برما کے مسلمانوں کی حالت زار اور چند دیگر خبریں

   
تاریخ : 
۱۷ جولائی ۲۰۱۲ء

گزشتہ سے پیوستہ کالم میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات کے حوالہ سے میں نے برما کے صوبہ اراکان کے مسلمانوں کی مظلومیت اور کسمپرسی کا ذکر کیا تھا، مولانا نے قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں اس موضوع پر آواز اٹھائی ہے اور حکومت اور میڈیا کو اس اہم مسئلہ کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ برما کے مسئلہ میں دوبئی سے شائع ہونے والے اردو اخبار ہفت روزہ ’’سمندر پار‘‘ کے ۶ تا ۱۲ جولائی ۲۰۱۲ء کے شمارہ میں ایک رپورٹ نظر سے گزری ہے وہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

’’برما میں بوزی قبائل کے دہشت گرد گروپ ماگھ کی جانب سے مسلمان آبادی پر مسلط کی گئی جارحیت میں اب تک کم سے کم ۲۵۰ مسلمان شہید، ۵۰۰ زخمی اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہو گئے ہیں (تازہ اطلاعات کے مطابق شہداء کی تعداد ہزاروں میں ہے)۔ انسانی حقوق کے ایک برمی مندوب محمد نصر نے عرب ٹی وی کو فون پر بتایا کہ مسلمانوں پر مسلط کی گئی جارحیت میں تین سو افراد تاحال لاپتا ہیں جبکہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے والے ہزاروں افراد کو خوراک اور بنیادی اشیا کی قلت کے باعث سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ محمد نصر نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران ماگھ ملیشیا کے دہشت گردوں نے برما میں مسلمانوں کے ۲۰ دیہات اور ۱۶۰۰ مکانات نقشے سے مٹا دیے ہیں جن کے باعث لاکھوں کی تعداد میں شہری نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں، مسلمانوں کی جائیدادوں کو کھلے عام پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماگھ ملیشیا کے حملوں سے مسلمان اکثریتی صوبہ اراکان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کے بعد ہزاروں کی تعداد میں شہری سرحد پار کر کے بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘‘

اراکان مسلم اکثریت کا علاقہ ہے جو ایک دور میں آزاد مسلم ریاست کے طور پر اس خطہ کے نقشہ میں دیکھا جاتا تھا۔ یہ اب میانمار (برما) کا ایک صوبہ ہے جو بودھ اکثریت کا ملک ہے اور اکثریت کے مذہبی تعصب کے ساتھ ساتھ ریاستی جبر کا بھی ایک عرصہ سے سامنا کر رہا ہے۔ اس کی جھلک بنگلہ دیش، پاکستان، سعودی عرب اور دیگر ممالک میں پناہ گزین کے طور پر مقیم لاکھوں اراکانی مسلمانوں کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اوپر پیش کردہ ہفت روزہ سمندر پار کی رپورٹ بھی اسی تسلسل کا ایک حصہ ہے، یہ مظلوم اراکانی مسلمان دنیا بھر کے مسلمانوں کی توجہ اور مدد کے مستحق ہیں ، ان مسلمانوں کی حمایت میں تین طرح سے کام کیا جا سکتا ہے۔

  1. ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف اور ان کے انسانی و شہری حقوق کے حق میں عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے، میڈیا اور لابنگ کے ذرائع استعمال کر کے انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو اس طرف متوجہ کیا جائے اور عالمی رائے عامہ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
  2. اردگرد کے ممالک بالخصوص بنگلہ دیش اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم حکومتوں کا احساس بیدار کرنے کی خاص طور پر محنت کی جائے۔
  3. اور جبر و تشدد کا شکار ہونے والے مسلمانوں اور ان کے خاندانوں کی مدد کی جائے۔ ان کی گھروں میں واپسی اور بحالی کے لیے مالی تعاون کیا جائے اور وہ جہاں بھی مہاجر کے طور پر مقیم ہیں ان کی کفالت کا اہتمام کیا جائے۔

ہفت روزہ سمندر پار کے اسی شمارہ میں شائع ہونے والی ایک اور خبر پر بھی نظر ڈال لیں:

’’امریکی شہر نیویارک میں ایک معروف نیلام گھر کے تحت امریکی صدر کا دستخط شدہ امریکہ میں غلاموں کی آزادی کے قانون کا نایاب و تاریخی مسودہ ۲۰ لاکھ ڈالر سے زائد رقم میں نیلام ہو گیا ہے۔ ۱۸۶۴ء میں پیش کیے جانے والے اس قانونی مسودہ کو اس وقت کے امریکی صدر ابراہام لنکن نے منظور کیا تھا اور اس کی ۴۸ کاپیوں پر دستخط کیے تھے۔ اس قانون کے تحت ۴۰ سے ۵۰ ہزار غلاموں کو اپنے آقاؤں کی جبری غلامی سے آزادی ملی تھی۔ یہ تاریخی مسودہ بارہ لاکھ ڈالر کی ابتدائی بولی کے ساتھ فروخت کے لیے پیش کیا گیا تھا جو کچھ ہی دیر میں بیس لاکھ پچاسی ہزار ڈالر کی قیمت پر نیلام ہو گیا۔‘‘

امریکہ میں غلاموں کا پس منظر یہ ہے کہ یہ سب کے سب سیاہ فام تھے، جو کسی جنگ میں نہیں پکڑے گئے تھے بلکہ انہیں افریقہ سے مزدوری کے لیے امریکہ میں لایا جاتا تھا اور غلام بنا لیا جاتا تھا۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق انہیں غلامی سے نجات ۱۸۶۴ء میں ملی۔ جبکہ شہری حقوق، جن میں ووٹ کا حق بھی شامل ہے، انہیں مارٹن لوتھر کنگ کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ۱۹۶۴ء میں صدر جان ایف کینیڈی کے دستخط سے میسر آئے۔ غلامی کی اس صورت کو بردہ فروشی کہا جاتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’بیع الحر حرام‘‘ کے عنوان سے اب سے چودہ سو سال پہلے اسے ممنوع اور حرام قرار دے دیا تھا۔

ہفت روزہ سمندرپار کے اسی شمارہ کی ایک اور رپورٹ کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔ اس رپورٹ میں مختصر ممالک کے حکمرانوں کی تنخواہوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور عربی اخبار ’’البیان‘‘ کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ

اس وقت دنیا کے حکمرانوں میں سے سب سے زیادہ تنخواہ پانے والی ملکہ برطانیہ ہیں جنہیں سرکاری خزانے سے چھتیس ملین پاؤنڈ سالانہ تنخواہ ملتی ہے۔ دوسرے نمبر پر سنگاپور کے وزیر اعظم ہیں جو تقریبًا سوا دو ملین ڈالر سالانہ تنخواہ لیتے ہیں۔ جبکہ سب سے کم تنخواہ مصر کے نئے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کو ملے گی جو چوبیس ہزار مصری جنیہ مقرر کی گئی ہے، یہ سالانہ چار ہزار امریکی ڈالر بنتی ہے۔ امریکی صدر براک اوباما کی تنخواہ اڑتالیس ہزار ڈالر سالانہ، جرمن جانسلر انجیلا مرکل کی تنخواہ ۲۳ ہزار یورو ماہانہ (دو لاکھ چھہتر ہزار سالانہ)، روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کی سالانہ تنخواہ ایک لاکھ پندرہ ہزار ڈالر، اٹلی کے صدر کی ماہانہ تنخواہ انیس ہزار یورو (دو لاکھ اٹھائیس ہزار سالانہ)، ترکی کے صدر عبد اللہ گل کی تنخواہ تیرہ ہزار ڈالر ماہانہ (ایک لاکھ چھپن ہزار سالانہ)، اور وزیراعظم طیب اردوان کی تنخواہ سات ہزار ڈالر ماہانہ (چوراسی ہزار سالانہ) ہے۔ چین کے صدر کی ماہانہ تنخواہ ستائیس ہزار چینی ین ہے جو بتیس سو باسٹھ امریکی ڈالر کے برابر ہے (تقریبًا انتالیس ہزار سالانہ)۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نے اپنی ماہانہ تنخواہ بیالیس سو امریکی ڈالر (پچاس ہزار چار سو سالانہ) بتائی ہے۔ موریطانیہ کے صدر محمد ولد عبد اللہ تیس ہزار امریکی ڈالر ماہانہ (تین لاکھ ساٹھ ہزار سالانہ) وصول کرتے ہیں۔ الجزائر کے صدر عبد العزیز بوطفلیقہ چودہ ہزار امریکی ڈالر کے برابر ماہانہ (ایک لاکھ اٹھاسٹھ ہزار سالانہ) تنخواہ پاتے ہیں، جبکہ لبنان کے صدر دس ہزار ڈالر ماہانہ (ایک لاکھ بیس ہزار سالانہ) کے لگ بھگ تنخواہ وصول کرتے ہیں۔

اس رپورٹ میں پاکستان کا ذکر نہیں ہے لیکن اس کی شاید ضرورت ہی نہیں، اس لیے کہ سب کو معلوم ہے کہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے حکمرانوں کا گزارہ تنخواہ پر نہیں ہوتا اور وہ صرف جیب خرچ یا ٹوکن منی کے طور پر ہوتی ہے۔ اصل تو ان کے ہمہ نوع اخراجات ہوتے ہیں جن کا تعین وہ خود، ان کی فیملیاں اور دست یار کرتے ہیں اور ادائیگی سرکاری خزانے کے ذمہ ہوتی ہے۔ البتہ ایک چھوٹی سی یاد ذہن میں مداخلت کر رہی ہے جسے سادگی اور بھولپن سے تعبیر کیا جائے گا کہ مولانا مفتی محمودؒ جب صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بنے تو وہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی تھے۔ انہیں قائد حزب اختلاف خان عبد الولی خان مرحوم کی گرفتاری پر قائم مقام حزب اختلاف مقرر کیا گیا۔ مفتی صاحب بعد میں اس عہدے پر ملنے والی مراعات کی رقم لے کر سیدھے عبد الولی خان کے گھر جا پہنچے اور کہا کہ یہ رقم خان صاحب کے حساب میں آئی ہے اس لیے یہ ان کے خاندان کا حق بنتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter