’’ہنگ پارلیمنٹ‘‘

   
۳۱ جولائی ۲۰۱۸ء

الیکشن گزر چکے ہیں، وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کی سرگرمیاں جاری ہیں، متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیتے ہوئے حلف برداری کی تقریب کے بائیکاٹ اور احتجاجی مہم کی کال دے رکھی ہے، الیکشن کمیشن دھاندلیوں کے وسیع تر اور سنگین الزامات کی زد میں ہے، اور مختلف اطراف سے بیان بازی زور و شور کے ساتھ ہو رہی ہے۔ مگر اس ساری فضا میں ہمارا دکھ قدرے مختلف ہے کہ سب متعلقہ حلقے موجودہ صورتحال کو حالیہ انتخابات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں جبکہ ہم اسے ملک کے مجموعی اور تاریخی تناظر میں دیکھنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔

الیکشن سے قبل اسی کالم میں ہم نے عرض کیا تھا کہ ملک میں انتخابات تو وقفہ وقفہ کے ساتھ ہو رہے ہیں لیکن انتخابات کے تسلسل سے قومی سیاست میں ارتقا اور استحکام کے جو ثمرات سامنے آنے چاہئیں وہ نظر نہیں آرہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ الیکشن افراتفری اور خلفشار کے ماحول میں کرانے کی روایت قائم ہوگئی ہے اور جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کی بجائے ہر الیکشن میں زیرو پوائنٹ سے کھیل دوبارہ شروع کرنے کا اہتمام ضروری سمجھ لیا گیا ہے تاکہ الیکشن تو ہوتے رہیں مگر قوم کو اس کے فطری نتائج اور ثمرات حاصل نہ ہو سکیں۔ جس کی ایک جھلک یہ ہے کہ الیکشن سے قبل کہا جا رہا تھا کہ ’’ہنگ پارلیمنٹ‘‘ (hung parliament) لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور اب الیکشن کے بعد صورتحال یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی بھی ہینگ ہوتی دکھائی دے رہی ہے حتٰی کہ دونوں جگہ حکومت سازی کسی ایک پارٹی کے بس میں نہیں رہی۔ اور اگر مرکز اور پنجاب میں جوڑ توڑ کے ساتھ چند ممبروں کی اکثریت کے ساتھ حکومتیں بن بھی گئیں تو وہ کسی کام کی نہیں ہوں گی اور کوئی سا قومی ایجنڈا پورا نہیں کر سکیں گی، بلکہ وہ ایک دوسرے کو راضی کرنے اور بیک ڈور پر نظر جمائے رکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر پائیں گی اور اس الیکشن گیم کا بڑا مقصد بھی شاید یہی ہوگا۔

ہم سردست اس بحث میں نہیں پڑیں گے کہ یہ سب کچھ کس نے کیا ہے، یہ وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود واضح ہوتا جائے گا، ہم تو ابھی صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ جو کچھ ہوگیا ہے وہ کیا ہے اور اسے قوم نے کتنے عرصہ تک بھگتنا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وفاق کے ساتھ ساتھ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت بھی ڈانوا ڈول پوزیشن میں قائم ہوتی دکھائی دے رہی ہے، انتخابات کے بعد باہمی اعتماد کا جو ماحول بننا چاہیے تھا وہ نظر نہیں آرہا، اور انتخابی نظام کی شفافیت پر اعتماد میں بہرحال کمی ہوئی ہے جو کسی طرح بھی نیک فال نہیں ہے۔ یہ باتیں اگر کسی کے نزدیک اہمیت نہ رکھتی ہوں تو اس کی مرضی ہے ورنہ ایک سیاسی کارکن کے طور پر ہم اسے ملک و قوم کے لیے المیہ سے کم نہیں سمجھتے اس لیے کہ پاکستان کا قیام اسلام کے لیے جمہوریت کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا اور دستور پاکستان میں اسلام اور جمہوریت دونوں کو ملک کی دستوری اور نظریاتی اساس قرار دیا گیا ہے۔ مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ اسلام غریب تو ایک عرصہ سے ’’کومے‘‘ میں ہے جبکہ جمہوریت مسلسل ’’مرغ نیم بسمل‘‘ کی طرح تڑپ رہی ہے۔ اس فضا میں پاکستان کے عالمی اور علاقائی مخالفین کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے اور کونسا بہتر موقع مل سکتا ہے اور وہ باشعور نگاہوں کو وطن عزیز کے اردگرد بلکہ اس کی فضا میں منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم اس بحث میں ابھی نہیں پڑتے کہ یہ کس نے کیا ہے مگر یہ ضرور عرض کریں گے کہ یہ سب کچھ ہوگیا ہے جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے اور جس نے بھی کیا ہے اسے اگر ملک و قوم کے مفاد اور اسلام و جمہوریت سے کوئی دلچسپی ہے تو اس صورتحال کا اسے سنجیدگی کے ساتھ ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔

اس حوالہ سے ایک پرانا واقعہ ذہن میں تازہ ہوگیا ہے کہ گوجرانوالہ میں کافی عرصہ قبل جناب عبد المجید ٹوانہ سیشن جج تھے جو بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس بھی بنے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے سامنے سیشن جج کے طور پر قتل کا ایک مقدمہ پیش تھا جس میں حسب معمول نامزد ملزم کو بچانے کے لیے وکیل صفائی اپنا پورا زور صرف کر رہا تھا کہ اس نے قتل نہیں کیا۔ جج صاحب نے کہا کہ ’’بندہ تو قتل ہوا ہے ناں! اس نے نہیں کیا تو کس نے کیا ہے؟ کیا میں نے قتل کیا ہے یا آپ نے کیا ہے؟‘‘ ہمارے ہاں قانونی نظام کا یہ خلا ابھی تک لاینحل چلا آرہا ہے کہ قتل کا نامزد ملزم بری ہو جانے کے بعد کیس داخل دفتر ہو جاتا ہے اور یہ تلاش کرنے کی کوشش ترک کر دی جاتی ہے کہ جو شہری قتل ہوا ہے وہ آخر کس نے کیا ہے؟ اور اس طرح ملزم کے بری ہو جانے کے بعد اس شہری کا قتل رائیگاں چلا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام ایسی صورت میں ریاست کو ذمہ دار قرار دے کر مقتول کے ورثاء کو اس سے دیت دلواتا ہے تاکہ انسانی جان کی حرمت کسی درجہ میں قائم رہے اور اس کا خون رائیگاں نہ جائے۔

بہرحال موجودہ صورتحال کے عوامل اور اسباب و محرکات کی بحث تو چلتی رہے گی اور ہم بھی گزارشات پیش کرتے رہیں گے، سردست ایک اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا ہم نے ضروری سمجھا ہے، اگر متعلقہ حلقوں اور اداروں کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت ہے تو انہیں اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter