہیں۔ وہ کافی عرصہ سعودی عرب میں رہے ہیں۔ بیوی بچوں سمیت ریاض میں رہتے تھے۔ مجھے انہوں نے ۱۹۸۴ء میں کہا کہ میں تمہیں حج کروانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا بھائی جان! نہیں، اگر کروانا ہے تو خالی موسم میں عمرہ کروائیں، حج کا پھر دیکھا جائے گا۔ انہوں نے پوچھا ایسے کیوں؟ میں نے کہا میرا جی چاہتا ہے رش نہ ہو اور خالی موسم ہو تو جا کر عمرہ کروں۔ آٹھ، دس دن گھوموں پھروں، پہلے ساری جگہیں دیکھوں کہ کون سی جگہ کہاں ہے، کہاں کیا کرنا ہے تاکہ جب حج پر جاؤں تو جا کے پوچھتا نہ پھروں کہ یہاں کیا کرنا ہے، وہاں کیا کرنا ہے، جو کرنا ہے تسلی سے کر لوں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ مجھے انہوں نے ٹکٹ بھیج دیا، ویزہ لگ گیا دسمبر ۱۹۸۴ء میں۔ حضرت والد صاحب ؒسے جب دعا کی درخواست کرنے اور بتانے کے لیے ان کے پاس گیا کہ عمرے پر جا رہا ہوں تو یہ سن کر وہ ناراض ہو گئے کہ یہ تم نے کیا کیا؟ فقہائے احناف کی ایک بڑی جماعت کا موقف یہ ہے کہ بیت اللہ کی زیارت سے حج فرض ہو جاتا ہے۔ پھر توفیق ہو یا نہ ہو، حج کرنا پڑتا ہے۔ حضرت والد صاحبؒ نے فرمایا، حج تم پر فرض ہو جائے گا پھر پتہ نہیں حالات میسر آتے ہیں یا نہیں، تم نے حج اپنے اوپر ضرور فرض کرنا ہے؟ بات وہ ٹھیک کہہ رہے تھے اس نقطہ نظر سے کہ بیت اللہ کی زیارت سے حج فرض ہو جاتا ہے۔ تفصیلات میں نہیں جاتا لیکن یہ بھی ایک موقف ہے۔ کہنے لگے تم غلطی کر رہے ہو، تم نے اپنے اوپر حج فرض کر لینا ہے، پھر پتہ نہیں موقع ملتا ہے یا نہیں ملتا۔ تو میں نے کہا، ابا جی! یہ کون سا میں خود کر رہا ہوں، جو اللہ عمرہ کروا رہا ہے حج بھی کروائے گا، آپ دعا کر دیں۔ یہ پہلا موقع تھا۔ دعا فرمائی اور دعا کرتے ہوئے مجھے دو نصیحتیں کیں۔
- طواف کرتے ہوئے پہلے تین چکروں میں رمل کرنا ہوتا ہے ۔ فرمایا، تو رمل بھول جائے گا۔ میں نے کہا ان شاء اللہ نہیں بھولوں گا۔ فرمایا، بھول جائے گا، وہاں کسی کو ہوش نہیں رہتا۔ میں نے کہا ان شاء اللہ نہیں بھولتا۔ پھر فرمایا بھول جاؤ گے۔ اس پر حضرت ملا علی قاریؒ کا ایک واقعہ سنایا۔ مناسک ِحج پر احناف میں سب سے مفصل کتاب ملا علی قاریؒ کی ہے۔ فرمایا، ملا علی قاریؒ نے مناسک الحج لکھی، لوگوں میں عام ہوئی، پھر کسی موقع پہ خود حج کے لیے گئے۔ طواف کر رہے تھے کہ کوئی آدمی قریب آیا اور پوچھنے لگا آپ عالم لگتے ہیں، کیا آپ نے ملا علی قاریؒ کی کتاب نہیں پڑھی؟ فرمایا اس میں کیا لکھا ہوا ہے؟ اس نے کہا اس میں لکھا ہوا ہے کہ طواف میں پہلے تین چکر رمل سے کرنے ہیں، اور آپ رمل تو نہیں کر رہے۔ یہ ملا علی قاریؒ خود تھے جنہوں نے لکھا ہے۔ میں نے کہا، ان شاء اللہ نہیں بھولوں گا۔ لیکن والد گرامی کی بات درست نکلی، مجھے چوتھے چکر میں یاد آیا کہ میں نے رمل بھی کرنا تھا۔
- ایک نصیحت اور کی، یہ بھی احناف کا موقف ہے۔ مسجد حرام میں، اب تو خیر بہت نظم ہے، اس زمانے میں اتنا نظم نہیں ہوتا تھا۔ مرد عورتیں خلط ملط ہوتے تھے، نماز کی صفوں میں کہیں مرد ہے، کہیں عورت ہے۔ فرمانے لگے کہ تمہارے درمیان اور بیت اللہ کے درمیان کسی صف میں کوئی عورت ہوئی تو تمہاری نماز نہیں ہو گی۔ اصولی مسئلہ یہی ہے۔ میں نے کہا ان شاء اللہ ایسے نہیں پڑھوں گا۔ مجھے کیا پتہ تھا، وہاں کیا ہوتا ہے، میں تو کبھی گیا ہی نہیں تھا۔ یہاں تو کہہ دیا کہ ان شاء اللہ ایسے نہیں پڑھوں گا لیکن وہاں جا کر پتہ چلا کہ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ میں دو تین دن دیکھتا رہا کہ عورتوں کو یہاں سے کیسے نکالوں۔ ایک دن میں نے کوشش کی، نماز سے تقریبًا آدھا گھنٹہ پہلے گیا کہ آج تو پہلی صف میں نماز پڑھوں گا۔ کھسکتے کھسکتے پہلی صف میں پہنچ گیا۔ لیکن جب تکبیر ہوتی ہے تو طواف ٹوٹتا ہے، طواف والے آ کر آگے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب تکبیر ہوئی تو میرے سامنے دو ہٹی کٹی مصری عورتیں آ کر کھڑی ہو گئیں۔ میں نے اس دن فیصلہ کر لیا کہ یہ مشکل ہے، نہیں ہو سکے گا، جیسے کیسے ہو پڑھ لو، یہ حرم ہے۔ خیر جو بات عرض کر رہا تھا کہ اللہ تعالٰی نے توفیق دی عمرہ کیا۔ یہ دسمبر ۱۹۸۴ء کی بات ہے۔
واپسی میری جنوری میں ہوئی تھی، آگے اگست میں حج تھا۔ میں حج کا ظاہری حالات میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد لاہور شیرانوالہ گیا، وہاں جاتا ہی رہتا تھا کہ میرا تو لاہور میں ٹھکانہ ہی وہی تھا۔ روحانی اور جماعتی مرکز وہی تھا۔ ہمارے دو بزرگ حضرت مولا نا ضیاء القاسمی صاحبؒ اور مولانا منظور احمد چنیوٹی صاحبؒ بیٹھے مشورہ کر رہے تھے۔ لندن میں قادیانیوں نے پہلی کانفرنس۱۹۸۴ء میں کی تھی۔ یہ مشورہ کر رہے تھے کہ ہمیں بھی قادیانیوں کے مقابلے میں لندن میں کانفرنس کرنی چاہئے۔ انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے نام سے ان کا گروپ تھا۔ میں اتفاقاً پہنچ گیا۔ حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ نے مجھے دیکھ کے کہا، آؤ یار! تم نے اچھا کیا کہ آگئے ہو۔ ہمارے ساتھ لندن چلو۔ اس زمانے میں برطانیہ کا ویزہ نہیں ہوتا تھا، ایئرپورٹ پہ انٹری لگتی تھی۔ میں دو دفعہ بغیر ویزے کے گیا ہوں۔ قاسمی صاحبؒ نے کہا کہ ہمارے ساتھ لندن چلو، تم لکھ پڑھ اچھا لیتے ہو، رپورٹنگ اچھی کر لیتے ہو، ہم نے وہاں کانفرنس کرنی ہے، تم ہمارے ساتھ چلو۔ پروگرام یہ تھا کہ لندن جانا ہے ایک مہینہ وہاں کانفرنس کی تیاری کرنی ہے، کانفرنس منعقد کر کے واپسی پر ایک ہفتے کے بعد حج تھا۔ یہ آپس میں کھسر پھسر کر رہے تھے میں سمجھ رہا تھا کہ یہ واپسی پر حج بھی کریں گے۔ مجھے جب قاسمی صاحب ؒنے کہا ہمارے ساتھ لندن چلو۔ میں نے کہا، واپسی پہ مجھے بھی حج میں شریک کریں گے؟ فرمایا، کر لیں گے۔ اس طرح عمرے کے سات مہینے کے بعد میرا حج بھی ہو گیا، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔
یہ عرض کر رہا ہوں کہ فیصلے ’’وہاں‘‘ ہوتے ہیں۔ والد صاحب ؒناراض ہو رہے تھے،میں بھی پریشان تھا کہ والد گرامی بات تو ٹھیک کہتے ہیں کہ حج فرض ہو جائے گا۔اورہم فقیروں کے پاس کہاں اتنے پیسے ہوتے ہیں کہ حج کر سکیں۔اللہ میاں نے سات ماہ کے بعدحج نصیب فرما دیا سال بھی نہیں گزرا۔ مولانا ضیاء القاسمیؒ، میں،مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اکٹھے گئے ،ایک مہینہ برطانیہ گھومے پھرے ۔الحمدللہ پہلی ختم نبوت کانفرنس لندن کے ویمبلی ہال میں ہوئی۔ علامہ ڈاکٹرخالد محمود صاحب،مولانا عبدالحفیظ مکیؒ،مولانا ضیاء القاسمیؒ، مولانا چنیوٹیؒ۔ بنیادی گروپ ہم چار پانچ آدمیوں کاتھا ۔بہت بڑی کانفرنس کی تھی۔ کانفرنس کرنے کے بعد واپسی پر حج میں ہم سارے اکٹھے ہی تھے۔ واپسی پہ اللہ تعالی نے حج عطا فرمادیا۔ میں کہتا ہوں کہ فیصلے ’’وہاں‘‘ ہوتے ہیں۔
اس وقت کے خرچ اور آج کے خرچ کا ذرا موازنہ کریں، آج تو آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ مولانا ضیاء القاسمیؒ، مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور میں جب واپس آئے تو خرچے کا حساب لگایا، علامہ صاحب مدظلہ تو وہیں رہتے تھے۔ ایک مہینہ لندن میں رہے، دو دن ترکی میں رہے، قاہرہ گئے، واپسی پہ حج کیا، حج کر کے لاہور واپس پہنچے۔ لاہور سے واپس لاہور تک ہمارا سفر کا کل خرچ پندرہ ہزار روپے فی کس ہوا تھا۔ جہاں بھی گئے الحمد للہ مہمان ہی رہے، اپنا خرچہ تو ٹکٹ وغیرہ ہی کا تھا۔ تقریبًا پندرہ ہزار میں اللہ کا گھر بھی دیکھا، اللہ کی شان بھی دیکھی، دونوں کام ہو گئے۔
دوسرا حج بھی ایسے ہی ہوا۔ غالبًا ۱۹۹۲ء کی بات ہے حج سے ہفتہ دس دن پہلے، حضرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ کراچی والے ہمارے مہربان بزرگ اور شفیق تھے، ان کا فون آیا ’’ابے! حج پہ جانا ہے؟‘‘ میں نے کہا حج پر جانے سے انکار تو نہیں کرتا لیکن جاؤں گا کیسے؟ فرمایا جانا ہے؟ میں نے کہا جی! چلا جاؤں گا۔ فرمایا، پاسپورٹ ہے؟ میں نے کہا، ہے۔ فرمایا، ٹی سی ایس سے بھیج دو۔ میں نے بھیج دیا۔ پانچ ذی الحجہ کو فون آیا کہ کل گیارہ بجے جدہ کی فلائٹ ہے رات کسی طرح کراچی پہنچو۔ پی آئی اے کی نائٹ کوچ سستی سی جایا کرتی تھی، ایک طرف کا کرایہ، آپ تو مذاق ہی سمجھیں گے، ساڑھے پانچ سو روپیہ تھا۔ اب تو ساڑھے پانچ سو میں ہمیں لاہور کوئی نہیں لے جاتا۔ میں کراچی پہنچ گیا۔ چھ ذی الحجہ کو ہم نے ظہر کی نماز جدہ میں پڑھی۔ مفتی صاحب ؒتھے، مفتی جمیل خان شہیدؒ تھے، مولانا سعید احمد جلالپوری شہیدؒ تھے، مولانا محمد فاروق کشمیری تھے۔ علماء کا پورا گروپ تھا، الحمد للہ یہ دوسرا حج تھا۔ حج کیا، گھومے پھرے، واپس آگئے۔
جبکہ اس سال یہ تیسرا حج تھا۔ ویسے ارادہ تو تھا، ہمارے ایک بزرگ حاجی میاں محمد صادق صاحب گکھڑ کے حضرت والد صاحبؒ کے پرانے دوستوں میں سے ہیں، وہ دو سال سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو حج کرانے کو جی چاہتا ہے، میں نے کہا، کرا دیں۔ پچھلے سال سرکاری سکیم میں درخواست دی نام نہیں نکلا، اس سال پھر سرکاری سکیم میں درخواست دی پھر نام نہیں نکلا۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ کوشش کرتے ہیں۔ ایک دن اچانک فون آیا سعودی سفارت خانے کی طرف سے کہ اس سال سعودی عرب کے بادشاہ کی دعوت پر حج کرنے والوں میں آپ کا نام بھی ہے، آپ جائیں گے؟ میں نے کہا، کیوں نہیں جاؤں گا۔ کہا، پاسپورٹ بھیج دیں۔ میں نے بھیج دیا۔ اس میں تین فائدے تھے۔ پہلا یہ کہ مفت کا تھا، اس میں پیسے میرے تو نہیں لگنے تھے مگر کسی کے تو لگنے ہی تھے۔ دوسرا یہ کہ پروٹوکول کے ساتھ تھا، اتنا پروٹوکول تھا کہ بس! وہ روداد بعد میں بیان کروں گا، بلکہ ہم تو پروٹوکول کے قیدی تھے۔ تیسرا فائدہ یہ کہ چودہ دن کا پیکج تھا، جامعہ نصرۃ العلوم کی چھٹیوں میں ہی سب کچھ ہو گیا تھا۔ میں اسباق کی چھٹیوں سے بہت گھبراتا ہوں، چھٹیاں شروع ہوتے ہی گیا اور چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے واپس آگیا۔ ورنہ چالیس دن میرے لیے مشکل ہوتے کہ وہاں کیا کرتا اور یہاں پیچھے طلبہ کیا کرتے۔ الحمد للہ! یہ تینوں حج ایسے ہی ہوئے۔ ان شاء اللہ چوتھا بھی ایسے ہی ہو گا۔
اس کا دوسرا پہلو بھی دیکھ لیں۔ اب تو بہت مشکل ہو گیا ہے ورنہ پہلے برطانیہ اور امریکہ پچیس تیس سال جاتا رہا ہوں۔ بڑا آسان نسخہ ہوتا تھا کہ واپسی پر عمرے کا ویزہ لگوایا، روٹ تھوڑا سا تبدیل کروایا، چند ہزار روپے اضافی خرچ ہوئے اور عمرہ کر کے آگئے۔ جاتے ہوئے عمرہ کر لیا یا واپسی پر کر لیا۔ عام طور پہ بڑی آسانی سے ہو جاتا تھا۔ لندن میں ویزا لگوانے پر ایجنٹ کی فیس کے طور پر پانچ پونڈ خرچ ہوتے تھے۔ مجھے ٹھیک طرح سے یاد نہیں ہے، کوئی بیس بائیس عمرے کیے ہیں۔ مگر اب مشکل ہو گیا ہے، اب اپنے ملک سے ویزہ لگوا کر جانا پڑتا ہے، باہر کسی ملک سے عمرے کا یا حج کا ویزہ نہیں لگتا۔ میرے ساتھ ایسا بھی ہوا ہے کہ لندن سے لاہور واپس آرہا تھا، ترکش ایئر لائن تھی، سستی ٹکٹ ہوتی تھی، اس زمانے میں زیادہ تر میں وہی استعمال کرتا تھا۔ ساؤتھال لندن میں ہمارے ایک دوست آزاد کشمیر کے محمد اشرف خان ہیں، انہوں نے کہا، ہمارا جی چاہتا ہے عمرہ کرنے کو، اور جی چاہتا ہے کہ آپ بھی ساتھ چلیں۔ میں نے کہا، میری تو ترکش ایئر لائن ہے، لندن سے اڑوں گا سیدھا استنبول، استنبول سے سیدھا کراچی۔ راستے میں سعودیہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ٹکٹ ہمیں دے دیں ہم ٹھیک کر لیتے ہیں۔ میں نے کہا یہ لیں پاسپورٹ اور یہ لیں ٹکٹ۔ ان کو دے دیا۔ تیسرے دن کہنے لگے، چلو جی چلیے۔ ہم عمرہ کر کے ادھر آگئے، یہ بھی ہوا۔
اور یہ بھی ہوا کہ ایک دفعہ ویزہ لگوایا، ٹکٹ لیا، ساری سیٹنگ مکمل تھی۔ سعودیہ ایئرلائن تھی، اسی سے یہ سہولت ملتی ہے، باقی کسی سے نہیں ملتی۔ سعودی عرب میں جدہ یا ریاض جانا ہوتا ہے تو وہ سہولت مل جاتی تھی۔ لندن سے جدہ کی فلائٹ ساڑھے پانچ گھنٹے کی ہے۔ رات کو بیٹھا، صبح فجر کے وقت جدہ پہنچنا تھا۔ تقریبًا نیم سویا ہوا تھا، چونکہ پرانا عادی مسافر ہوں تو اندازہ ہو جاتا ہے۔ چار گھنٹے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ جہاز واپس مڑ رہا ہے، میں پریشان ہو گیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ آنکھیں کھولیں، ادھر اعلان ہو گیا کہ عراق کویت جنگ شروع ہو گئی ہے، جدہ ایئرپورٹ بند ہو گیا ہے، ہم واپس لندن جا رہے ہیں۔ یعنی سعودی عرب کو ہاتھ لگا کے واپس ہو گئے۔ یہ بھی ہوتا ہے۔ ہوتا ہی نہیں ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ لندن میں ہمارے محترم دوست حاجی محمد اسلم صاحب رہتے ہیں۔ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے قریبی محلہ کے رہنے والے ہیں۔ وہاں تیس چالیس سال سے مقیم ہیں، وہی عام طور پر میرے میزبان ہوتے ہیں۔ صبح جا کر ان کے گھر گھنٹی دی تو وہ حیران ہو کر کہنے لگے، آپ کو تو میں رات جدہ بھیج کر آیا ہوں۔ میں نے انہیں تفصیل بتائی۔ میں نے یہ بات اس لیے عرض کی ہے کہ یہ بلاوا اوپر سے ہی ہوتا ہے اس لیے اوپر والے سے معاملہ سیدھا رکھنا چاہئے۔ وہ جب چاہے بلا لے جب چاہے روک لے۔ میرے تو زندگی کے تجربات ہیں۔
(کسی صاحب نے درمیان میں سوال کیا کہ پھر واپسی احرام میں ہی ہوئی؟) نہیں! وہاں سے ہم مدینہ آیا کرتے تھے۔ یورپ سے جب آتے ہیں تو ہم پہلے مدینہ آتے ہیں، مدینہ سے احرام باندھتے ہیں، مولوی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اس دفعہ چونکہ پروٹوکول والا حج تھا اس لیے ہمیں دَم بھی پڑ گیا۔ حضرت مولانا عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم، مولانا فضل محمد یوسفزئی بنوری ٹاؤن والے، مولانا محمد طاہر صاحب طاہری پنج پیر والے اور دیگر بہت سے علماء تھے۔ کچھ ڈاکٹر صاحبان تھے، کچھ بریگیڈیر تھے۔ پینتالیس آدمیوں کا ایک گروپ تھا جو پاکستان سے اس دفعہ سعودی بادشاہ کی مہمانی میں حج کے لیے گئے۔ دارالعلوم دیوبند سے بھی مولانا مفتی محمد سلیمان بجنوری اور مولانا خضر محمد کشمیری، جو دارالعلوم کے سینئر اساتذہ ہیں، وہ بھی تھے۔ اور بھی انڈیا سے بہت سے علماء تھے۔ پروٹوکول کا فائدہ بھی بڑا ہوتا ہے، نقصان بھی ہوتا ہے۔ وہاں جب پہنچے تو جدہ ایئرپورٹ سے سیدھے مکہ مکرمہ۔ کُدی روڈ پہ بڑا ہوٹل تھا فائیو سٹار۔ وہاں ہمیں کمرے دے دیے کہ آرام فرماؤ۔ حرم سے بہت دور۔ جبکہ حج پہ جانے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ رہائش حرم سے قریب ہو، یا کم از کم پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر ہو۔ کمرے بہت اچھے تھے، فائیو سٹار کا بوفے ساتھ تھا، جب چاہو جاؤ، جو مرضی ہے کھاؤ۔ حرم میں ویسے ہوٹل کی گاڑیاں جاتی تھیں، نظم ان کا تھا لیکن ہماری مرضی سے نہیں۔ اور حاجی کے لیے یہ بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ ساتھی پریشان ہو گئے کہ یار یہ کیا ہوا؟ ہم نظم کے ساتھ ہی چلیں گے، اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے؟ تو میں نے ساتھیوں کو حوصلہ دلانے کے لیے ان کو حدیث سنائی اور اس سے حوصلہ ہو گیا ان کو۔ میں نے کہا ایک روایت میں آتا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرۃ القضاء کے لیے تشریف لے گئے تھے تو یہیں کُدی سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے۔ چلو اس سنت پہ ہمارا عمل ہو رہا ہے۔ ساتھی خوش ہو گئے کہ اچھا سہارا نکالا ہے۔ اب چونکہ ان کا اپنا نظم تھا، اس کے مطابق انہوں نے انتظام کیا ہوا تھا، تو ہمارے لیے بہت سارے مسائل پیدا ہوئے، اور ہو جاتے ہیں۔ چونکہ وہ حنبلی ہیں، اپنے فقہی مذہب کے مطابق معاملات کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سارے معاملات مختلف ہیں، ترتیب ہمارے نزدیک واجب ہے اور ترتیب ترک ہونے پر دم واجب ہوتا ہے، جبکہ ان کا اپنا نظام ہوتا ہے۔
جاتے ہوئے ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا لیکن وہ اتنا زیادہ نہیں تھا۔ حج کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ آٹھ ذی الحجہ کو احرام باندھ کر منیٰ جانا ہے۔ رات منیٰ میں رہنا ہے، صبح وہاں سے عرفات جانا ہے۔ انہوں نے ہمیں گاڑیوں میں بٹھایا سیدھے عرفات ایئرکنڈیشنڈ خیموں میں پہنچا دیا۔ ہم نے پوچھا خدا کے بندے! منیٰ کدھر گیا؟ کہنے لگے، منیٰ کل صبح جائیں گے۔ ہمارے ہاں رات کو منیٰ میں رہنا سنت ہے۔ ہم پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ہو گیا ہمارے ساتھ۔ حضرت مولانا عبد الرزاق اسکندر ہمارے بڑے تھے، ان سے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہئے؟ تو انہوں نے فرمایا، سنت کے ترک پر دم واجب نہیں ہوتا لہٰذا گزارہ کرو۔ مولانا فضل محمد صاحب کی اور میری رائے بھی یہی تھی کہ ٹھیک ہے ڈسپلن اور نظم میں چلو سنت رہ گئی ہے، اللہ تعالٰی معاف فرمائیں گے۔ یہ تو گزارہ ہو گیا۔
اگلے دن عرفات سے واپس آنا تھا۔ عرفات سے واپسی پر احناف کا اصول یہ ہے کہ مغرب اور عشاء مزدلفہ میں اکٹھی پڑھنی ہیں، رات مزدلفہ میں قیام کرنا ہے۔ معذورین کو آگے جانے کی اجازت ہے، غیر معذور کو صبح طلوع شمس سے پہلے وہاں سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے، نکلے گا تو دم واجب ہو جائے گا۔ مگر سعودیہ والوں کے ہاں یہ واجب نہیں ہے، انہوں نے ہماری ترتیب یہ رکھی کہ عرفات سے تو وقت پہ لائے، ہم مزدلفہ آئے، رات گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ وہاں گزارا، دونوں نمازیں پڑھیں، کھانا کھایا، پھر کہا، چلیں جی! منیٰ۔ رات بارہ بجے ہم منیٰ پہنچ گئے۔ ہم حیران کہ یہ کیا؟ ہم نے ان سے بات کی کہ اللہ کے بندو! ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہو؟ ہمارے ساتھ مشورہ تو کر لیا کرو کہ کیا ترتیب ہے تاکہ ہم کوئی متبادل رائے دیں۔ پھر ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ کیا کریں؟ تو طے یہ ہوا کہ نظم کے ساتھ چلتے ہیں، دم واجب ہو گیا ہے تو ہم وہ دے دیں گے۔ اس صورت میں احناف کے نزدیک دم واجب ہو جاتا ہے، لہٰذا ہم سب نے دم دیا۔
رات ہی رات منیٰ پہنچ جانے سے ہمیں یہ سہولت ہوئی کہ رات دو تین گھنٹے نیند مل گئی ایئرکنڈیشنڈ خیموں میں۔ صبح طلوع شمس کے بعد رمی کرنا ہوتی ہے، صبح صبح ہمیں وقت مل گیا، ہم نے جا کر آرام سے رمی کی اور واپس آ کر سو گئے۔ میں نے ساتھیوں سے کہا کہ ظہر تک کوئی مجھے ہلائے بھی نہیں۔ اس دوران منیٰ کا حادثہ پیش آیا۔ ہم بالکل ساتھ تھے۔ جمرات کے بالکل ساتھ مسجد خیف کے سامنے ہمارے خیمے تھے اور اتنا سخت پروٹوکول تھا کہ نہ ہم باہر جا سکتے تھے، نہ باہر سے کوئی اندر آ سکتا تھا۔ ظہر کے وقت اٹھے تو پتہ چلا کہ یہ حادثہ ہو گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حادثے کی تفصیل ہمیں وہاں معلوم ہوئی، وہی جو آپ نے اخبارات میں پڑھی ہے۔ نظم تو انہوں نے ما شاء اللہ بہت اچھا کیا ہوا ہے، اس سے بہتر نظم کیا ہو سکتا ہے۔ پوری ترتیب کے ساتھ آنے جانے کے راستے الگ الگ ہیں۔ ہم صبح جب گئے تھے تو آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ رمی میں آدمی تھوڑا حوصلہ کر لے کہ میں نے یوں جا کر یوں واپس آنا ہے تو آدھ پون گھنٹہ زیادہ لگتا ہے بس! اس سے زیادہ نہیں۔ تو کبھی یہاں کوئی مسئلہ پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہوا یوں کہ ستر اَسی آدمیوں نے، جس طرف سے دوسرے لوگ جا رہے تھے، بے پناہ رش تھا، ادھر سے واپس آنے کی کوشش کی۔ وہاں تو ایک آدمی گرا تو پھر گرتے ہی چلے گئے۔ وہاں تو سنبھلنا ہی مشکل ہے۔ جو وہاں گئے ہیں ان کو اندازہ ہے کہ رمی پہ گرا ہوا آدمی اٹھ نہیں سکتا، اور نہ ہی کوئی اٹھاتا ہے۔ یہ جو ستر اَسی آدمی رکاوٹیں ہٹا کر مخالف سمت سے گھسے، اس پر دو رائیں ہیں، اس وقت بھی تھیں، آج بھی ہیں۔ (۱) یہ بے وقوفی بھی ہو سکتی ہے، جیسے ہم لوگ کر لیا کرتے ہیں کہ میں نے ادھر سے ہی جانا ہے۔ (۲) اور یہ شرارت بھی ہو سکتی ہے۔ ہوا تو یہی ہے مگر ہوا کیوں ہے؟ اس کی تحقیق کی جا رہی ہے، دونوں امکان برابر نظر آتے ہیں۔
جب ہم صبح جا رہے تھے تو ایک بوڑھی خاتون، غالبًا پنجاب کی ہی تھی، ادھر سے واپس آنا چاہ رہی تھی۔ شُرطے سے لڑ رہی تھی کہ میں نے ادھر سے جانا ہے۔ وہ روک رہا تھا لیکن وہ کہتی کہ میں نے ادھر سے ہی جانا ہے۔ وہ بڑا سمجھا رہا تھا کہ مرے گی یہاں۔ لیکن وہ بضد تھی کہ نہیں، میں نے تو ادھر ہی سے جانا ہے، ادھر سے اتنی مسافت طے کر کے آنا پڑے گا۔ وہ بے چارہ بے بس ہو گیا تو ہم میں سے کسی نے اسے کہا، بی بی! خدا کا خوف کرو سیدھے راستے سے جاؤ، کیوں مرنے کا پروگرام ہے تمہارا، لوگوں کے ساتھ چلو۔ یہ تو میرے سامنے کا واقعہ ہے، اسی دن کا واقعہ ہے۔ یہ حادثہ اس قسم کی بے وقوفی بھی ہو سکتی ہے اور شرارت بھی ہو سکتی ہے کہ کچھ لوگوں نے شرارتاًَ ایسے کیا ہو۔
بہرحال جب ہم مدینہ منورہ آئے تو تھوڑی آزادی ملی۔ مدینہ منورہ میں استاذ محترم حضرت قاری محمد انور صاحب مدظلہ رہتے ہیں جو میرے حفظ کے استاد ہیں۔ میں نے پچپن سال پہلے ۱۹۶۰ء میں ان سے حفظ کیا تھا، بحمداللہ تعالیٰ ابھی حیات ہیں، گذشتہ چھتیس سال سے مدینہ منورہ میں پڑھا رہے ہیں، اب کچھ معذور ہیں۔ ان کو جب پتہ چلا، انہوں نے ڈھنڈورا پیٹا ہوا تھا مولوی آرہا ہے، مولوی آرہا ہے۔ وہ مجھے مولوی کہتے ہیں، خیر ان کی خدمت میں حاضری ہوئی۔ ایک اور پرانے بزرگ قاری محمد بشیر صاحب پچاس سال سے مسجد نبوی میں تجوید پڑھا رہے ہیں۔ اس وقت بھی ہم جب گئے تو وہ پڑھا رہے تھے۔ ہم جب مسجد نبوی کے برامدے میں گئے ان کو ایک آدمی لندن میں بیٹھا فون پر منزل سنا رہا تھا، اب یہ بھی آسان ہو گیا ہے، اور وہ اس کی غلطیاں نکال رہے تھے کہ یہاں تفخیم کرنی ہے، یہاں غنہ کرنا ہے وغیرہ۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ فرمایا، وہ لندن میں بیٹھا سنا رہا ہے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار حضرت مولانا محمد عبداللہ شہیدؒ کو دیکھا تھا کہ ایک دفعہ ان کے گھر گیا تو وہ ایک ساتھی کے ساتھ ٹیلیفون پر قرآن کریم کی منزل کا دور کر رہے تھے۔ مجھے بتایا کہ وہ وہاں رہتا ہے، میں یہاں رہتا ہوں، ہم روزانہ اس وقت ٹیلیفون پہ ایک پارے کا دور کرتے ہیں۔ فون اور اس قسم کے آلات کا صحیح استعمال ہو تو یہ بہت اچھی چیزیں ہیں۔
خیر مدینہ منورہ میں ہم تقریبا پانچ دن رہے۔ ہم نے ان سے گزارش کی کہ ہمیں ایک دن جدہ رہنے کو دے دیں، اپنی مرضی سے ہم آ جا سکیں۔ جدہ میں میرا چھوٹا بھائی رہتا ہے قاری عزیز الرحمن خان شاہد۔ بھتیجے بار بار فون کرتے تایا ابو، تایا ابو، ہمارے پاس آئیں۔ ہمیں کوئی پروٹوکول سے نکلنے دے تو ہم جائیں۔ میں نے ان سے کہا، میرا بھائی جدہ رہتا ہے، میرا ہم زلف بھی وہیں ہے، ایک برادر نسبتی بھی وہاں رہتا ہے، میری وہاں تین چار فیملیاں ہیں، بچے بار بار فون کر رہے ہیں لیکن میں ان کے ہاں نہیں جا سکا۔ اور یہ تیس سال میں پہلا موقع ہے کہ میں سعودیہ گیا ہوں اور بچوں کو نہیں مل سکا۔ جدہ دو دفعہ گیا ہوں، آتے بھی، جاتے بھی، لیکن نظم کے ساتھ۔ اب بچے فون کرتے ہیں کہ بڑے ابو، وہ مجھے بڑے ابو کہتے ہیں، آپ آئے ہیں اور ملے بھی نہیں۔ میں کہتا ہوں بیٹا، میں کیا کرتا۔ بہرحال الحمد للہ۔
اور آتے ہوئے ایک لطیفہ ہوا، وہ بھی سنا ہی دیتا ہوں۔ چونکہ ہم مہمان تھے تو انہوں نے اپنی طرف سے ہمیں پانی وغیرہ سب کچھ دیا ہوا تھا۔ زمزم کی باقاعدہ پیک شدہ بوتل وہ بھی پروٹوکول والی، اوپر نام لکھے ہوئے تھے۔ اگر ایئرپورٹ پر آنے سے پہلے یہ واقعہ ہوتا تو میں کوئی متبادل بندوبست کر لیتا۔ جدہ ایئرپورٹ پر داخل ہونے سے پہلے میں اور روزنامہ امت کے رپورٹر سیف اللہ خالد صاحب اپنا سامان سامنے رکھ کے بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک صاحب آئے، میری بوتل کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے یہ میری ہے۔ زمزم کی بوتل گتے کے ڈبے میں بند تھی۔ میں نے کہا نہیں یار! یہ میری ہے۔ کہنے لگے، نہیں نہیں، میری ہے۔ میں نے کہا میرا نام لکھا ہوا ہے اس پر، دیکھو! میرا پورا نام لکھا ہوا ہے ''محمد عبد المتین خان زاہد''۔ اس نے کہا، یہ غلطی سے لکھا گیا ہے ،ورنہ بوتل میری ہے۔ میں نے اسے کہا، لے جاؤ یار! اور میں کیا کہتا۔ اس پر مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آیا۔ کبھی کبھی ایسے بھی ہوتا ہے۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کا شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں جلسہ ہوا۔ انہوں نے رات تقریر کی۔ جب لوگ فارغ ہوئے تو بہت سے حضرات مسجد میں آ کر سو گئے۔ میں صبح فجر کی نماز پڑھا کر، درس دینے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک صاحب گھومتے گھومتے آئے اور کہنے لگے میری جوتی نہیں مل رہی۔ میں نے کہا کیسی تھی؟ سامنے میری جوتی پڑی تھی، میں اس زمانے میں پشاوری چپل پہنتا تھا، عام میرا معمول تھا۔ میں نے کہا کیسی تھی؟ تو کہنے لگا ایسی تھی۔ میں نے کہا یہ تو میری ہے۔ کہنے لگا، نہیں نہیں، یہی تھی۔ میں نے کہا یہ تو میری ہے۔ کہنے لگا، اللہ کی قسم، یہی تھی۔ میں نے کہا اٹھا لو یار! اب اور میں کیا کرتا۔ پہلے اس نے کہا کہ ایسی تھی، پھر کہا کہ یہی تھی۔ جب میں نے کہا یہ تو میری ہے، تو کہنے لگا اللہ کی قسم یہی ہے۔
بہرحال الحمد للہ! اللہ تعالٰی نے مہربانی فرمائی، اپنے گھر کی حاضری نصیب فرمائی، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری نصیب فرمائی۔ اللہ تعالٰی قبول فرمائے اور بار بار نصیب فرمائے اور ایسے ہی نصیب فرمائے۔ وہ بڑا مہربان ہے، جب مہربان ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی راستہ نکال دیتا ہے۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔