جاہلیتِ قدیمہ اور جاہلیتِ جدیدہ

   
۳۰ نومبر ۲۰۲۳ء

اسلام اور مغرب کی تہذیبی کشمکش کے حوالے سے چند نشستوں سے گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کچھ عرصہ پہلے آسٹریلیا کے ایک سابق وزیر اعظم مسٹر ٹونی ایبٹ کا ایک بیان شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ثقافتیں اور تہذیبیں ایک جیسی نہیں ہوتیں اور مغرب کو آج کی تہذیبی کشمکش میں اپنی برتری ثابت کرنا ہو گی۔ یہ دو جملے ہیں لیکن ان میں ایک طویل داستان ہے، اس حوالے سے میں آپ کے سامنے مجموعی تناظر میں اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے اصولی فرق پر بات کرنا چاہوں گا۔ یہ دونوں تہذیبیں جو اس وقت آمنے سامنے ہیں اور جن کے درمیان انسانی معاشرے میں کشمکش جاری ہے، جسے تہذیبی جنگ یا سولائزیشن وار کہا جاتا ہے، اس کے پس منظر اور موجودہ صورتحال کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مغربی تہذیب جو گزشتہ دو سو برس سے مسلسل پیشرفت اور پیش قدمی کرتی چلی آ رہی تھی اسے اب دفاع کی جنگ بھی لڑنا پڑ رہی ہے کیونکہ اسلامی تہذیب مختلف حوالوں سے انسانی معاشرے میں آہستہ آہستہ دوبارہ اپنا راستہ بناتی جا رہی ہے۔ اس لیے آج مغربی قوتوں کا سب سے زیادہ زور اس بات پر صرف ہو رہا ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی شریعت کو دنیا کے کسی معاشرے میں قدم جمانے کا موقع نہ دیا جائے، کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو مغربی تہذیب کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے وہ ہر حربے اور ہر طرح کی قوت سے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود اسلامی روایات و اقدار دھیرے دھیرے آگے بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہ آج کی کشمکش کا عمومی تناظر ہے اور اس میں آسٹریلوی لیڈر کا یہ بیان بہت اہم ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ وہ مغربی تہذیب کو مسلط تو کرتے جا رہے ہیں لیکن اس کی برتری ان سے ثابت نہیں ہو پا رہی، اس لیے انہیں یہ کہنا پڑا ہے کہ مغرب کو اس حوالے سے کام کرنا ہو گا۔

میرا تو اس بات پر یقین ہے کہ اسلامی تہذیب کی پیش قدمی اور مغربی تہذیب کی پسپائی کا عمل شروع ہو چکا ہے، جو کہ صحیح طریقوں سے بھی ہو رہا ہے اور کچھ غلط طریقوں سے بھی، لیکن فی الحال اس بحث میں پڑنے کی بجائے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب میں کیا فرق ہے اور یہ تہذیبی کشمکش کن معاملات میں ہے؟ اس وقت جو صورتحال ہے اس کا پس منظر کیا ہے؟ اور اسلامی معاشرت کے فروغ و قیام سے موجودہ انسانی معاشرے میں جو تبدیلیاں آئیں گی وہ کس نوعیت کی ہوں گی؟ مختصر طور پر دیکھیں تو جس ماحول کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تئیس سالہ محنت کے ساتھ تبدیل کیا تھا اور جن اقدار سے آپؐ نے اس وقت کے معاشرے کو نجات دلائی تھی، آج ہمیں پھر انہی اقدار اور اسی طرح کے معاشرتی ماحول سے واسطہ ہے اور ہماری جنگ بھی وہی ہے۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منٰی کے میدان میں حجۃ الوداع کے خطبہ میں یہ ارشاد فرمایا تھا ’’کل امر الجاہلیۃ موضوع تحت قدمی‘‘ کہ جاہلیت کی ساری قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ گویا نبی اکرمؐ جاہلیت کے دور کو ختم کر کے انسانی معاشرہ کو علم کی روشنی اور عدل و انصاف کی طرف لے کر چل پڑے تھے۔ ہمارے ہاں اسے حدِ فاصل سمجھا جاتا ہے کہ اس سے پہلے کے زمانے کو ہم دورِ جاہلیت کہتے ہیں اور اس کے بعد علم اور روشنی کا دور کہلاتا ہے۔ لیکن وہ جاہلی قدریں جن کے بارے میں آپؐ نے مذکورہ ارشاد فرمایا ذرا ان پر ایک نظر ڈال لیں کہ وہ کیا تھیں، اور اس حوالے سے آج ہمارے معاشرے کی صورتحال کیا ہے؟

  1. سب سے پہلی جاہلی قدر جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کیا وہ بت پرستی اور شرک و کفر تھا۔ آپؐ نے جب اپنی نبوت کے آغاز میں صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا تھا ’’یا ایہا الناس قولوا لا الٰہ الا اللہ تفلحوا‘‘ تو اس وقت جزیرۃ العرب میں ہر طرف بت ہی بت تھے۔ اور جس جگہ آپ یہ اعلان فرما رہے تھے وہیں صفا اور مروہ پہاڑیوں پر اساف اور نائلہ کے بت کھڑے تھے، جبکہ بیت اللہ کے اندر اور اس کے اردگرد سینکڑوں بت موجود تھے۔ لیکن اس کے بائیس تئیس سال بعد جب حضور نبی کریمؐ اس صفا پہاڑی سے چند میل کے فاصلے پر منٰی میں کھڑے ہو کر جاہلی اقدار کے خاتمے کی بات فرما رہے تھے تو اس وقت پورا جزیرۃ العرب بت پرستی اور بتوں سے پاک ہو چکا تھا۔
  2. جاہلی اقدار میں ایک قدر رنگ، نسل، زبان اور علاقہ کا تفاخر تھی ۔ عربی، عجمی، قریشی، غیر قریشی، ایرانی، رومی وغیرہ قوموں اور زبانوں کا امتیاز و تفاخر عروج پر تھا۔ نسلی حوالے سے صورتحال یہ تھی کہ قریشی اور غیر قریشی کا خون برابر نہیں سمجھا جاتا تھا۔ کسی غیر قریشی کے ہاتھوں قریشی قتل ہوتا تو جواب میں دو قتل کیے جاتے تھے، لیکن اگر قریشی کے ہاتھوں غیر قریشی قتل ہوتا تو قصاص کا قانون نافذ نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح عربوں کو اپنی زبان پر اتنا فخر تھا کہ غیر عرب کو عجمی کہا جاتا تھا جس کا معنیٰ گونگے کے ہیں یعنی جس کی کوئی زبان نہیں ہے۔ تفاخر، تعلی اور تکبر کی اس جاہلی قدر کو آپؐ نے صرف ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ عملاً‌ ختم کر کے دکھایا۔

    فتح مکہ کے موقع پر جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا نظم سنبھال کر اسے بتوں سے صاف کیا تو یہ ایک تاریخی مرحلہ تھا۔ آپؐ نے سب سے پہلی اذان کے لیے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کعبہ کی چھت پر چڑھایا تو ان کی اللہ اکبر کی صدا مکہ مکرمہ کی فضاؤں میں گونجی، جسے میں یوں تعبیر کیا کرتا ہوں کہ حضرت بلالؓ نے صرف اذان نہیں دی بلکہ کالے اور گورے، قریشی اور غیر قریشی، عرب اور عجم کے فرق کو اپنے پاؤں کے نیچے مسل کر رکھ دیا۔ اسی موقع پر قریش کے ایک سردار نے یہ منظر دیکھ کر اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے اور اس کا یہ تاریخی جملہ سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے کہ اس نے اپنے باپ کو مخاطب کر کے کہا ’’اے میرے باپ! تو کتنا خوش قسمت ہے کہ یہ منظر دیکھنے سے پہلے دنیا سے چلا گیا ہے‘‘۔

  3. ان جاہلی اقدار میں سے ایک نومولود بچیوں کو عار اور شرمندگی کے سبب زندہ درگور کرنے کی قدر بھی تھی۔ آج جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کو کیا دیا ہے؟ تو میں کہتا ہوں کہ عورت کو اسلام نے سب سے پہلا حق زندگی کا دیا ، ورنہ عرب کا ماحول کیا تھا؟ قرآن مجید اس کی منظر کشی یوں کرتا ہے ’’واذا بشر احدہم بالانثیٰ ظل وجہہ مسودا وہو کظیم یتواریٰ من القوم من سوء ما بشر بہ‘‘ کہ بچی کی بشارت سن کر اس کے باپ کا چہرہ سیاہ ہو جاتا تھا اور وہ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا تھا، اور اس کے لیے دو ہی راستے ہوتے تھے کہ ’’ایمسکہ علیٰ ہون ام یدسہ فی التراب‘‘ اس معصوم جان کو مٹی میں زندہ دبا دے، یا ذلت کے ساتھ اسے برداشت کرے۔ یہ اس دور کے کلچر کا حال ہے جبکہ زندہ درگور کرنے کا یہ سلسلہ آج بھی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ وہ بچی پیدا ہونے کے بعد قتل کرتے تھے، آج کل پیدا ہونے سے پہلے ہی الٹرا ساؤنڈ سے معلوم ہونے پر قتل کر دی جاتی ہے۔

    قرآن مجید نے لڑکی کو زندہ دفن کرنے کے دو اسباب بیان کیے ہیں۔ ایک فاقے کے ڈر سے کہ اسے پالے گا کون؟ اور دوسرا یہ کہ لوگ اسے لڑکی کا باپ کہہ کر بلائیں گے جو کہ اس زمانے عار کی بات تھی۔ اور یہ بات جاہلیتِ جدیدہ میں بھی ہے، مغرب میں بھی اور ہمارے پڑوس بھارت میں بھی اسقاطِ حمل کی قدر نے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے۔ جاہلیتِ قدیمہ میں چونکہ انہیں پیدائش سے پہلے پتہ نہیں چلتا تھا کہ لڑکا ہے یا لڑکی، جبکہ آج کل الٹراساؤنڈ کی سہولت موجود ہے۔

    مغربی معاشروں میں تو یہ بات مطلقاً‌ ہے کہ وہاں بچے اور بچی کی تمیز نہیں ہے، چونکہ زنا عام ہے تو ہر عورت کو اسقاطِ حمل کا حق حاصل ہے، چنانچہ ہزاروں بچے اس حق کی بنیاد پر قتل کر دیے جاتے ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ اور عالمی ادارے دنیا بھر سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ عورت کو اسقاطِ حمل کا غیر مشروط حق دیا جائے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ زنا عام ہو رہا ہے۔ ہم تو اس کی مخالفت کر ہی رہے ہیں، پاپائے روم بھی اسقاطِ حمل کے مطلق حق کے لیے قانون سازی کی مخالفت کر رہے ہیں کہ یہ انسانی جان کا قتل ہے۔ ہمارے ہاں چار ماہ کے حمل والے بچے میں جان پڑ جانے کے بعد اسقاطِ حمل کرنا قتلِ نفس شمار ہوتا ہے، جس پر جناب نبی اکرمؐ نے دیت کا حکم دیا تھا۔ بہرحال آج دنیا میں یہ مطالبہ ہے کہ اس کے لیے قانون سازی کی جائے اور ہر عورت کو حمل گرانے کا غیر مشروط حق دیا جائے۔ مغرب میں ’’خشیۃ املاق‘‘ اس کی ایک وجہ ہے کہ اسے کون پالے گا؟ کیونکہ عموماً‌ یہ پتہ چلانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ بچہ ہے کس کا۔

    ہمارے پڑوس بھارت میں اسقاطِ حمل کا بڑا سبب یہ ہے کہ بچی کی پیدائش کو عار سمجھا جاتا ہے اور یہ بھارتی معاشرہ کے بڑے مسائل میں سے ہے۔ بھارت کے ایک سابقہ وزیر اعظم جناب من موہن سنگھ نے اس مسئلہ پر باقاعدہ کانفرنس کی تھی اور کہا تھا کہ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ لڑکی بھی خدا کی مخلوق ہے اور انسان ہے، اسے بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔ چند سال پہلے ایک بھارتی اخبار میں ایک کارٹون دیکھا جو اس صورتحال کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک کلینک میں ایک حاملہ عورت اسقاطِ حمل کے لیے بیٹھی ہے، ڈاکٹر اس کی تیاری کر رہا ہے، جبکہ عورت کے پیٹ سے بچی کی آواز آ رہی ہے کہ انکل ڈاکٹر! مجھے زندہ رہنے دو، میں تمہیں ماں سے زیادہ فیس ادا کروں گی۔

    جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو زندگی کا حق دیا۔ آپؐ نے خود چار بیٹیاں پالیں اور ان کی شادیاں کیں۔ آپؐ نے عورت کو احترام اور تقدس عطا کیا، اور فاقے یا عار کے سبب بچی کو زندہ درگور کرنے کی جو جاہلی قدر تھی وہ آپؐ نے مٹا ڈالی۔ ایک عرب سردار سے کسی نے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو اسے یہ بات پسند نہ آئی، اس نے آنے والے کو اشعار میں جواب دیا جن کا ایک مصرعہ یہ ہے ’’غدا الناس مذقام النبی الجواریا‘‘ کہ جب سے یہ نبی آیا ہے دنیا میں ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہو گئی ہیں، یعنی میں اگر رشتہ نہیں دوں گا تو تمہیں کہیں اور سے مل جائے گا۔

  4. سود بھی ان جاہلی اقدار میں سے تھا جسے قرآن مجید نے بنی اسرائیل کے ملعون ہونے کے اسباب میں ذکر کیا ہے ’’واخذہم الربوا وقد نہوا عنہ‘‘ کہ انہوں نے سود کھانا شروع کر دیا حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا۔ چنانچہ سود قوموں کے لیے لعنت و نحوست کا سبب ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع پر یہ اعلان فرمایا کہ آج کے بعد سود کا لین دین نہیں ہو گا۔ آپؐ نے اس کا آغاز اپنے گھر سے کیا کہ اپنے چچا حضرت عباسؓ کو اپنے ساتھ کھڑا کیا، جو سود کا کاروبار کیا کرتے تھے، آپؐ نے فرمایا کہ میرے چچا کی رقمیں جن لوگوں کے ذمے ہیں وہ اصل رقم بغیر سود کے واپس کریں گے۔ حتیٰ کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی مملکت میں رہنے والے غیر مسلموں کے ساتھ بھی یہ طے کیا کہ وہ سودی کاروبار نہیں کریں گے۔ بعض لوگوں کو مغالطہ ہوتا ہے کہ غیر مسلموں پر سود کی حرمت کا اطلاق نہیں ہوتا، حالانکہ نجران کے عیسائیوں کے ساتھ نبی اکرمؐ نے جو معاہدہ کیا تھا اس کی ایک شق یہ تھی کہ ان میں سے کوئی سود کا کاروبار نہیں کرے گا، اور اگر کسی ذمہ دار شخص نے سود کا لین دین کیا تو معاہدہ ختم ہو جائے گا۔
  5. دورِ جاہلیت میں حلال و حرام کا کوئی فرق نہیں تھا، لوگوں نے اپنے اپنے ضابطے بنا رکھے تھے اور دوسروں کا مال ہضم کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تراش لیے تھے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق حلال و حرام اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے ہیں جن میں کسی کو رد و بدل کا اختیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جسے حلال کیا ہے وہ قیامت تک حلال رہے گا اور جسے حرام کہہ دیا ہے وہ ہمیشہ حرام رہے گا۔ جناب نبی اکرمؐ نے کھانے پینے، لین دین اور دیگر معاملات میں حلال و حرام کے مکمل ضابطے دیے اور فرمایا کہ حرام کھانے والے اور حرام طریقہ سے دوسروں کا مال کھانے والے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔
  6. اس معاشرے میں ایک جاہلی قدر جوا کھیلنے کی بھی تھی۔ حرم پاک میں مذہب کے نام پر اور مذہبی قدر کے طور پر جوا کھیلا جاتا تھا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جب جناب نبی اکرمؐ نے بیت اللہ کے اندر بت توڑے تو وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بت بھی تھے اور ان کے ہاتھوں میں لاٹری اور جوئے کے تیر تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر لعنت کرے، یہ جانتے ہیں کہ ان باپ بیٹا نے کبھی جوا نہیں کھیلا لیکن بدبختوں نے اپنے جوئے کا جواز فراہم کرنے کے لیے ان کے ہاتھوں میں جوئے کے تیر پکڑا دیے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کا جوا ختم کر کے عرب معاشرے سے یہ جاہلی قدر بھی ختم کر دی۔
  7. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جاہلی قدروں کو مٹایا ان میں ایک قدر شراب تھی، جس کی بتدریج لیکن مکمل طور پر ممانعت کر دی گئی۔ جب آپؐ مبعوث ہوئے تو ہر طرف شراب کا دور دورہ تھا اور اس پر فخر کیا جاتا تھا۔ لیکن جب آپؐ نے شراب کی حرمت کا اعلان کیا تو مدینہ کی گلیوں کی نالیاں شراب سے بھر گئی تھیں اور شراب کے برتن توڑے جا چکے تھے۔
  8. عربوں کے اس معاشرے میں فحاشی و عریانی اس قدر عام تھی کہ بیت اللہ کا طواف بھی عریاں کیا جاتا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ باقی لوگ تلبیہ پڑھتے تھے جبکہ عورتیں یہ پڑھتی تھیں ’’الیوم یبدو کلہ او بعضہ فالذی یبدو فلا احلہ‘‘ کہ آج میرا بدن سارا یا کچھ حصہ ننگا ہے تو کوئی بات نہیں لیکن میں کسی کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس پر میں کہا کرتا ہوں کہ وہ جاہلیت آج کی جاہلیت سے کچھ بہتر تھی کیونکہ جاہلیتِ جدیدہ میں تو دیکھنے کی دعوت بھی شامل ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ لباس اتار کر ننگے طواف کیا کرتے تھے اور ان کی دلیل یہی تھی جو آج کل کے نیچر کلب والوں دیتے ہیں کہ یہ ہماری نیچر ہے کیونکہ ہم ماں کے پیٹ سے ننگے دنیا میں آئے تھے۔ دلیلیں انسان کے پاس بہت ہوتی ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ میں نے ایک عرب عالم سے پوچھا کہ آپ بہت بڑے عالم ہیں لیکن آپ نے داڑھی کیوں نہیں رکھی ہوئی؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم ماں کے پیٹ سے داڑھی لے کر نہیں آئے تھے، داڑھی رکھنا فطرت میں شامل نہیں ہے۔ حضرت درخواستیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اسے کہا کہ پھر دانت بھی نکلوا دیں کیونکہ دانت بھی ساتھ نہیں آئے تھے تو یہ بھی نیچر کے خلاف ہیں۔ اور میں جب یہ بات کرتا ہوں تو اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ بچپن سے لے کر جوانی تک جو تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ ساری مٹا ڈالو کہ یہ نیچر کے خلاف ہیں اور واپس اپنی نیچر والی ابتدائی پوزیشن پر پہنچ جاؤ۔

    قرآن مجید نے عریانی کو روکنے کے لیے دو حکم دیے ’’یدنین علیہن من جلابیبہن‘‘ کہ اپنے اوپر چادریں لٹکا رکھو۔ ’’ولیضربن بخمرہن علیٰ جیوبہن‘‘ کہ گریبان ڈھانپ کر رکھو۔ چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عریانی کی اس جاہلی قدر کو ختم کیا اور جب آپؐ دنیا سے رخصت ہوئے تو کم از کم جزیرۃ العرب عریانی کے ماحول سے پاک تھا۔

  9. جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب معاشرے سے زنا کی جاہلی قدر کا بھی خاتمہ کیا جو کہ تب قانوناً‌ اور عرفاً‌ جائز تھا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک روایت میں جاہلیت کے دور میں نکاح کی چار قسمیں بیان فرمائی ہیں جو عرف اور تعامل میں جائز سمجھی جاتی تھیں۔ پہلی قسم تو یہی دائمی نکاح کی تھی جو ہمارے ہاں اس وقت ہے۔ دوسری قسم نکاحِ موقت کی تھی جسے متعہ کہتے ہیں یعنی ایک خاص مدت کے لیے جنسی تعلق۔ تیسری قسم نکاح استبضاع کی تھی ، جس کی صورت یہ تھی کہ میاں بیوی اس بات پر متفق ہو جائیں کہ کسی اچھی نسل کا بچہ لینا چاہیے اور مشورہ کر کے عورت اپنے خاوند کی مرضی سے کسی سردار، جرنیل، سخی، یا کسی بڑے نسب والے کے پاس اس سے بچہ حاصل کرنے کے لیے جاتی تھی۔ جیسے ہمارے ہاں گائے بھیجی جاتی ہے کہ فلاں ڈیرے سے اچھا بچہ لے آئے، اسی طرح حمل لینے کے لیے عورت مطلوبہ شخص کے پاس رہتی تھی اور جب تک حمل واضح نہیں ہو جاتا تھا اس کا اپنا خاوند اس کے قریب نہیں جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں میں آج بھی یہ مذہبی طور پر جائز ہے اور یہ رسم نیوگ کے نام سے موجود ہے۔ چوتھی صورت یہ تھی کہ پیشہ ور عورت اپنے گھر کے دروازے پر جھنڈا لگاتی جو اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ یہ عورت قدرِ مشترک ہے اور جس کا جب جی چاہے آ سکتا ہے، چنانچہ لوگ آتے تھے۔

    آج کی جاہلیت میں بھی زنا کی اجازت ہے کہ مرد اور عورت راضی ہوں تو جدید فلسفہ یہ کہتا ہے کہ کوئی حرج نہیں۔ البتہ جب زنا کے نتیجے میں بچہ ہونے کی صورت بن جائے تو کہتے ہیں کہ اسے ختم کر دو، اور عموماً‌ کوئی اس کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس دور میں ایسا نہیں تھا بلکہ مذکورہ روایت کے مطابق اگر ایسی پیشہ ور عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تھا تو اس کے دو طریقے تھے۔ اگر زنا کرنے والوں کی تعداد محدود ہوتی تو انہیں طلب کر کے کسی قیافہ شناس کے ذریعے فیصلہ کروایا جاتا تھا کہ یہ کس کا بچہ ہو سکتا ہے۔ وہ فیصلہ کرتا تھا کہ یہ فلاں کا بچہ ہے اور یہ اس کا فیصلہ قبول کیا جاتا تھا۔ اور اگر تعداد غیر محدود ہوتی تو پھر وہ عورت جرگہ میں خود بتاتی تھی کہ یہ فلاں شخص کا بچہ ہے، چنانچہ اسے قبول کرنا پڑتا تھا اور اس کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی تھی اور اسی سے نسب ثابت ہوتا تھا۔

    مغرب کی صورتحال تو یہ ہے کہ انہیں سنگل پیرنٹ کا قانون بنانا پڑا ہے کہ بچے کے ساتھ باپ کی بجائے ماں کا نام لکھا جائے کیونکہ ہر ماں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بچے کا باپ کون ہے؟ ہمارے ہاں بھی بعض این جی اوز نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان میں سنگل پیرنٹ کا قانون نافذ کیا جائے۔ اس پر میں نے لکھا تھا کہ ہمارے ہاں ہزار میں سے نو سو ننانوے کو معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا باپ کون ہے، عرفاً‌ بھی اور شرعاً‌ بھی، اس لیے یہاں اس قانون کی ضرورت نہیں ہے۔

    چنانچہ زنا ایک جاہلی قدر ہے جسے اسلام نے آ کر ختم کیا اور مرد و عورت کے لیے شرط لگا دی ’’ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسافحین ولا متخذی اخدان‘‘ کہ کسی عورت کو ہاتھ لگانا ہے تو اس کے لیے چار شرطیں ہیں (۱) مالی ذمہ داریاں قبول کی جائیں (۲) گھر بسانا مقصد ہو (۳) صرف خواہش پوری کرنا مقصد نہ ہو (۴) ’’ولا متخذی اخدان‘‘ اور ’’ولا متخذات اخدان‘‘ یہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا چکر نہ ہو بلکہ نکاح ریکارڈ پر ہو اور لوگوں کو پتہ ہو کہ یہ میاں بیوی ہیں۔ باقی جنسی تعلقات کی جو قسمیں ہیں ان میں یا کوڑے پڑیں گے یا پتھر کیونکہ دائمی نکاح کے علاوہ باقی سب ناجائز ہیں۔

  10. ہم جنس پرستی کی جاہلی قدر تو آج کی سولائزیشن کی ایک بڑی علامت بن چکی ہے حالانکہ قرآن کریم اور بائبل کی بیان کردہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم اسی جرمِ بے حیائی کے ارتکاب اور اس پر اصرار کی وجہ سے اس خدائی عذاب کا شکار ہوئی تھی جس کی نشانی آج بھی بحیرۂ مردار کی صورت میں روئے زمین پر موجود ہے اور ہر لمحہ قہرِ الٰہی کی یاد دلا رہی ہے۔ جبکہ آج کی تہذیب نے انسانی معاشرہ کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ بہت سے ملک اس لعنتی عمل کو انسانی حقوق میں شمار کرنے کی جدوجہد میں شریک ہیں، اور بیشتر مغربی ممالک میں تو ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور مرد کی مرد سے اور عورت کی عورت سے شادی کو میاں بیوی کی حیثیت اور مراعات حاصل ہیں۔
  11. عرب معاشرے میں ناچ گانے کی محفلیں روز مرہ زندگی کا حصہ اور تفریح کا ایک بڑا ذریعہ تصور ہوتی تھیں، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں قرآن کریم کی دعوت کا سلسلہ شروع کیا تو اس سے توجہ ہٹانے کے لیے خاص طور پر ناچ گانے کی محفلیں سجائی گئیں جسے قرآن کریم نے ’’لہو الحدیث‘‘ کہا ہے، اور ان محفلوں کے ذمہ دار کے طور پر نضر بن حارث کا نام روایات میں آتا ہے۔ جناب نبی اکرمؐ نے معاشرے کو ناچ گانے کو جاہلی اقدار میں شمار کرتے ہوئے اس کی مروجہ صورتوں سے نجات دلائی۔
  12. اس معاشرے میں انتقام در انتقام کی رسم چلی آ رہی تھی کہ کسی بات پر ایک قبیلے کا کوئی شخص قتل ہوتا تو اس کے جواب میں دوسرے قبیلے کا قتل ہوتا، اس طرح یہ سلسلہ چل نکلتا۔ ’’حرب بعاث‘‘ دو قبیلوں کی ایک مشہور جنگ تھی جو ایک سو بیس سال چلتی رہی۔ کہتے ہیں کہ بات یہاں سے شروع ہوئی کہ کسی آدمی کے درخت پر کبوتری نے گھونسلا بنا رکھا تھا جس میں انڈے تھے، کسی نے اسے پتھر مار کر گھونسلہ اور انڈے توڑ دیے۔ پہلے آدمی نے پتھر مارنے والے کو قتل کر دیا، بس پھر دونوں کے قبائل کے درمیان ایک سو بیس سال تک جنگ رہی۔ نبی اکرمؐ نے اس باہمی قتل و قتال کا ذکر کر کے فرمایا ’’لا ترجعوا بعدی ضلالاً‘‘ کہ میرے بعد پھر گمراہی کے دور کی طرف واپس نہ چلے جانا۔
  13. جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ زبان سے رشتے طے ہو جاتے تھے کہ یہ میرا باپ ہے، یہ میرا بیٹا ہے، یہ میرا بھائی ہے، یہ زبان سے اور معاہدے سے رشتہ دار بننے کو اس معاشرہ میں تسلیم کیا جاتا تھا، اور آج بھی بہت سے معاشروں میں اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ جناب نبی اکرمؐ نے اعلان فرما دیا کہ رشتہ صرف نسب سے ہو گا اور سخت الفاظ میں منہ بولے رشتوں سے ممانعت فرما دی۔
  14. زمانۂ جاہلیت میں کہانت اور نجوم کا کاروبار کھلے بندوں ہوتا تھا، ستاروں کی چال سے لوگ قسمت کا حال دریافت کرتے تھے، زائچے بنوا کر مستقبل کی خبریں معلوم کرتے تھے اور کاہنوں کے مشوروں سے اپنے پروگرام ترتیب دیا کرتے تھے، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گوارا نہ کیا اور معاشرے سے اس کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا۔

میں نے ان جاہلی اقدار کی ایک فہرست شمار کی ہے جن کے بارے میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا ’’کل امر الجاہلیۃ موضوع تحت قدمی‘‘ کہ جاہلیت کی ساری قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ ان میں سے جن قدروں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں بت پرستی، نسل پرستی، زبان اور رنگ کا تفاخر، اسقاطِ حمل، عریانی اور فحاشی، شراب، ناچ گانا، زنا، سود، جوا، ہم جنس پرستی، باہمی قتل و قتال، کہانت اور منہ بولے رشتے وغیرہ شامل ہیں۔ اس سے میرا مقصد اس وقت کی جاہلی تہذیب اور آج کی جاہلی تہذیب کی مماثلت بتانا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اقدار مٹائی تھیں وہ سب کی سب آج کی مغربی تہذیب اور ہمارے معاشروں میں موجود ہیں۔ اور میرا مغربی تہذیب کے علمبرداروں سے سوال ہوتا ہے اور میں جاہلیتِ جدیدہ سے پوچھا کرتا ہوں کہ سولائزیشن اور جدید تہذیب کے نام پر تم نے کون سی قدر کا اضافہ کیا ہے؟ جناب نبی اکرمؐ نے جو قدریں مٹائی تھیں ان کے علاوہ تم نے اور کیا متعارف کرایا ہے؟

  • آج شراب، عریانی و فحاشی اور زنا کو ثقافت اور تمدن کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
  • سود اور جوئے کو کاروبار اور ترقی کا عنوان دیا جا رہا ہے،
  • اسقاطِ حمل اور ہم جنس پرستی کو انسانی حقوق میں شمار کیا جا رہا ہے،
  • نسل پرستی اور زبان و رنگ کے تفاخر کی بنیاد پر گروہ بندی کا سلسلہ ہر جگہ موجود ہے،
  • اور باہمی قتل و قتال اور دنیا میں مختلف تنازعات کے حوالے سے ہونے والی جنگیں تو آپ کے سامنے ہی ہیں۔

میرا مغربی تہذیب کے علمبرداروں سے یہ سوال ہوتا ہے کہ تم کون سی نئی قدر لائے ہو؟ یہ ساری قدریں اور روایات تو جاہلیتِ قدیمہ کی ہیں جنہیں ایک بار اسلام مٹا چکا ہے اور ایک بار پھر اس کی تیاری میں ہے اور وہ وقت دور نہیں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ آج مغرب نے ان سب جاہلی قدروں کو بیوٹی پارلر سے گزار کر اور میک اپ کر کے نئی تہذیب کے طور دنیا میں رائج کیا ہے، مغرب کا یہ کمال ہم مانتے ہیں کہ وہ بہت اچھا بیوٹی پارلر ہے لیکن اس کی متعارف کردہ تہذیب میں کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ سب وہی جاہلی قدریں ہیں۔

میں نے آسٹریلوی وزیر اعظم صاحب کی اس بات کا خیرمقدم کیا کہ مغرب کو اپنی تہذیبی برتری ثابت کرنا ہو گی، لیکن اس کے لیے یکطرفہ پراپیگنڈا، مداخلت اور دھاندلی نہیں چلے گی بلکہ یہ کام آزادانہ مقابلہ کے ماحول میں ہونا چاہیے۔ میرا دعویٰ ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اسلامی شریعت اور اقدار و روایات کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیں پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ کون سی تہذیب بہتر ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter