مولانا عبد المتینؒ گوجرخان میں حیات سر روڈ کی جامع مسجد خلفاء راشدینؓ کے نصف صدی سے زیادہ عرصہ خطیب رہے ہیں، ان کا تعلق ہزارہ کے علاقہ بٹگرام سے تھا، ۱۹۳۸ء میں ولادت ہوئی، مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ اشرفیہ لاہور میں حضرت مولانا رسول خانؒ اور حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ سے تلمذ کا شرف حاصل کر کے دورۂ حدیث کی تکمیل کی اور ۱۹۵۸ء میں حضرت مولانا عبد الحکیم ہزارویؒ نے انہیں گوجر خان بھیج دیا جہاں انہوں نے حیات سر روڈ کی مسجد میں ڈیرہ لگایا اور باقی زندگی وہیں بیٹھے ہوئے دینی، مسلکی اور سماجی خدمات میں بسر کر دی۔
حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ جیسے بزرگوں کے ساتھ زندگی بھر تعلق رہا اور وہ انہی کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ مگر یہ رنگ اب کم ہوتے ہوتے ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے فورم پر دینی تحریکات میں سرگرم حصہ لیا اور ان دینی تحریکات کے حوالہ سے میری بھی ان کے ساتھ کافی عرصہ رفاقت رہی۔ تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفیؐ اور تحریک نفاذ شریعت میں ان کے قائدانہ کردار کا پورے علاقہ میں اعتراف و احترام کیا جاتا ہے۔ گزشتہ شب ان کی تعزیت کے لیے مسجد خلفاء راشدینؓ میں منعقد ہونے والے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے گوجرخان کے سابق ایم پی اے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے راہ نما راجہ طارق کیانی نے اس بات کا بطور خاص ذکر کیا کہ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں مولانا عبد المتینؒ کی مدبرانہ قیادت کی وجہ سے تمام طبقات آپس میں متحد ہوگئے تھے اور انتہائی نظم و ضبط اور حوصلہ کے ساتھ مولانا عبد المتینؒ نے اس تحریک کی راہ نمائی کی۔ راجہ طارق کیانی نے بتایا کہ وہ بھی اس تحریک میں شریک ہوئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں جو مولانا عبد المتینؒ کی شاگردی کا فیض تھا۔
گوجرخان میں مولانا عبد المتینؒ کی مقبولیت کی یہ ایک جھلک تھی کہ تعزیتی جلسہ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے راجہ جاوید اخلاص اور پاکستان پیپلز پارٹی کے راہ نما راجہ طارق کیانی، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل عبد الغفور حیدری اور جماعت اسلامی کے ضلعی امیر محترم کے علاوہ مولانا قاضی مشتاق احمد، مولانا عبد الرؤف، مولانا قاری محمد نورین نقشبندی اور مولانا قاری محمد یعقوب اُن کی دینی و سیاسی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرنے میں یک زبان تھے۔
مقررین نے مولانا عبد المتینؒ کی سادگی، قناعت اور جفاکشی کا بطور خاص ذکر کیا جو ہمارے اکابر کا خصوصی ذوق چلا آرہا ہے۔ میں نے بھی اپنی گفتگو کے دوران اس کا ذکر کرتے ہوئے یہ واقعہ سنایا کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطابؓ سے ایک بار جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی أزواج مطہرات نے باہمی مشورہ کر کے ام المؤمنین حضرت حفصہؓ کے ذریعہ بات کی کہ مسلمانوں کی معاشی حالت میں خاصی بہتری آگئی ہے اس لیے وہ بھی اپنے طرزِ زندگی اور معیارِ زندگی میں کچھ تبدیلی لائیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے یہ مختصر سی بات کر کے انہیں خاموش کرا دیا کہ میں اگر اپنے پیش رو دو بزرگوں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ سے مختلف انداز اختیار کر لوں گا تو ان کے ساتھ شمار کیسے ہو سکوں گا؟ ہمارے اکابر کا بھی یہی ذوق رہا ہے مگر آہستہ آہستہ یہ ذوق قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے، اور مولانا عبد المتینؒ اسی رخصت ہوتے ہوئے ذوق و مزاج کی ایک علامت تھے۔