حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی

   
متحدہ علماء دیوبند، شاہدرہ، لاہور
۱۹ جنوری ۲۰۱۵ء

جنوبی لاہور کے علماء کرام کے ایک مقامی فورم کی سرگرمیوں کا مختصر تذکرہ گزشتہ کالم میں کر چکا ہوں، جبکہ ۱۷ جنوری کو شمالی لاہور کے اسی طرح کے ایک فورم ’’متحدہ علماء دیوبند شاہدرہ‘‘ کے زیر اہتمام رانا ٹاؤن میں علماء کرام کے اجتماع میں حاضری کا موقع ملا۔ یہ فورم بھی علماء کرام اور خطباء کے درمیان علاقائی سطح پر رابطہ و معاونت کے فروغ کے لیے کئی سال سے کام کر رہا ہے۔ مجھے اس کے ابتدائی اجلاس میں شرکت کی سعادت بھی ان دنوں حاصل ہوئی تھی۔ اور اس فورم کے سرکردہ اور متحرک حضرات میں مولانا ذوالقرنین، مولانا محمد اسلم عثمانی، مولانا محمد اسماعیل محمدی، مولانا محمود الحسن اور مولانا غلام دستگیر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ گفتگو اس عنوان پر تھی کہ موجودہ حالات میں ہم کام کیسے کریں؟ جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حالات کے اتار چڑھاؤ سے یقیناً پریشانی ہوتی ہے لیکن یہ اتار چڑھاؤ تاریخ کا ناگزیر حصہ ہے اور اہل حق کے سفر کے سنگ میل ہی مسائل و مشکلات اور مصائب و آلام ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سے گبھرانے کی ضرورت نہیں ہے اور میں اس سلسلہ میں دور نبویؐ کے دو تین واقعات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ ایسے حالات میں ہمیں کیسے کام کرنا چاہیے؟

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ کی طرف جا رہے تھے تو ظاہری کیفیت یہ تھی کہ چھپتے چھپاتے مدینہ منورہ پہنچنے کی کوشش تھی۔ عام راستے سے ہٹ کر سفر کر رہے تھے، اور زیادہ تر سفر رات کو کرتے تھے۔ اہل مکہ کی طرف سے بھیجی جانے والی بہت سی ٹولیاں تعاقب میں تھیں جن سے بچنے کے لیے تین دن غار ثور میں روپوش بھی رہے تھے۔ مگر جب دوران سفر سراقہ بن مالکؓ کا سامنا ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ میں تمہارے ہاتھ میں کسریٰ بادشاہ کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔ اپنے وقت پر یہ کنگن انہیں حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں پہنا بھی دیے۔ یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا مگر اس کے ساتھ اس میں یہ سبق بھی ہے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی کسی مسلمان کو اپنے مشن اور پروگرام سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور اپنے حوصلہ کی سطح کو قائم رکھنا چاہیے۔ غزوۂ خندق میں جب مدینہ منورہ کی آبادی پر خوف و ہراس کی کیفیت طاری تھی اور دشمن کے پہنچنے سے قبل خندق کو کھود لینا ہی سب سے اہم مسئلہ بن گیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چٹان پر کدال سے ضرب لگائی تو اس سے چنگاریاں پھوٹیں جن کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس چمک میں قیصر کے محلات دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی سبق تھا کہ حالات کی سنگینی وقتی بات ہے، ان کا حوصلے کے ساتھ سامنا کرو اور اپنے مقصد اور منزل کو نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دو۔

اس کے ساتھ ہی علماء کرام کو ایک اور واقعہ کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے جرنیل حضرت خالد بن ولیدؓ کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کا خطاب دیا تھا۔ مگر یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ خطاب انہیں کون سے کارنامے پر ملا تھا؟ موتہ کی جنگ میں حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت جعفر طیارؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی یکے بعد دیگرے شہادت کے بعد جب مسلمانوں کے لشکر کی کمان حضرت خالد بن ولیدؓ نے سنبھالی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اپنے ساتھیوں کو اس کی خبر دی اور فرمایا کہ اب مسلمانوں کی کمان اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولیدؓ) نے سنبھال لی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالدؓ کے لیے سیف اللہ کا لقب ارشاد فرمایا تھا۔ اس وقت ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے دشمن کی فوج کے نرغے میں گھرے ہوئے اپنے ساتھیوں کو بحفاظت وہاں سے نکال کر مدینہ منورہ میں ان کے گھروں تک پہنچا دیا تھا۔ اور اس عظیم خدمت پر سیف اللہ کے خطاب کے مستحق قرار پائے تھے، جبکہ ان کی واپسی پر مدینہ منورہ کے عام لوگوں نے انہیں ’’انتم الفرارون‘‘ (تم بھگوڑے) ہو، کہہ کر پکارا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاد صرف لڑنے اور ہر حال میں لڑتے رہنے کا نام نہیں ہے، بلکہ اپنے ساتھیوں کی حفاظت اور انہیں نرغے سے نکال کر گھر واپس لے آنا بھی جہاد کہلاتا ہے۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور صحابہ کرامؓ کے اسوہ حسنہ سے راہ نمائی حاصل کر کے حالات کی روشنی میں اپنے لیے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ اس پس منظر میں بطور مشورہ میں علماء کرام سے گزارش کروں گا کہ آج کے حالات کے دائرے میں رہتے ہوئے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ:

  • ہر قسم کے تصادم سے گریز کریں اور قانون و دستور کی حدود میں رہتے ہوئے دینی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔
  • دینی جدوجہد سے بالکل لا تعلق رہنا میرے نزدیک کسی بھی عالم کے لیے جائز نہیں ہے۔ علماء کرام کو دینی جدوجہد میں کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کرتے رہنا چاہیے۔
  • دینی جدوجہد کے تمام شعبے مثلاً نفاذ شریعت، دعوت و تبلیغ، جہاد، تحفظ ناموس رسالتؐ، عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت، دفاع صحابہ کرامؓ، دفاع حنفیت، دفاع مسلک وغیرہ سب دین کے شعبے ہیں، ان میں جس شعبہ کے ساتھ ذوق وابستہ ہو اس میں کام کرنا چاہیے۔
  • جبکہ ایک دوسرے کے کام کی نفی اور مخالفت سے ہر قیمت پر گریز کرنا چاہیے۔ آپ اپنے ذوق کے شعبہ میں کام کرتے ہوئے دوسرے کسی شعبہ کے ساتھیوں سے تعاون کر سکیں تو یہ بہت اچھی بات ہوگی۔ ورنہ مخالفت نہ کریں، ان کے کام کو ہلکا مت سمجھیں اور کسی کا مذاق نہ اڑائیں۔ کیونکہ ہمارا یہ باہمی تعاون و احترام ہی دینی جدوجہد میں مثبت پیش رفت کا ضامن ہوگا۔
(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۹ جنوری ۲۰۱۵ء)
2016ء سے
Flag Counter