(جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان کے سابق راہنما رانا شمشاد علی خان کے سوالنامہ کے جواب میں لکھا گیا۔)
سوال نمبر ۱۔ کیا آپ کبھی JTI کے ساتھ منسلک رہے؟ آپ کا JTI سے کیا تعلق تھا؟
سوال نمبر ۲۔ JTI سے آپ کی وابستگی کے خدوخال کیا تھے؟
سوال نمبر ۳۔ JTI کا تحریک نظام مصطفیؐ، تحریک جمہوریت، تحریک ختم نبوت میں کیا کردار رہا؟
سوال نمبر ۴۔ کیا JTI کی قیادت نے کالجز اور مدارس کے طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے ملاں اور مسٹر کے فرق کو ختم کیا، اور کہاں تک کامیاب رہی؟
سوال نمبر ۵۔ JTI اور JUI کا آپس میں کیا تعلق تھا؟
سوال نمبر ۶۔ JTI غیر سیاسی طلبہ تنظیم تھی اور اپنے فیصلے اپنی شوریٰ میں کرنے کی مجاز تھی تو پھر JUI کی مداخلت کیوں ہوئی؟
سوال نمبر ۷۔ JUI کی مداخلت سے JTI کا شیرازہ بکھرا، ملاں اور مسٹر کی تفریق از سر نو پروان چڑھی؟
سوال نمبر ۸۔ مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت درخواستیؒ کے مولانا ہزارویؒ سے کیا اختلافات تھے؟ مولانا ہزارویؒ کے اخراج کے وقت دو مختلف قراردادیں لکھی گئیں، اس کی کیا وجہ تھی؟
سوال نمبر ۹۔ کیا یہ درست ہے کہ حضرت مولانا درخواستیؒ غیر سیاسی شخصیت تھے، انہوں نے جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم کو استعمال کر کے پیری مریدی کو زیادہ پروان چڑھایا؟
سوال نمبر ۱۰۔ کیا یہ درست ہے کہ مفتی محمودؒ مذہبی حلقوں کے ہاتھوں یرغمال تھے کیونکہ مذہبی حلقوں پر درخواستی صاحبؒ اثر رکھتے تھے۔ مفتی صاحبؒ کے قریب آکر جماعت اسلامی نے اپنی ۔۔۔۔۔۔ کر دی۔
سوال نمبر ۱۱۔ ایسی صورتحال میں حضرت لاہوریؒ کے جانشین حضرت عبید اللہ انورؒ نے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے اس خلفشار کو کہاں تک کم کیا یا ان کا کیا کردار رہا؟
سوال نمبر ۱۲۔ JTI کی انتہائی اہم شخصیت میاں محمد عارف اور آپ کے درمیان گہرے تعلقات تھے۔ 1976ء میں آپ کے درمیان اہم رابطے ہوئے اور مشاورت ہوئی، آپ کس قسم کی تبدیلی JTI میں چاہتے تھے؟
سوال نمبر ۱۳۔ JUI اور مولانا سعید احمد رائے پوریؒ JTI کی سرپرستی کے دعوے دار تھے، حقیقت کیا تھی؟
سوال نمبر ۱۴۔ مولانا سعید احمد رائے پوریؒ اور حضرت درخواستیؒ کے درمیان وجہ تنازعہ کیا تھی؟
سوال نمبر ۱۵۔ مرکزی صدر محمد اسلوب قریشی کی آپ کی نظر میں کیا کارکردگی تھی، کیا انہوں نے اپنی جماعتی ذمہ داریاں دستور کے مطابق ادا کیں؟
سوال نمبر ۱۶۔ آپ نے پہلے مفتی محمودؒ اور حضرت درخواستیؒ کے اختلاف پر مفتی محمودؒ کا ساتھ دیا، بعد ازاں مولانا سمیع الحق گروپ میں فعال کردار ادا کیا، اب پاکستان شریعت کونسل بنا لی، کیوں؟
سوال نمبر ۱۷۔ آپ ’’ترجمان اسلام‘‘ کے ایڈیٹر تھے جسے آپ سے لے کر JTI کے حوالے کیا گیا، کیوں؟ تفصیلات کیا تھیں؟
سوال نمبر ۱۸۔ 1976ء میں JTI کے انتشار کے بعد آپ کے خیال میں JTI کا ماضی، حال اور مستقبل کیا ہے؟
سوال نمبر ۱۹۔ کیا مستقبل میں کوئی ایسی کوشش ہو سکتی ہے کہ JTI کے حالات پر 1976ء پر چلے جائیں؟
سوال نمبر ۲۰۔ کیا یہ درست ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام اور مدارس عربیہ میں موروثیت عروج پر ہے؟
سوال نمبر ۲۱۔ آپ کی تصانیف کون کون سی ہیں، ان میں اہم موضوعات کونسے ہیں؟
سوال نمبر ۲۲۔ کیا آج بھی کوئی ایسی صورت بنتی ہے کہ پرانے اور نئے ساتھیوں کو کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جا سکے؟
سوال نمبر ۲۳۔ آپ مرکزی ناظم انتخابات تھے، رحیمیہ والوں کا اعتراض آپ نگرانی 100 کے قریب ووٹ جعلی تھے۔ قاری نور الحق قریشی کو دانستہ طور پر ناظم چنوایا گیا۔
مولانا زاہد الراشدی کے جوابات
سوال نمبر ۱ و ۲۔ جمعیۃ طلباء اسلام کے ساتھ میرا تعلق طالب علمی کے زمانے سے ہوگیا تھا۔ میں اس سے قبل جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ 1962ء سے وابستہ تھا، گوجرانوالہ شہر کا سیکرٹری اطلاعات اور سرگرم کارکن تھا۔ جمعیۃ طلباء اسلام قائم ہوئی تو میں اس کے گوجرانوالہ یونٹ کا نائب صدر بنا۔ مولانا حافظ عزیز الرحمنؒ صدر تھے اور میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم سیکرٹری تھے۔ جمعیۃ طلباء اسلام میں باقاعدہ شامل ہونے پر میں نے جمعیۃ علماء اسلام کے سیکرٹری اطلاعات کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا اور اس کا اخبارات میں اعلان بھی کیا۔ اس کی اخباری خبر پر حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے غالباً قصور میں ایک ملاقات کے موقع پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ یہ ایک تنظیمی سی بات تھی اس کا اخبارات میں اعلان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ میں نے اس پر خاموشی اختیار کر لی اور مثبت یا منفی کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا۔ البتہ طالب علمی کے دور میں جمعیۃ طلباء اسلام کے ساتھ ہی کام کرتا رہا جبکہ 1969ء میں دورۂ حدیث سے فراغت اور مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی نیابت کا منصب سنبھالنے کے بعد پھر سے جمعیۃ علماء اسلام میں متحرک ہوگیا اور ضلعی سیکرٹری اطلاعات بنا دیا گیا۔ اس دوران لاہور جامعہ رحمانیہ قلعہ گوجر سنگھ میں حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کی سرپرستی میں منعقد ہونے والی جے ٹی آئی کے بھرپور اجلاس میں شریک ہوا، گوجرانوالہ کے متعدد اجتماعات کے انتظام میں شریک رہا اور مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیا جن کی تفصیلات اس وقت ذہن میں نہیں ہیں۔
سوال نمبر ۳۔ 1972ء میں گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر کے بعض اقدامات کے خلاف چلائی گئی تحریک جمہوریت بلکہ اس سے قبل ایوب خان اور یحییٰ خان کے خلاف مختلف مواقع پر جمہوری اقدار کی بحالی کے لیے جدوجہد میں جے ٹی آئی کا سرگرم کردار تھا۔ اور اس کے کارکنوں نے جلسوں اور جلوسوں کے انتظامات کے علاوہ پولیس تشدد اور گرفتاریوں کا بھی سامنا کیا۔ 1974ء کی تحریک ختم نبوت اور 1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں بھی جے ٹی آئی کا نمایاں کردار تھا۔ جلوسوں، جلسوں، گرفتاریوں اور رائے عامہ کو منظم کرنے کے لیے مختلف زاویوں سے اس نے محنت کی اور قربانیاں دیں۔
سوال نمبر ۴۔ میرے نزدیک جی ٹی آئی کی جدوجہد کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس نے کالجز اور مدارس کے طلبہ کو ایک فورم پر مجتمع کر کے مسٹر اور ملا کے فرق کو ختم کرنے کی اپنے وقت میں کامیاب کوشش کی۔ اور کالج و یونیورسٹی کے ماحول میں طلبہ کی سیاست پر اسلامی جمعیۃ طلبہ اور اس کے مقابلہ میں بائیں بازو کی طالب علم تنظیموں کی شدت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشمکش بلکہ تصادم میں تیسرے اور متوازن گروپ کا کردار ادا کیا۔ اس سے اسلام کی ترجمانی کے حوالہ سے اسلامی جمعیۃ طلبہ کی عام طور پر سمجھی جانے والی اجارہ داری کو بریک لگی اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں اور گروپوں کی آزاد خیالی بلکہ آزاد روی کا راستہ بھی روکا جا سکا۔ دائیں بازو اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں میں اس وقت کشمکش اور تصادم کی جو فضا قائم ہوگئی تھی، جے ٹی آئی نے اس میں ’’بیلنس پاور‘‘ کا کردار ادا کیا جسے خدا جانے کس کی نظر لگی کہ وہ اپنا یہ کردار زیادہ دیر تک جاری نہ رکھ سکی۔
سوال نمبر ۵، ۶، ۷۔ جمعیۃ طلبہ اسلام دستوری اور تنظیمی طور پر ایک الگ اور غیر سیاسی تنظیم تھی جس کا دائرہ کار بھی مستقل اور امتیازی تھا۔ البتہ اس کے لیے جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت کی سرپرستی ضروری سمجھی گئی جو عملاً قائم بھی ہوگئی لیکن مسلسل تحریکات میں باہمی میل جول اور مشترکہ اقدامات کی وجہ سے یہ دستوری امتیاز نمایاں نہ رہا اور ’’من توشدم تو من شدی‘‘ کا ماحول قائم ہوگیا۔ اصولی طور پر یہ تعلق سرپرستی کا ہی تھا اور بظاہر استاد شاگرد جیسا تھا مگر عملی ماحول ۔۔۔ سیاسی و دینی تحریکات میں جے ٹی آئی کی مسلسل شرکت اور قربانیوں کے باعث یہ تاثر قائم نہ رہ سکا جس سے اس غلط فہمی نے جنم لیا کہ جے ٹی آئی کی قیادت جے یو آئی کی قیادت کو محض سرپرست سمجھنے لگی، جبکہ جے یو آئی کی قیادت نے اسے اپنی ذیلی جماعت تصور کر لیا۔ اس بنیاد پر باہمی بُعد بڑھتا گیا جسے کم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی اور جے ٹی آئی خلفشار کا شکار ہوگئی۔
جے ٹی آئی کے فکری اور تحریکی رخ کو اپنے مجموعی ماحول اور مفاد کے منافی تصور کرتے ہوئے جے یو آئی کی قیادت نے مداخلت کی۔ میں بھی جمعیۃ علماء اسلام کا ایک سرگرم کردار تھا، اس لیے ظاہر بات ہے کہ میں بھی اس اقدام کا حصہ تھا۔ اسے تنظیمی اور دستوری طور پر محل نظر کہا جا سکتا ہے لیکن ملک بھر کے عمومی ماحول اور جمعیۃ علماء اسلام کے فورم پر دینی و سیاسی تحریکات میں جے ٹی آئی کی مسلسل اور بھرپور شرکت سے قائم ہونے والا تاثر دستوری اور تنظیمی معاملات پر غالب رہا اور:
جہاں تک مسٹر اور ملا کی تفریق کے عود کر آنے کی بات ہے یہاں تک درست ہے کہ اس تفریق کو مٹانے کے لیے جو ایک سنجیدہ کوشش ہوئی تھی اور جس کے اثرات بھی دکھائی دینے لگے تھے، اس کا راستہ رک گیا۔ اس کی ذمہ داری کسی پر بھی ہو بہرحال یہ ایک دینی اور قومی نقصان ہے جس کی تلافی کے لیے اس کے بعد کوئی راستہ بھی اختیار نہیں کیا گیا جو دوہرے نقصان کے مترادف ہے۔
سوال نمبر ۸۔ مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، مولانا مفتی محمودؒ ، اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے مابین اختلافات کو میرے مطالعہ و مشاہدہ کی رو سے دو تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول یہ کہ حضرت مولانا ہزارویؒ دوسری سیاسی پارٹیوں بالخصوص جماعت اسلامی کے ساتھ میل جول کو ایک حد سے زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ جبکہ مولانا مفتی محمودؒ دینی و قومی مقاصد کے لیے دینی و سیاسی جماعتوں کے متحدہ محاذ کے قیام کے ہر دور میں خواہاں رہے ہیں۔ اس کا آغاز ایوب خان مرحوم کے دور میں جمہوری مجلس عمل سے ہوا اور 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد تک پہنچا۔ اس دوران دوسری سیاسی و دینی جماعتوں کے ساتھ نصف درجن سے زیادہ مشترکہ فورم بنے جن میں سے بعض میں حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ بھی وقتی ضرورت سمجھ کر شریک ہوئے مگر یہ بات ایک مستقل پالیسی کے طور پر ان کے لیے قابل قبول نہیں تھی اس لیے وہ اس رخ پر زیادہ دیر تک ساتھ نہیں چل سکے۔
تنظیمی ماحول میں جب مشرقی پاکستان میں حضرت مولانا پیر محسن الدین احمدؒ کی سربراہی میں جمعیۃ علماء اسلام کے قیام کے بعد مرکزی سطح پر ’’کل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام‘‘ تشکیل پائی تو اس کا ناظم عمومی حضرت مولانا مفتی محمودؒ کو منتخب کیا گیا۔ جبکہ یہ حیثیت اس سے قبل جمعیۃ علماء اسلام مغربی پاکستان میں حضرت مولانا ہزارویؒ کو حاصل تھی اور مولانا مفتی محمودؒ مرکزی نائب امیر تھے۔ ون یونٹ کے خاتمہ کے بعد مغربی پاکستان کی سطح پر جمعیۃ علماء اسلام کا وجود ختم ہوگیا اور وہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں تقسیم ہوگئی تو حضرت مولانا ہزارویؒ کی پوزیشن کل پاکستان جمعیۃ میں مولانا مفتی محمودؒ کے نائب کے طور پر ایک مرکزی ناظم کی بن گئی۔ چونکہ دونوں بزرگوں کے سیاسی مزاج اور ترجیحات میں ایک فرق موجود تھا جس کا سطور بالا میں تذکرہ کیا گیا ہے تو عام جماعتی حلقوں میں اس فرق کے اثرات محسوس کیے جانے لگے۔
اسی تسلسل میں جب حضرت مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے تو جمعیۃ کے اندر یہ رجحان سامنے آیا کہ مفتی صاحبؒ کو جماعتی عہدہ چھوڑ دینا چاہیے جو انہوں نے مجلس شوریٰ کے ایک اجلاس کے بعد چھوڑ دیا۔ اور حضرت مولانا ہزارویؒ کو مرکزی ناظم عمومی چن لیا گیا جس پر جمعیۃ کے اندرونی حلقوں میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ حضرت مفتی صاحبؒ اور حضرت مولانا ہزارویؒ کے رجحانات میں فرق کی وجہ سے اس طرح جمعیۃ خلفشار کا شکار ہو جائے گی۔ چنانچہ مجلس عمومی کے اجلاس میں مفتی صاحبؒ کو دوبارہ ناظم بنا دیا گیا، میرے خیال میں یہ بات بھی باہمی بُعد میں اضافہ کا باعث بنی اور پھر فاصلے بڑھتے چلے گئے۔
تیسرا سبب میرے خیال میں یہ ہے کہ صوبہ سرحد میں وزارت اعلیٰ کے حوالہ سے جس طرح بات آگے بڑھی وہ بھی ان اختلافات میں توسیع کی وجہ بن گئی۔ 1970ء کے الیکشن میں جمعیۃ علماء اسلام نے صوبہ سرحد کی اسمبلی میں چند سیٹیں حاصل کیں مگر خان عبد الولی خان اور خان عبد القیوم خان کے مابین سیاسی اختلاف کی شدت کے ماحول میں وہ چار یا پانچ سیٹیں صوبائی حکومت کی تشکیل کے لیے بیلنس پاور اور بادشاہ گر کی حیثیت اختیار کر گئیں۔ خان عبد القیوم خان کی مسلم لیگ اور خان عبد الولی خان کی نیشنل پارٹی دونوں کی یکساں کوشش تھی کہ جمعیۃ علماء اسلام ان کا ساتھ دے تاکہ ان کی حکومت بن جائے یا کم از کم ان کی حریف پارٹی کی حکومت نہ بن سکے۔ دونوں ایک دوسرے سے خائف تھیں جس کی وجہ سے دونوں پارٹیاں ساتھ دینے کی صورت میں جمعیۃ کی ہر شرط ماننے کو تیار تھیں۔ اس کشمکش میں مفتی صاحبؒ کا رجحان واضح طور پر خان عبد الولی خان کی طرف تھا جبکہ مولانا ہزارویؒ خان عبد القیوم خان کے ساتھ کولیشن کے خواہاں تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بات کو شامل کر لیں کہ مفتی صاحبؒ کی پالیسی صوبہ میں حکومت بنانے اور مرکز میں بھٹو حکومت کے مقابلہ میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی تھی۔ جبکہ مولانا ہزارویؒ مرکز میں بھٹو حکومت کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے اور اپوزیشن بالخصوص جماعت اسلامی کے ساتھ کسی قسم کی کولیشن کے حق میں نہیں تھے۔ اس میں ایک اور بات کا اضافہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ اس وقت افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف افغان مجاہدین کی عسکری مزاحمت منظم نہیں ہوئی تھی مگر اس کی شروعات ہو چکی تھی اور اس کے مسلسل آگے بڑھنے کے رجحانات نمایاں تھے۔ اس کے بارے میں مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت درخواستیؒ کا رجحان بالکل واضح تھا کہ وہ اس مزاحمت کے حق میں تھے اور اسے شرعی جہاد سمجھتے تھے۔ جبکہ مولانا ہزارویؒ اس جہاد اور مزاحمت کو سپورٹ کرنے کے حق میں نہیں تھے اور اسے خطہ میں امریکی عزائم کی تکمیل میں معاونت تصور کرتے تھے۔
اس مسئلہ پر حضرت مولانا ہزاروی کے ساتھ میری طویل خط و کتابت ہوئی تھی جس کی میں نے ایک عرصہ تک تاریخی دستاویز سمجھ کر حفاظت کی مگر بدقسمتی سے گزشتہ تین چار سال سے تلاش بسیار اور بار بار تگ و دو کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ خدا جانے وہ اس وقت کہاں اور کس حال میں ہے؟ فیا اسفاہ۔
حضرت مولانا مفتی صاحبؒ اور حضرت مولانا ہزارویؒ کے درمیان اختلافات کی خلیج کو وسیع ہوتے ہوئے میں نے خود دیکھا اور میں نے حضرت مولانا ہزارویؒ کی تمام تر محبت و عقیدت اور ادب و احترام کے باوجود میں اس معاملہ میں حضرت درخواستیؒ اور مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ تھا۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خود میرے ذہنی رجحانات بھی یہی تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ میرے چند بزرگوں مثلاً حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ ، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ ، اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کا ذہنی جھکاؤ بھی اسی طرف تھا۔
سوال نمبر ۹۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کو میں غیر سیاسی شخصیت نہیں سمجھتا اس لیے کہ میں نے ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارا ہے اور بعض اہم قومی مسائل پر ان کی رائے کو ٹھوس اور دو ٹوک پایا ہے جو بعد میں بھی درست ثابت ہوئی۔ ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ صدر ضیاء الحق مرحوم کی کابینہ میں شمولیت کے حق میں نہیں تھے جس کا انہوں نے برملا اظہار کیا تھا لیکن چونکہ یہ فیصلہ ان کی غیر موجودگی میں مرکزی شوریٰ کر چکی تھی اس لیے انہوں نے ناراضگی کے اظہار کے باوجود خاموشی اختیار کر لی تھی۔ اسی طرح کا تاثر مولانا عبید اللہ انورؒ کے بارے میں بھی دیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔ وہ وسیع سیاسی مطالعہ رکھتے تھے اور رائے کا اظہار بھی کرتے تھے۔ مثلاً جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے صدر فضل الٰہی چودھری مرحوم کو سبکدوش کر کے خود صدارت سنبھال لی تو شیرانوالہ لاہور میں ایک صحافی نے حضرت مولانا مفتی محمودؒ سے جو اس وقت پاکستان قومی اتحاد کے صدر تھے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ مفتی صاحبؒ نے اس پر ایک مختصر جملہ کہا کہ ’’یہ روٹین کی کاروائی ہے‘‘۔ اس صحافی کے چلے جانے کے بعد حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ نے مفتی صاحبؒ سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا ہے؟ یہ روٹین کی کاروائی نہیں ہے بلکہ ایسا معاملہ ہوگیا ہے کہ ہاتھوں سے دی ہوئیں گرہیں اب دانتوں سے بھی نہیں کھلیں گی۔
حضرت درخواستیؒ کو حضرت لاہوریؒ کے بعد علماء کرام نے متفقہ طور پر اپنا امیر چنا تھا، ان کا مریدوں کا حلقہ بہت وسیع تھا لیکن ان کے ہاں پیری مریدی کو فروغ دینے یا اسے ایک خانقاہی نظام کے طور پر منظم کرنے کا کوئی نظم اس طرح کا موجود نہیں تھا۔ اور نہ ہی ان کی طرف سے یا ان کے قریبی ساتھیوں کی طرف سے لوگوں کو مرید بنانے کی کوئی مہم چلائی جاتی تھی جیسی کیمپین اور اہتمام ان کے بعض معاصر حلقوں میں صاف دکھائی دیتا تھا۔ اس لیے یہ کہنا کہ حضرت درخواستیؒ نے جمعیۃ کی امارت کو اپنے مریدوں کا حلقہ وسیع کرنے کے لیے استعمال کیا، ایک نیک دل بزرگ کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنے کے ساتھ حقائق کے بھی منافی ہے۔ جبکہ میرے خیال میں اگر حضرت درخواستیؒ پر جماعتی ذمہ داریاں نہ ہوتیں تو ان کے مریدوں کا حلقہ اس سے کہیں زیادہ وسیع اور ان کا خانقاہی سلسلہ بہت منظم اور مربوط ہوتا۔
سوال نمبر ۱۰۔ میرے خیال میں یہ تصور ہی مضحکہ خیز ہے کہ ’’مولانا مفتی محمودؒ مذہبی حلقوں کے ہاتھوں یرغمال بنے‘‘۔ مفتی صاحبؒ خود ایک ممتاز مذہبی راہنما، شیخ الحدیث، استاذ العلماء اور شب زندہ دار بزرگ تھے۔ وہ علمی و دینی معاملات میں علماء کے لیے راہنما کی حیثیت رکھتے تھے اور بہت سے مذہبی مسائل میں ان کی رائے کو ایک معتمد علمی شخصیت کی رائے کے طور پر لیا جاتا تھا۔ اس کی بجائے اگر یہ کہا جائے تو زیادہ قرین قیاس بات ہوگی کہ مولانا مفتی محمودؒ نے اپنی بھاری بھرکم علمی اور مذہبی شخصیت کے باعث ملک کے مذہبی ماحول کو بہت سی تبدیلیوں سے روشناس کرایا۔
حضرت درخواستیؒ کے بارے میں یہ کہنا سراسر زیادتی ہے کہ ان کا مذہبی اثر و رسوخ مولانا مفتی محمودؒ کو جماعت اسلامی کے قریب لانے کا باعث بنا۔ اس لیے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ بہت سے اہم اتحادوں میں شمولیت کے باوجود حضرت درخواستیؒ نے جماعت اسلامی کے ساتھ ہمیشہ اپنا فاصلہ قائم رکھا اور ان کا یہ طرز عمل آخر دم تک سب کے سامنے رہا۔
سوال نمبر ۱۱۔ حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ میرے شیخ و مربی تھے اور مجھے ان کی شفقت اور اعتماد ہمیشہ حاصل رہا ہے۔ وہ جماعتی معاملات میں حضرت درخواستیؒ اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ تھے اور ہر موقع پر انہیں سپورٹ کرتے تھے۔ البتہ اختلافات میں شدت پسندی کے حق میں نہیں تھے اور بزرگوں کا ادب و احترام نہ صرف قائم رکھتے تھے بلکہ اس کی تلقین کیا کرتے تھے۔
سوال نمبر ۱۲۔ میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم میرے طالب علمی کے دور کے ساتھی اور دوست تھے۔ میرا ان کے ساتھ یہ تعلق کم و بیش سبھی مراحل میں قائم رہا۔ اکثر و بیشتر معاملات میں ہم باہمی مشورہ کے ساتھ اپنا موقف اور لائحہ عمل طے کرتے تھے جبکہ بعض معاملات میں ہمارے درمیان اختلاف بھی ہوا۔ 1976ء کے معاملات میں ہم دونوں جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی قیادت کے ساتھ تھے اور حضرت درخواستیؒ اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے موقف اور پالیسی پر عملدرآمد میں ہم دونوں نے بھرپور کوشش کی تھی۔ ہمارا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں تھا، جو کچھ بزرگ طے کرتے تھے ہم اسی پر عمل کرتے تھے۔
سوال نمبر ۱۳۔ جمعیۃ علماء اسلام کے اکابر اور حضرت مولانا سعید احمد رائے پوریؒ ایک دور میں دونوں ہی جمعیۃ طلباء اسلام کے سرپرست تھے اور دونوں کی سرپرستی میں جے ٹی آئی کچھ عرصہ کام کرتی رہی ہے۔ حضرت مولانا رائے پوریؒ کی سرپرستی عملی اور متحرک تھی اس لیے اس کی چھاپ نمایاں تھی لیکن بعض فکری مسائل میں ان کی انفرادی آرا جب سامنے آنا شروع ہوئیں تو فرق و امتیاز نظر آنے لگا۔ وہی معاملات بعد میں فکری اختلافات کا رنگ اختیار کر گئے اور یہ فرق و امتیاز باقاعدہ تفریق میں بدل گیا جو آج سب کے سامنے ہے۔
سوال نمبر ۱۴۔ میرے خیال میں حضرت درخواستیؒ اور مولانا رائے پوریؒ کے درمیان کوئی ایسا تنازعہ موجود نہیں تھا جسے ان کے درمیان شخصی تنازعہ کا عنوان دیا جا سکے۔ حضرت درخواستیؒ اور ان کے رفقاء کی پالیسی ترجیحات سے مولانا رائے پوریؒ کی پالیسی ترجیحات مختلف تھیں جسے حضرت درخواستی کے ساتھ ان کے تنازعہ کا عنوان دینا درست نہیں ہوگا۔
سوال نمبر ۱۵۔ جناب محمد اسلوب قریشی کو میں ایک مخلص، مدبر اور سنجیدہ راہنما سمجھتا ہوں، ان کے بارے میں ہر مرحلہ پر میری رائے یہی رہی ہے۔ اور کسی بھی اختلاف کے باوجود مجھے ان کے خلوص، محنت اور للّٰہیت کے بارے میں بحمد اللہ کبھی تردد نہیں ہوا۔
سوال نمبر ۱۶۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مولانا درخواستیؒ اور مولانا مفتی محمودؒ کے درمیان کوئی ایسا اختلاف ہوا ہو کہ ان میں سے کسی کا الگ طور پر ساتھ دینے کی ضرورت پڑی ہو۔ دونوں بزرگ ہمیشہ اکٹھے رہے ہیں۔البتہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء اسلام جب درخواستی اور فضل الرحمن گروپ میں تقسیم ہوئی تو میں درخواستیؒ گروپ میں تھا اور اس کا ایک فعال کردار تھا۔ لیکن جب ان دونوں گروپوں میں صلح ہوئی اور متفقہ طور پر حضرت درخواستیؒ کو امیر اور مولانا فضل الرحمن کو سیکرٹری جنرل چنا گیا تو میں متحدہ جمعیۃ میں تھا اور اس کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہا۔ اور اب بھی ایک عام رکن کے طور پر اسی جمعیۃ میں ہوں۔ مولانا درخواستیؒ اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان اتحاد کے بعد مولانا سمیع الحق نے سمیع الحق گروپ کے نام سے جمعیۃ علماء اسلام کا جو گروپ قائم کیا میں کبھی اس کا حصہ نہیں رہا۔ پاکستان شریعت کونسل کوئی مستقل جماعت نہیں بلکہ محض ایک علمی و فکری فورم ہے جس میں علمی، نظریاتی اور فکری جدوجہد سے دلچسپی رکھنے والے حضرات شامل ہیں اور ان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہونا شرط نہیں ہے۔
سوال نمبر ۱۷۔ میں ہفت روزہ ترجمان اسلام کا مدیر رہا مگر اس کے انتظامات کو پورا وقت نہ دے سکنے کی وجہ سے بہتر طور پر نہیں چلا سکا تھا اس لیے یہ انتظام جے ٹی آئی کے حوالہ کر دیا گیا تھا جس پر نہ اس وقت مجھے کوئی اشکال تھا اور نہ ہی اب اس کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔
سوال نمبر ۱۸، ۱۹، ۲۲۔ جمعیۃ طلباء اسلام میں خلفشار اور باہمی کشمکش کے باعث ہم دینی مدارس اور کالجوں کے طلبہ کے ایک مشترکہ فورم سے محروم ہوگئے ہیں اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ایک خواب کی جو تعبیر عملاً دکھائی دینے لگی تھی وہ آنکھوں سے اوجھل ہوگئی ہے جسے میں کالتی نقضت غزلھا من بعد قوۃ انکاثا سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔ میرے خیال میں اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی بجائے اس کے وسیع تر نقصانات کو مشترکہ طور پر محسوس کر کے اس کی تلافی کی کوئی صورت نکالنی چاہیے۔ میری رائے یہ ہے کہ پرانے نظریاتی ساتھی کسی وقت اکٹھے ہوں، سر جوڑ کر بیٹھیں اور ماضی کو ضرورت سے زیادہ کریدتے رہنے کی بجائے موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں اور شیخ الہندؒ کے افکار و پروگرام کو بنیاد بنا کر مستقبل کی صورت گری کا کوئی بنیادی خاکہ ضرور تجویز کر دیں۔ خود تو ظاہر ہے کہ وہ اب کچھ نہیں کر سکیں گے مگر نئی نسل کو اپنی راہ متعین کرنے میں کچھ نہ کچھ معاونت مل ہی جائے گی۔
سوال نمبر ۲۰۔ خاندانی موروثیت ہمارے برصغیر کے علمی و روحانی حلقوں میں روایتی طور پر چلی آرہی ہے اور اگر اہلیت ہو تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ البتہ محض خاندانی نسب کو موروثیت کی بنیاد بنانا درست نہیں ہے جو آج کل عام ہو رہی ہے اور اس کے منفی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس کی وجہ پاکستان میں کسی علمی و روحانی مرکزیت کا فقدان ہے جو نگرانی اور راہنمائی کا کردار ادا کر سکے۔ نفسانفسی کا دور ہے اور کسی مرکزیت کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنی اپنی مرکزیت قائم کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
سوال نمبر ۲۱۔ میرا تصنیف و تالیف کا سرے سے ذوق ہی نہیں ہے۔ شروع سے ہی مضمون نویسی کی عادت ہے، مختلف جرائد اور اخبارات میں گزشتہ نصف صدی کے دوران بحمد اللہ تعالیٰ ہزاروں مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں سے بہت سے مضامین اور کالم کتابی مجموعوں کی صورت میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔ جبکہ میرا چھوٹا بیٹا حافظ ناصر الدین ان دنوں ایک مستقل ویب سائٹ zahidrashdi.org پر میرے مضامین مرتب صورت میں پیش کرنے کے لیے محنت کر رہا ہے اور بہت سے مضامین اس ویب سائٹ پر شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مولانا قاری جمیل الرحمن اختر باغبانپورہ لاہور نے میرے منتخب خطبات ’’خطبات راشدی‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں مرتب کر کے شائع کیے ہیں جنہیں دوستوں نے خاصا پسند کیا ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
سوال نمبر ۲۳۔ میں اس قسم کے اعتراضات و الزامات خاموشی کے ساتھ سہہ جانے کا عادی ہوں اس لیے اس پر بھی صرف اتنا ہی عرض کر سکوں گا کہ: