بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا محمد عمر قریشی دامت برکاتہم ہمارے بزرگ اور بڑے بھائی ہیں، شفقت فرماتے ہیں تو حاضری ہو جاتی ہے اور اس مبارک محفل میں حاضری لگ جاتی ہے ۔ اس سے بڑا احسان یہ فرماتے ہیں کہ ان بزرگوں کی زیارت کروا دیتے ہیں جو شاید ہم زندگی بھر نہ کر پاتے۔ حضرت کی مہربانی سے اللہ والوں کی زیارت نصیب ہوئی ہے اور ان کی مجلس میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مجلس کو ہمارے ان بزرگوں کی برکت سے قبولیت سے نوازیں اور برکات اور ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں۔ ایک بچے نے بخاری شریف کی آخری روایت پڑھی ہے اور دوسرے بچے نے مشکوٰۃ شریف ختم کر کے بخاری شریف کا آغاز کرنے کے لیے پہلی روایت پڑھ دی ہے تو سبق ہو گیا ہے۔ سبق اتنا ہی ہوتا ہے کہ روایت پڑھ لی جائے اور سن لی جائے، لیکن بزرگوں کی دعا سے پہلے طالب علمانہ طور پر دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ اصل مخاطب تو یہ بچے ہوں گے، لیکن سب سے بات کر رہا ہوں۔
بخاری شریف کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ حدیث شریف کی کتاب ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے، اس سے کوئی انکار نہیں ہے۔ امام بخاریؒ نے لاکھوں احادیث میں سے بڑی محنت ، عرق ریزی اور صبر و حوصلہ کے ساتھ اس کتاب میں ساڑھے چھ ہزار روایات جمع کی ہیں۔ ویسے تو چار ساڑھے چار ہزار روایات ہیں، تکرار کے ساتھ ساڑھے چھ سے پونے سات ہزار ہو جاتی ہیں۔ ان کے اس انتخاب کو اللہ رب العزت نے بہت قبولیت عطا فرمائی ہے، لیکن میں یہ بات آپ کے ذہن میں تازہ کرنا چاہوں گا، جو کہ آپ نے بخاری شریف کی ابتدا میں پڑھی ہوگی، کہ یہ صرف حدیث کی کتاب نہیں ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے تراجمِ ابواب پر جو رسالہ لکھا ہے وہ اس کتاب میں موجود ہے، اس میں شاہ صاحبؒ نے بخاری شریف کو پانچ علوم کا مجموعہ قرار دیا ہے۔
یہ کتاب التفسیر ہے کیونکہ اس میں قرآن پاک کی آیات کی تفسیر جگہ جگہ بیان کی گئی ہے۔ باضابطہ کتاب التفسیر سے ہٹ کر بھی شاید آپ کو کوئی صفحہ ایسا نہ ملے جس میں روایت کے ساتھ کسی آیت کریمہ کی وضاحت، تشریح اور حوالہ نہ ہو۔ اس لیے شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ بخاری شریف اصلاً کتاب التفسیر ہے۔
پھر شاہ صاحب ؒفرماتے ہیں کہ یہ صرف حدیث کی کتاب نہیں ہے، فقہ کی کتاب بھی ہے۔ روایت پڑھنا، سننا اور سنانا حدیث ہے، اور قرآن پاک سے یا حدیث سے مسئلہ مستنبط کرنا فقہ کہلاتا ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت کرنا قراءت ہے، لیکن قرآن پاک کی کسی آیت سے کوئی مسئلہ مستنبط کرنا کہ اس سے یہ اصول نکلتا ہے، یہ فقہ القرآن ہے۔ اسی طرح حدیث کی روایت پڑھنا، سننا اور سنانا یہ روایت ہے، لیکن حدیث میں سے مسئلہ مستنبط کرنا کہ اس حدیث سے فلاں مسئلہ نکلتا ہے، یہ فقہ ہے ۔ میں اپنے عزیز طلبہ کو اس بات کی طرف میں توجہ دلاؤں گا کہ بخاری شریف کی ترتیب کیا ہے۔ امام بخاریؒ صرف احادیث بیان نہیں کرتے بلکہ اس سے پہلے مسئلہ بیان کرتے ہیں ۔ ایک عنوان قائم کرتے ہیں جس میں ایک مسئلہ بیان کرتے ہیں پھر اس کے مطابق احادیث لاتے ہیں۔ مسئلہ بیان کر کے اس کے دلائل میں احادیث لانا، یہ امام بخاریؒ کی فقہی ترتیب ہے۔
اس کے ساتھ ایک اور نکتہ ذہن میں رکھ لیں کہ تکرار کے بغیر بخاری شریف کی روایات ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ ہیں، اور تکرار کے ساتھ سات ہزار کے لگ بھگ ہیں۔ دراصل یہ تکرار حدیثوں کا نہیں بلکہ عنوانات کا ہے۔ بخاری شریف میں مسائل کی وجہ سے تکرار ہوا ہے کہ امام بخاریؒ کے استنباطی مسائل زیادہ ہیں اور بخاری شریف میں احادیث کم ہیں۔ اس لیے شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ بخاری شریف فقہ کی کتاب بھی ہے۔
آپ نے بخاری شریف میں دیکھا ہوگا کہ امام بخاریؒ مؤرخ بھی درجہ اول کے ہیں۔ جتنی ہماری ملی اہمیت کی تاریخی روایات ہیں مثلاً حضرت صدیق اکبرؓ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ کا انتخاب، حضرت حسنؓ اور حضرت معاویہؓ کی صلح وغیرہ تاریخی اہمیت کی جو روایات ہیں، انہیں جتنے اہتمام اور جتنی محنت کے ساتھ امام بخاریؒ نے جمع کیا ہے محدثین میں سے کسی اور نے ایسا نہیں کیا۔ اس لحاظ سے یہ تاریخ کی کتاب بھی ہے۔
اس کے علاوہ بخاری شریف تصوف کی کتاب بھی ہے۔ اس میں زہد و رقائق کی روایات بھی امام بخاریؒ نے پورے اہتمام کے ساتھ بیان فرمائی ہیں۔ تصوف کے لیے ہماری آج کی اصطلاح سلوک و احسان کی ہے۔ اُس زمانے میں زہد و رقائق کی اصطلاح تھی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ امام بخاریؒ کے استاذ محترم تھے۔ ہمارے طلباءِ حدیث کے ہاں جب کسی کو مطلقاً امیر المومنین فی الحدیث کہا جاتا ہے تو اس سے مراد عام طور پر عبداللہ بن مبارکؒ ہوتے ہیں جو امام بخاریؒ کے استاذ اور حضرت امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد ہیں۔ بہت بڑے محدث، بہت بڑے صوفی، بہت بڑے مجاہد اور بہت بڑے فقیہ تھے، اللہ تعالیٰ نے بڑی عظمت دی تھی۔ میں تصوف کا عملی پہلو یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ امام بخاریؒ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ ایک حدیث لکھنے کے لیے غسل کرتے تھے، کپڑے پہنتے تھے، دو رکعت پڑھتے تھے، پھر ایک روایت لکھا کرتے تھے۔ اگر یہ واقعہ درست ہے تو یہ کام کوئی اونچے درجے کا صوفی ہی کر سکتا ہے، یہ کسی عام آدمی کا کام نہیں ہے کہ ایک روایت لکھنے کے لیے غسل کرے، پھر دو رکعتیں پڑھے، پھر ایک روایت لکھے، پھر دوسری روایت کے لیے دوبارہ غسل کرے ۔
بخاری شریف میں مندرجہ بالا چار علوم ہیں اور حدیث کی کتاب تو ہے ہی۔ اس لیے میں یہ بات آپ کے ذہن میں تازہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے صرف حدیث نہیں پڑھی، تفسیر بھی پڑھی ہے، فقہ بھی پڑھی ہے کہ استنباط و استدلال کا طریقہ بھی سیکھا ہے، تاریخ بھی پڑھی ہے، اور زہد و رقائق کی روایات بھی پڑھی ہیں۔ اسی لیے اس کو ’’الجامع‘‘ کہا جاتا ہے۔
میں لمبی بات نہیں کروں گا کہ اتنا وقت نہیں ہے، آج کے حالات کی مناسبت سے آج کی دنیا کا جو علمی، فکری اور فلسفے کا دائرہ ہے، اس میں امام بخاریؒ کے حوالے سے دو باتیں آپ سے عرض کرنا چاہوں گا۔
پہلی بات یہ ہے کہ بخاری شریف کی پہلی کتاب ’’کتاب الایمان‘‘ ہے اور آخری کتاب جس کی آپ نے روایت پڑھی ہے وہ ’’کتاب التوحید والرد علی الجہمیۃ وغیرہم‘‘ ہے۔ امام بخاری نے درمیان میں ساری دنیا کے مسائل اکٹھے کر دیے لیکن آغاز کتاب الایمان سے اور اختتام کتاب التوحید پر کیا ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کتاب الایمان میں امام بخاریؒ نے ایمانیات بیان کی ہیں، اور کتاب الرد علی الجہمیۃ وغیرہم میں غلط عقائد کا اور عقائد کی غلط تعبیرات کا رد کیا ہے۔ یعنی آغاز میں ایمانیات کی فہرست ہے اور اختتام میں غلط ایمانیات، غلط عقائد اور عقائد کی غلط تعبیرات کا رد ہے۔ امام بخاریؒ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ عقیدہ صرف مثبت نہیں ہوتا بلکہ منفی بھی ہوتا ہے۔ اور آج کے دور میں یہ بات سمجھنا بہت زیادہ ضروری ہے کیونکہ ہمیں عالمی فورموں اور عالمی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ مولوی صاحب! آپ اسلام کی بات ضروری کریں لیکن پازیٹو بات کریں، نیگیٹو بات نہ کریں، مثبت بات کریں، منفی بات نہ کریں، اپنی بات کریں، دوسروں کو غلط نہ کہیں۔ میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ میرے بھائی! ہمارا تو سبق ہی ’’لا‘‘ سے شروع ہوتا ہے کہ ہم پہلے لا الٰہ کہتے ہیں اس کے بعد الا اللہ کہتے ہیں۔ نفی اور اثبات دونوں کو جمع کیے بغیر ہمارا بنیادی عقیدہ مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے امام بخاریؒ نے ایمانیات کو الگ بیان کیا ہے اور غلط عقائد کی تردید کو الگ بیان کیا ہے جس طرح صحیح عقیدہ رکھنا ضروری ہے، اسی طرح غلط عقیدے سے براءت بھی ضروری ہے ۔
دوسری بات آج کے ماحول کے تناظر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ سے لے کر ’’ونضع الموازین القسط‘‘ تک ساری کتاب پڑھ چکے ہیں۔ امام بخاری کا دائرۂ استدلال کیا ہے؟ آج کل ہمارے جدید فکری حلقوں میں دائرہ استدلال بھی زیر بحث ہے۔ آپ کسی سے بات کریں گے تو وہ کہے گا کہ قرآن سے دلیل دو۔ اگر آپ کہیں گے کہ قرآن میں نہیں ہے تو وہ کہے گا پھر اس بات کو چھوڑو۔ یہ آج کی تشکیک کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ اس لیے دیکھنا چاہیے کہ ہمارے دلائل کا دائرہ کیا ہے؟ صحابہ کرامؓ کے دور میں بھی اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں، ان میں سے ایک واقعہ بات سمجھنے کے لیے عرض کر دیتا ہوں کہ یہ مسئلہ ہے کیا؟
مسند دارمی کی روایت ہے کہ حضرت عمران بن حصینؓ اپنے حلقہ میں تشریف فرما تھے کہ ایک صاحب آئے اور کوئی مسئلہ پوچھا لیکن ساتھ کہا کہ مسئلہ قرآن سے بتانا۔ حضرت عمران بن حصینؓ فقہاء صحابہؓ میں سے تھے اور مزاجاً جلالی تھے۔ جلالی آدمی کا جواب دینے کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔ آنے والے سے پوچھا کہ تم نے آج فجر کی نماز پڑھی تھی؟ الٹا اس پر سوال کر دیا۔ اس نے کہا جی پڑھی تھی۔ پوچھا کتنی رکعتیں پڑھی تھیں؟ اس نے کہا دو رکعتیں۔ پوچھا دو رکعتیں قرآن میں ہیں؟ اس نے کہا نہیں ہیں۔ فرمایا پھر دو رکعتیں کیوں پڑھی تھیں؟ پھر پوچھا دو رکعت میں کتنے سجدے کیے تھے؟ اس نے کہا چار۔ پوچھا کہ چار سجدے قرآن میں ہیں؟ اس نے کہا نہیں۔ تو فرمایا پھر کیوں چار سجدے کیے تھے؟ اس پر وہ خاموش ہو گیا۔
یہ پرانے سوالات چلے آ رہے ہیں۔ آج بھی اس طرح کے سوالات کیے جاتے ہیں کہ یہ مسئلہ قرآن میں ہے یا نہیں ہے؟ اور حدیث کس درجے کی ہے؟ میں اس کا سادہ سا فارمولا عرض کرتا ہوں کہ امام بخاریؒ نے کتاب الایمان سے لے کر کتاب الرد علی الجہمیۃ تک احکام بھی بیان کیے ہیں، معاملات ، اخلاقیات ،تاریخ اور سیرت بھی بیان کی ہے ۔ اور طرزِ استدلال یہ ہے کہ مسئلہ بیان کر کے پہلے نمبر پر قرآن مجید سے دلیل لاتے ہیں، اس کے بعد دوسرا نمبر حدیث و سنت کا ہے، اس کے بعد تیسرا نمبر صحابہ کرامؓ اور تابعین ؒکے اقوال اور تعامل کا ہے۔ پوری بخاری شریف میں آپ کو یہ تین دلیلیں ملیں گی اور استدلال کے یہی تین دائرے ہیں۔ میں یہ بات آپ کے ذہن میں تازہ کرنا چاہتا ہوں کہ امام بخاری ؒ نے اہل سنت کے دائرہ استدلال کو متعین کیا ہے کہ قرآن مجید بھی ہماری دلیل ہے، حدیث و سنت بھی ہماری دلیل ہے، اور آثارِ صحابہ کرامؓ و تابعینؒ بھی ہماری دلیل ہیں۔
اب میں اس روایت کے حوالے سے ایک دو باتیں عرض کروں گا۔ بخاری شریف کی آخری روایت ایک غلط عقیدے کے رد میں ہے۔ ہم سب کا ایمان ہے کہ قیامت قائم ہوگی ، حشر ہوگا ، حساب کتاب ہو گا جس میں اعمال کا حساب بھی ہوگا اور اقوال کا بھی ہوگا۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اعمال بھی تلیں گے اور اقوال بھی تلیں گے۔ بعض لوگوں کو کچھ عرصہ پہلے تک سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بات کیسے تلتی ہے۔ ہماری اصطلاح یہ ہے کہ اعمال و اقوال اعراض میں سے ہیں، جواہر میں سے نہیں ہیں۔ لیکن میں سادہ لفظوں میں عرض کر رہا ہوں کہ یہ اشکال ہوتا تھا کہ بات منہ سے نکل کر ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے تو وزن کس چیز کا ہو گا؟ ایک زمانے میں مشہور محاورہ تھا ’’اذا تلفظ فتلاشی‘‘ اس محاورے نے ہزاروں سال ہمارے ذہنوں پر حکمرانی کی ہے کہ بات منہ سے نکلتی ہے تو گم ہو جاتی ہے، لاشے ہو جاتی ہے۔ جبکہ آج یہ محاورہ خود فتلاشی ہو گیا ہے۔ میرے منہ سے بات نکل رہی ہے تو یہ گم نہیں ہو رہی بلکہ ریکارڈ ہو رہی ہے ۔ بات کرنے والا ایک ہے مگر ریکارڈ کرنے والے کتنے ہوں گے؟ اور پھر اس ریکارڈنگ کا وزن بھی ہوتا ہے کہ یہ اتنے KB یا اتنے MB کی ہے۔ اسی طرح میری حرکات و سکنات بھی ریکارڈ ہو رہی ہیں اور ان کا وزن بھی ہو رہا ہے کہ کتنے MB یا کتنے GB کی ہیں۔ ایک دفعہ ریکارڈ ہونے کے بعد اسے جتنی مرتبہ مرضی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ باتیں کچھ عرصہ قبل سمجھ نہیں آ رہی تھیں، مگر آج سمجھ آرہی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی، انکار کی دلیل نہیں ہے۔ امام بخاریؒ نے کہا کہ دلیل قرآن پاک اور سنتِ رسولؐ ہے۔ اگر کوئی بات آج سمجھ میں نہیں آرہی تو کل سمجھ آ جائے گی۔
اس پر میں اپنا ذاتی واقعہ عرض کیا کرتا ہوں ۔ میں نے بخاری شریف والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز سے ۱۹۶۹ء میں پڑھی تھی۔ ایک روایت میں ذہن الجھ گیا تو میں نے سوال کر دیا۔ معراج شریف کی روایت میں ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ مجرموں کو سزا ملتے دکھایا گیا۔ ایک مجرم کو یہ سزا مل رہی تھی کہ اس کی باچھیں چیری جا رہی تھیں، ناک کے سوراخ، اور آنکھوں کے سوراخ سے چیرا جا رہا تھا۔ فرشتے اسے چیرتے ہیں، پھر ٹھیک ہو جاتا ہے، پھر چیرتے ہیں، پھر ٹھیک ہو جاتا ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے یہ منظر دیکھ کر فرشتوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے جس کی باچھیں بار بار چیری جا رہی ہیں؟ اس کا کیا جرم ہے؟ فرشتوں نے بتایا کہ یارسول اللہ! یہ وہ آدمی ہے جو ایک بات بناتا اور گھڑتا تھا اور ’’یبلغ بہ الآفاق‘‘ اسے کائنات کے کناروں تک پہنچا دیتا تھا۔ روایت پڑھتے ہوئے ’’یبلغ بہ الآفاق‘‘ میرے ذہن میں نہیں آ رہا تھا کہ کائنات کے کناروں تک بات پہنچانا کیسے ہوتا ہے۔ والد صاحبؒ کا اپنا مزاج تھا، ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں کہنے لگے ’’بیٹا! یہ بات میری سمجھ میں بھی نہیں آئی لیکن ایسا ضرور ہوگا۔‘‘
ستر سال پہلے جو ناقابلِ فہم تھا آج ’’یبلغ بہ الآفاق‘‘ کا ذریعہ موبائل کی صورت میں ہر وقت میری جیب میں رہتا ہے۔ میں صبح صبح تین چار پوسٹیں سینڈ کرتا ہوں اور انہیں دنیا کے کناروں تک پہنچانے میں چند لمحے لگتے ہیں، نیویارک بھی پہنچی ہوتی ہے، ہانگ کانگ ، کیپ ٹاؤن، شکاگو اور لندن بھی پہنچی ہوتی ہے۔ اس لیے میں دوستوں سے عرض کیا کرتا ہوں کہ میری سمجھ، تمہاری سمجھ، ہماری سمجھ، یہ انکار کی دلیل نہیں ہے۔
امام بخاریؒ نے اپنے لہجے میں بات سمجھائی ہے اور یہ عنوان قائم کیا ہے ’’ان اعمال بنی اٰدم وقولہم یوزن‘‘ کہ باتیں بھی تلیں گی اور عمل بھی تلیں گے۔ اس پر امام بخاریؒ نے دو دلیلیں دی ہیں، ایک قرآن مجید سے اور ایک حدیث مبارکہ سے۔ قرآن مجید سے یہ دلیل دی کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ‘‘ ہم قیامت کے دن میزان قائم کریں گے اور اس میں سب کچھ تلے گا۔ یہاں یہ سمجھنے کی بات ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں کہ میں میزان قائم کروں گا اور اعمال تولوں گا، تو اللہ تعالیٰ سے کوئی سوال کر سکتا ہے کہ یا اللہ! کیسے تولے گا؟
اسی مناسبت سے ایک واقعہ عرض کرتا ہوں کہ کسی موقع پر ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوا تھا؟ میں نے کہا ہاں ہوا تھا؟ اس نے پوچھا جاگتے ہوئے ہوا تھا؟ میں نے کہا ہاں جاگتے ہوئے ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ جسم مبارک کے ساتھ معراج ہوا تھا؟ میں نے کہا ہاں جسم مبارک کے ساتھ معراج ہوا تھا۔ اس نے کہا حضورؐ آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے؟ میں نے کہا ہاں تشریف لے گئے تھے۔ اس نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ ہمیں تو کراچی جانا ہو تو جہاز میں جانا پڑتا ہے اور آپؐ آسمانوں پر چلے گئے۔ آج کل کے عام سوالات کا لیول اور دائرہ یہی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا بیٹا! جناب نبی کریمؐ نے کب فرمایا ہے کہ میں آسمانوں پر گیا تھا؟ معراج کی سب سے بڑی دلیل سورۃ الاسراء کی پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’سبحان الذی اسرٰی بعبدہٖ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصٰی‘‘ جب اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنے بندے کو لے کر گیا تھا تو اب کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ حدیث میں بھی یہ نہیں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ہو کہ میں معراج پر گیا تھا، بلکہ ’’عُرِجَ بِیْ اِلَی السَّمَاءِ‘‘ اور ’’اُسْرِیَ بِیْ‘‘ کے الفاظ ہیں کہ مجھے آسمانوں پر لے جایا گیا، مجھے سیر کرائی گئی۔ جب اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں لے کر گیا تھا تو کیا اللہ تعالیٰ سے سوال بنتا ہے کہ وہ کیسے لے گیا تھا؟ اللہ تعالیٰ کے لیے کونسی بات نا ممکن ہے؟ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ میں ترازو قائم کروں گا تو اب کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ اس لیے امام بخاریؒ نے وزن ِاعمال پر پہلی دلیل یہ دی کہ اللہ تعالی کہہ رہے ہیں میں اعمال کا وزن کروں گا، تو وزنِ اعمال ہوگا۔
دوسری دلیل کے طور پر امام بخاریؒ نے حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث ذکر کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کلمتان حبیبتان الی الرحمٰن‘‘ کہ زبان سے نکلنے والے دو جملے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں ’’خفیفتان علی اللسان‘‘ جو زبان پر ہلکے پھلکے ہیں مشکل نہیں ہیں ’’ثقیلتان فی المیزان‘‘ لیکن جب حساب کتاب کا ترازو قائم ہوگا تو وہ کلمے بڑے وزنی ثابت ہوں گے۔ وہ دو کلمے یہ ہیں ’’سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم‘‘۔ اس حدیث میں ’’ثقیلتان فی المیزان‘‘ کے الفاظ وزنِ اعمال کی دلیل ہے۔ امام بخاریؒ سادہ سی بات کہہ کر بات نمٹا رہے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم ترازو قائم کریں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ کلمے تولے جائیں گے، تو اعمال و اقوال کا وزن ہونے میں کیا اشکال باقی رہ جاتا ہے؟ اس لیے کسی اور بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے گزارش کی ہے کہ امام بخاریؒ نے اس حوالے سے سب سے بڑا سبق یہ دیا ہے کہ ہمارے دائرۂ استدلال کی تین بنیادیں ہیں (۱) قرآن مجید (۲) حدیث و سنت (۳) اور صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے اقوال، آثار اور تعامل۔ کل بھی یہی بنیاد تھی، آج بھی یہی ہے اور یہی قیامت تک رہے گی، ان شاء اللہ العزیز۔ اللہ تعالیٰ آپ کو علم مبارک کریں ، اس کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائیں، اور ان بزرگوں سے استفادہ کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔