جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک یہ تھا کہ سفر کا آغاز بھی دعا سے کرتے تھے، سفر کا اختتام بھی دعا سے کرتے تھے، سفر کے آغاز پر بھی دو رکعت پڑھتے تھے، اور سفر سے واپسی پر بھی دو رکعت پڑھتے تھے۔ جاتے ہوئے اللہ تبارک و تعالٰی سے درخواست کے لیے کہ یا اللہ سفر پر جا رہے ہیں مہربانیاں فرما، آسانیاں فرما۔ اور واپسی پر شکرانے کے لیے کہ یا اللہ سفر کر کے واپس آ گئے ہیں، شکرانے کے نفل پڑھتے تھے، دعا کرتے تھے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو دعا فرماتے تھے، صحابہ کرامؓ یاد بھی کرتے تھے اور آگے تعلیم بھی دیتے تھے، اپنے بچوں کو، شاگردوں کو، آگے لوگوں کو تعلیم بھی دیتے تھے۔ علی، یہ تابعی ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے شاگرد ہیں۔ کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمرؓ نے ہمیں یہ دعا بطور تعلیم کے سکھائی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر تشریف لے جاتے، سفر پر روانہ ہونے کے لیے جب اونٹنی پر سوار ہوتے اور اونٹنی بالکل تیار ہوتی سفر کے لیے، تو حضورؐ دعا کا آغاز تکبیر سے کرتے تھے۔ تین دفعہ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ یہ تین دفعہ اللہ اکبر کہہ کر پھر قرآن کریم کی وہ آیت دعا کے طور پر پڑھتے تھے۔ ’’سبحان الذی سخر لنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الیٰ ربنا لمنقلبون‘‘۔ اس کا ترجمہ یہ ہے، چونکہ اونٹنی پر سوار ہیں ، اونٹ بہرحال انسان سے بڑا جانور ہے، طاقتور بھی ہے، انسان اس کو کنٹرول کرے، اپنی مرضی سے چلائے، یہ اللہ ہی کے حکم سے ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو یہ صلاحیت دی ہے کہ اونٹوں کی لمبی قطار ہو گی، سو اونٹ ایک دوسرے سے بندھے ہوئے چلے آرہے ہوں گے، اور سب کی نکیل ایک بچے کے ہاتھ میں ہو گی اور اونٹ اس بچے کے پیچھے پیچھے چل رہے ہوں گے۔ یہ اللہ کے حکم سے ہے، اللہ کے نظام سے ہے۔ ’’سخر لنا ھذا‘‘ جس نے یہ سواری ہمارے لیے مسخر کی۔ ’’وما کنا لہ مقرنین‘‘ ہم تو اس کو قابو میں کرنے والے نہیں تھے۔ اونٹ اگر اڑ جائے تو کسی کے قابو میں نہیں آتا، بڑا مشکل ہو جاتا ہے اسے کنٹرول کرنا۔ ’’وانا الیٰ ربنا لمنقلبون‘‘ ساتھ ہی یہ یاد دلا دیا کہ ایک سفر تو یہ ہے، اور ایک سفر وہ بھی ہے جس میں ہم اللہ کے حضور حاضر ہوں گے۔ یہ سفر تو پتہ نہیں دو دن کا ہے، تین دن کا ہے، چار دن کا ہے۔ یعنی ایک سفر ہمیں وہ بھی درپیش ہے کہ جب ہم اللہ کے دربار میں پیش ہوں گے جا کر، اللہ کی بارگاہ میں بلائے جائیں گے۔ یہ تو قرآن کریم کی آیت کریمہ ہے جو بطور دعا کے سفر کے آغاز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔
اس کے بعد پڑھتے تھے ’’اللھم نسألک فی سفرنا ھذا البر والتقوٰی‘‘ یا اللہ ہم اس سفر کا آغاز کر رہے ہیں، اس سفر کے دوران آپ سے ہماری دعا ہے کہ ہمیں برّ اور تقوٰی کی توفیق دے، ہمارا سفر نیکی کی حالت میں گزرے، تقوٰی کی حالت میں گزرے۔ وَمِنَ الْـعَمَلِ مَا تَـرْضٰی۔ اور سفر میں ایسے اعمال ہم کریں جس سے تو راضی ہو۔ ایسے اعمال کی توفیق دے جس سے آپ راضی ہوں۔ ’’اللھم ھون علینا سفرنا ھذا‘‘ یا اللہ اس سفر کو ہمارے لیے آسان کر دے۔ سفر کی مشکلات، مشقتیں ہمارے لیے آسان فرما دے۔ ’’واطو عنا بعدہ‘‘ اس کی لمبائی ہمارے لیے لپیٹ دے، کم کر دے۔ یعنی جلدی سفر ہو جائے۔ ’’اللھم انت الصاحب فی السفر‘‘ یا اللہ میں سفر پر جا رہا ہوں، سفر میں آپ ہی میرے ساتھی ہیں۔ ’’والخلیفۃ فی الاھل‘‘ گھر والوں کو چھوڑ کر جا رہا ہوں، یہاں بھی آپ ہی میرے خلیفہ ہیں، آپ ہی ان کی حفاظت فرمائیں گے ہر قسم کی مشکل میں۔ ’’اللھم انی اعوذ بک من وعثاءِ السفر‘‘ یا اللہ سفر میں مشقتیں اور تکلیفیں ہوتی ہیں، ان سے میں پناہ مانگتا ہوں۔ سفر کے فساد سے، سفر کی مصیبتوں سے، سفر کی مشقتوں سے میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔ ’’وکـآبـۃِ المنظر‘‘ سفر میں کوئی تکلیف دہ منظر پیش نہ آئے۔ سفر میں کسی تکلیف دہ یا اذیت ناک منظر سے میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔ ’’وسوء المنقلب فی المال والاھل‘‘ اور اپنے گھر اور مال میں بری واپسی سے بھی پناہ مانگتا ہوں، کہ گھر آؤں تو حالت بدلی ہوئی ہو اور مال تباہ ہو چکا ہو اور گھر میں بربادی ہو۔ میں بری حالت میں آؤں یا گھر والے بری حالت میں ہوں، یا اللہ میں اس سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
یہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا آغاز کرتے تھے اور سواری پر بیٹھتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو پھر بھی یہی دعا پڑھتے تھے۔ شہر میں داخل ہونے سے پہلے، یا شہر میں داخل ہو کر یہ دعا پڑھتے تھے۔ اور ان جملوں کا اضافہ کرتے تھے واپسی کی دعا میں۔ ’’آئبون تائبون عابدون لربِنا حامدون‘‘ یا اللہ! ہم لوٹ کر آنے والے ہیں، اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والے ہیں، اپنے رب کی ہی عبادت کرنے والے ہیں، اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں۔
چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما اپنے شاگردوں کو یہ دعا سکھایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر جاتے اور سفر سے واپس آتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔