حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کا اسوۂ حسنہ

   
۶ مارچ ۲۰۰۱ء

یوں تو تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والتسلیمات کی مبارک زندگیاں پوری نسل انسانی کے لیے مشعل راہ اور اسوۂ حسنہ ہیں لیکن سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بعد قرآن کریم میں جس شخصیت کی زندگی اور کردار کو بطور خاص اسوۂ حسنہ کہا گیا ہے وہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔ جن کے بارے میں سورۃ الممتحنہ میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ تمہارے لیے حضرت ابراہیمؑ اور ان کے رفقاء کی زندگیوں میں اسوۂ حسنہ (عمدہ نمونہ) ہے۔ اور اس تلقین کے ساتھ ان کے کردار کے جس پہلو کو اہمیت کے ساتھ اسی سورۃ میں اجاگر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے قوم کے اجتماعی کفر اور اس کفر پر ڈٹ جانے والوں سے واضح طور پر برأت کا اعلان کیا، اور اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی بھی بندگی و اطاعت کی جاتی تھی ان سب معبودوں اور خود ساختہ خداؤں سے بے زاری کا اظہار کرتے ہوئے قوم پر واضح کر دیا کہ جب تک تم ان جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر ایک اللہ کی بندگی اور اطاعت پر نہیں آجاتے تمہارے ساتھ ہمارا دوستی کا تعلق قائم نہیں ہو سکتا۔ اور نہ ہی ہم تمہارے اس نظام کو کسی حالت میں قبول کر سکتے ہیں۔ یہ سورۃ الممتحنہ کی اس آیت کریمہ کا مختصر مفہوم ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو اسوۂ حسنہ قرار دے کر مسلمانوں کو ان کی پیروی کی تلقین کی گئی ہے۔

حضرت ابراہیمؑ اللہ تعالیٰ کے وہ جلیل القدر پیغمبر ہیں جن کی یاد مختلف حوالوں سے ہر سال پوری دنیا میں منائی جاتی ہے اور چونکہ ملت اسلامیہ حضرت ابراہیمؑ کے مشن اور دین کی اصل وارث ہے اس لیے حضرت ابراہیمؑ اور ان کے خاندان کی روایات کو زندہ رکھنے اور ان کی پیروی کرنے کا اہتمام بھی سب سے زیادہ وہی کرتی ہے۔

  • بیت اللہ شریف کا طواف کیا جاتا ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیلؑ نے تعمیر کر کے وادی مکہ کو ایک بار پھر آباد کیا،
  • صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی جاتی ہے جہاں حضرت ابراہیمؑ کی اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ ہاجرہؓ نے اپنے شیرخوار پیاسے بچے حضرت اسماعیلؑ کے لیے پانی کی تلاش میں چکر کاٹے تھے،
  • مقام ابراہیمؑ میں دو رکعت نفل ادا کر کے حضرت ابراہیمؑ کی یاد تازہ کی جاتی ہے،
  • اور سب سے بڑھ کر منیٰ میں لاکھوں جانور ذبح کر کے حضرت ابراہیمؑ کی عظیم قربانی کو یاد کیا جاتا ہے جہاں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر جواں سال بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی گردن پر چھری رکھ کر اپنی طرف سے انہیں قربان کر دیا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے اس عظیم جذبۂ قربانی کو قبولیت سے نوازتے ہوئے چھری سے کاٹنے کی صلاحیت سلب کر لی، حضرت اسماعیلؑ زندہ رہے اور قربانی بھی ہوگئی۔ بلکہ ایسی قربانی ہوئی کہ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس کی یاد کو آنے والی نسلوں میں باقی رکھنے کا وعدہ فرما لیا اور اسی وعدۂ خداوندی کے مطابق نہ صرف ہر سال لاکھوں جانور منیٰ میں ذبح ہوتے ہیں بلکہ دنیا میں کروڑوں جانور حضرت اسماعیلؑ اور ان کے عظیم المرتبت باپ کی اس عظیم قربانی کی یاد میں قربان ہو جاتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ہم نے انہیں مختلف آزمائشوں میں ڈالا اور جب وہ ہر امتحان و آزمائش میں کامیاب ہوئے تو ہم نے انہیں نسل انسانی کا امام بنا دیا۔ اور یہ ان کی امامت ہی کا اظہار ہے کہ ہر آسمانی مذہب کے پیروکار خود کو حضرت ابراہیمؑ سے منسوب کرنے میں فخر محسوس کرے ہیں۔ یہودی خود کو ابراہیمی کہتے ہیں اور عیسائیوں کا دعویٰ بھی یہی ہے۔ حتیٰ کہ مشرکین عرب بھی ابراہیمی کہلاتے تھے اور انہوں نے خانہ کعبہ میں پرستش کے لیے جو بت نصب کر رکھے تھے ان میں حضرت ابراہیمؑ کا مجسمہ بھی تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کرم میں ان سب دعوؤں کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت ابراہیمؑ مشرک اور بت پرست نہیں تھے بلکہ مؤحد اور بت شکن تھے، اس لیے ان کے دین کے وارث مسلمان ہیں جو بت پرستی سے نفرت کرتے ہیں اور توحید خداوندی کے علمبردار ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانیوں اور آزمائشوں میں ایک بڑی آزمائش یہ تھی جس کا ذکر قرآن کریم نے تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ وہ ظلم، کفر اور شرک پر قائم سوسائٹی اور قوم کے خلاف تن تنہا کھڑے ہوگئے اور توحید خداوندی کا پرچم بلند کیا۔ ان کی دعوت صرف سمجھانے تک محدود نہیں رہی بلکہ قوم کے اجتماعی کفر کو کھلے بندوں چیلنج کیا، انہیں لاجواب کیا اور خود اپنی قوم کے بت خانے میں گھس کر بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ قرآن کریم حضرت ابراہیمؑ کی اس بت شکنی کے بعد قوم کی پنچائیت کے سامنے ان کی پیشی کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ جب قوم کے سرداروں نے سوال کیا کہ اے ابراہیمؑ! ہمارے خداؤں کا یہ حشر تم نے کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کے درمیان یہ بڑا بت جو سلامت کھڑا ہے اس نے کیا ہوگا، اور تم خود ان سے ہی کیوں نہیں پوچھ لیتے کہ ان کا یہ حشر کس نے کیا ہے؟ پنچائیت والوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اور سب کے سب سر جھکائے یہ کہہ رہے تھے کہ اے ابراہیمؑ! تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے یہ خدا کلام نہیں کیا کرتے۔ حضرت ابراہیمؑ کو اسی لمحے کا انتظار تھا، فورًا گویا ہوئے کہ افسوس ہے تم اور تمہارے ان معبودوں پر، کیا اب بھی تم سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہو؟

اور وہ مکالمہ اس سے بھی بڑھ کر تھا جو شاہی دربار میں نمرود کے ساتھ ہوا جو وقت کا بادشاہ تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ خدائی اختیارات اس کے پاس ہیں اور وہ موت و حیات کا مالک ہے۔ مگر جب حضرت ابراہیمؑ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ میرا رب سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے، تیرے پاس اگر خدائی اختیارات ہیں تو سورج کو مغرب سے طلوع کر کے دکھاؤ۔ قرآن کریم کا کہنا ہے کہ نمرود اس سوال پر مبہوت و ششدر ہو کر رہ گیا اورا س کے تمام تر جاہ و جلال، لاؤ لشکر اور کروفر کے باوجود فتح و کامرانی حضرت ابراہیمؑ کے حصے میں آئی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دور مشاہدات و محسوسسات کی زبان کا دور تھا اور ہر بات کو اسی معیار پر سمجھا اور پرکھا جاتا تھا۔ اس لیے انہوں نے اپنی قوم کے عام لوگوں کے سامنے، پنچائیت کے سامنے اور پھر بادشاہِ وقت کے سامنے اسی زبان میں گفتگو کی۔ انہوں نے بتوں کے ٹوٹ جانے اور کلام نہ کرنے کو، ستاروں اور چاند کے ڈوب جانے کو، اور سورج کے مشرق سے طلوع ہونے کے کھلے مشاہدات کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر اپنے استدلال کی بنیاد بنایا اور قوم کے ہر طبقے کو خود اس کی زبان میں لاجواب کر دیا۔ اس دور میں مشاہدات کی زبان کے غلبے کا یہ عالم تھا کہ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق خود حضرت ابراہیمؑ نے بھی اللہ تعالیٰ سے درخواست کر دی کہ وہ انہیں اس بات کا مشاہدہ کرائیں کہ مردوں کو زندہ کیسے کیا جاتا ہے۔

اس لیے جہاں حج، طواف، سعی، قربانی اور مقامِ ابراہیم کے نوافل حضرت ابراہیمؑ کی یاد کو تازہ کرتے ہیں اور ان کے ساتھ نسبت کا اظہار ہیں وہاں کفر و ظلم کے اجتماعی نظام کے خلاف صف آراء ہونا اور منطق و استدلال کے مروجہ اسلوب کو اختیار کر کے کفر و باطل کو لاجواب کرنا بھی سنت ابراہیمیؑ ہے۔ اور قرآن کریم نے اسی سنت ابراہیمیؑ کو سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ اور زیادہ نمایاں کر کے ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter