آزاد کشمیر کے مفتی صاحبان کی ملازمت سے فراغت

   
اکتوبر ۱۹۹۶ء

آزاد کشمیر میں حالیہ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ حکومت کے بھرتی کیے ہوئے سینکڑوں ملازمین کو سبکدوش کر دیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں ایڈہاک بنیادوں پر ملازم رکھا گیا تھا۔ ان میں تحصیل اور ضلع کی سطح کے مفتی صاحبان بھی ہیں جو محکمہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے تحت فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ضلع اور تحصیل کی سطح پر ان مفتی صاحبان کو سرکاری مفتی کی حیثیت حاصل تھی اور سرکاری محکمے اور عوام دینی مسائل معلوم کرنے کے لیے ان سے رجوع کرتے تھے۔ لیکن موجودہ حکومت نے ان سب مفتی صاحبان کو بیک جنبشِ قلم فارغ کر دیا ہے اور آزاد کشمیر کے دینی حلقے اس پر مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔

اس قسم کی صورتحال اس سے قبل پاکستان میں بھی پیش آ چکی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے دو معزز ارکان جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی اور جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کو اچانک فارغ کر دیا گیا اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ان کا تقرر ایڈہاک بنیادوں پر ہوا تھا اس لیے انہیں فارغ کر دیا گیا ہے۔

جہاں تک حکومتی پالیسی کا تعلق ہے یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ یہ دونوں اقدام ایک ہی پالیسی کا تسلسل ہیں کہ قومی زندگی کے مختلف شعبوں کو نظریاتی اور پختہ کار دینی لوگوں سے خالی کیا جائے، اور موجودہ حکومت مختلف حیلوں بہانوں سے سرکاری محکموں میں موجود ’’بنیاد پرستوں‘‘ سے نجات حاصل کرنے کے لیے مسلسل پیشرفت کر رہی ہے۔

لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پاکستان کے سپریم کورٹ کے جج صاحبان اور آزاد کشمیر کے ضلع اور تحصیل سطح کے مفتی صاحبان آخر ’’ایڈہاک‘‘ ہی پر کیوں تھے، اور انہیں باضابطہ حیثیت دینے میں آخر کون سی بات رکاوٹ تھی؟ جن حکومتوں نے ان حضرات کا بطور جج یا مفتی کے تقرر کیا انہیں نفاذِ اسلام کی حامی حکومتیں تصور کیا جاتا ہے، لیکن ان کے یہ اقدامات اس قدر کمزور ثابت ہوئے کہ بعد میں آنے والی حکومتوں کو انہیں ختم کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ ہمارے ہاں پاکستان میں تو یہ صورتحال اس قدر تکلیف دہ ثابت ہوئی کہ وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کے سروس رولز میں پائی جانے والی خامیوں کے باعث دوسری اعلیٰ عدالتوں سے شرعی عدالت میں تبادلہ کو فخر اور اعزاز کی بجائے سزا اور تنزلی سمجھا جانے لگا۔ اور اس طرح شرعی عدالتوں کا تصور قانونی حلقوں میں جس طرح مجروح کیا گیا وہ ایک الگ دلخراش داستان ہے۔

ہم موجودہ حکومت کے ان اقدامات پر دینی حلقوں کے احتجاج کی تائید کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ کہنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال کی ذمہ داری ان حکومتوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے بے دلی، تذبذب اور ایڈہاک ازم کی فضا میں ادھورے اسلامی اقدامات کر کے نفاذِ اسلام کی طرف پیشرفت کرنے کی بجائے اس کی بدنامی اور کمزوری کا سامان فراہم کیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter