طلاق و خلع کی شرح میں مسلسل اضافہ پر ایک سیمینار

   
اپریل ۲۰۱۹ء

۲۲ اپریل ۲۰۱۹ء کو فاطمہ جناح خواتین یونیورسٹی راولپنڈی میں منعقدہ ایک سیمینار کی رپورٹ مولانا حافظ سید علی محی الدین کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں (ابوعمار زاہد الراشدی)۔

’’گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے معاشرتی مسائل میں جو مسئلہ نہایت شدت اور تیزی سے سر اٹھا کر ہمارے خاندانی نظام کو شدید عدمِ استحکام، بے سکونی، لاینحل مسائل کی جانب مسلسل بڑھا رہا ہے، وہ طلاق و خلع کی رفتار میں نہایت تیزی سے اضافہ ہے۔ نکاح و شادی کے بعد کچھ عرصہ گزرتا نہیں کہ دوریاں، ناچاقیاں، مسائل، غلط فہمیاں اور بدگمانیاں سر اٹھانے لگتی ہیں اور ایک دوسرے سے استطاعت سے بڑھ کر تقاضے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور پھر جذباتیت، جلد بازی اور تربیت کے فقدان کی بنا پر انجام کار کے طور پر ترکِ تعلقات، ناراضگیوں اور بالآخر طلاق یا خلع تک پہنچ جاتی ہے۔ اس نازک اور سنگین صورتحال کے اسباب و وجوہ کا تعین اور ان کی اصلاح اور بہتری کی راہیں تلاش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

اس معاملے میں کسی نہ کسی لحاظ سے علماء کرام، دونوں خاندانوں، فریقین، اور اگر عدالتی معاملہ بن جائے تو قانون، وکلاء اور عدالتوں کا بھی کردار پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ کردار اس لحاظ سے ہوتا ہے کہ خاندان کو وجود میں والا یہ بنیادی رشتہ اور معاملہ یوں ہی داؤ پر لگا رہنے دیا جائے یا اس میں بہتری کی گنجائش تلاش کر کے جہاں سے خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔

مولانا زاہد الراشدی اور ان جیسی چند دیگر مخلص اور دردِ دل رکھنے والی شخصیات کی یہ پختہ سوچ ہےکہ ان معاشرتی مسائل پر صرف تقاریر اور خوبصورت انشاء پردازی کے ذریعے غم و غصے یا نفرت کا اظہار کافی نہیں ہے بلکہ اس معاملے اور ملتے جلتے دیگر مسائل میں جب تک متعلقہ اسٹیک ہولڈرز مل کر مشترکہ عملی حل تلاش کر کے اس جانب پیشرفت نہیں کریں گے، تب تک یہ تباہ کن مسائل ہماری سوسائٹی کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ اور اگر انہیں مسلسل نظرانداز کرنے کا موجودہ رویہ اور طرز عمل ہی برقرار رہے گا تو ہماری سوسائٹی کے تمام امتیازی خصائص رفتہ رفتہ تحلیل ہو کر کتاب و اوراق ہی کا موضوع بن جائیں گی۔

انہیں مخلص شخصیات کی مسلسل توجہ دلانے کے نتیجے میں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی لیگل کمیٹی نے علماء کرام، ماہرین قانون، وکلاء و ججز اور ویمن یونیورسٹی کی اساتذہ و طالبات کے لیے ایک نہایت موقر اور سنجیدہ سیمینار کا اہتمام فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی کے آڈیٹوریم ہال میں کیا جو اس نوعیت کا پہلا ٹھوس اور عملی سیمینار نظر آیا کہ جس میں بہترین مقام اور محل وقوع پر معاملے کے اصل فریقوں کو اکٹھا کر کے ایک دوسرے کا موقف سننے، سمجھنے اور مسئلے کا حل پیش کرنے کی جانب پیشرفت کا آغاز کیا گیا۔ ہائیکورٹ بار کی لیگل کمیٹی کی چیئرپرسن محترمہ سیدہ عظمیٰ گیلانی ایڈووکیٹ تمام انتظامات کی نگرانی کر رہی تھیں۔ جبکہ مولانا زاہد الراشدی کی قیادت میں مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر، قاری عبید اللہ عامر اور قاری محمد عثمان رمضان پر مشتمل وفد لاہور سے آیا جن کے ساتھ اسلام آباد سے مولانا محمد ثناء اللہ غالب اور راقم الحروف شامل ہوئے اور یونیورسٹی کے مین ہال میں پہنچے۔

فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی بقول منتظمین خواتین کی پہلی یونیورسٹی تھی جو صرف طالبات کی اعلیٰ تعلیم کے لیے قائم ہوئی اور ہماری یہاں حاضری بھی پہلی مرتبہ ایسے وقت ہوئی کہ چھٹی کا وقت تھا اور طالبان بھی حیران تھیں کہ وہاں کے ماحول کے برعکس علماء حضرات کیسے پہنچ گئے ہیں۔

مرکزی ہال میں پہنچے تو پہلے سیشن کی کاروائی جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کی زیرصدارت خاتمے کے قریب تھی اور سیمینار کا عمومی ماحول سنجیدہ، پروقار اور سیکھنے سکھانے پر مشتمل معلوم ہوا۔ نماز ظہر کا وقفہ کیا گیا اور مہمان شخصیات کی ضیافت پُرتکلف کھانوں سے کی گئی اور دو بجے آخری نشست کا آغاز ہوا جو مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت رہی۔ اس آخری نشست میں لاء سیکرٹری جناب بیرسٹر ظفر اللہ، ویمن یونیورسٹی کی متعدد خواتین اساتذہ، نوجوان وکلاء اور علماء کرام میں سے مولانا محمد ثناء اللہ غالب اور راقم الحروف نے بھی اظہار خیال کیا۔ ان تمام شخصیات کی گفتگو میں ایک دردِ دل، مسئلے کی حساسیت کا شدید احساس اور اس کے اسباب و وجوہ کی تعیین شامل تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ہمارے جدید تعلیمی اداروں میں بھی ان چیزوں پر گہری سوچ رکھنے والی خواتین اساتذہ موجود ہیں۔

اس نشست میں کلیدی خطاب مولانا زاہد الراشدی کا تھا جس میں انہوں نے اس معاملے سمیت سوسائٹی کے تمام مسائل و مشکلات کا حل مل جل کر افہام و تفہیم کے ماحول ہی کے ذریعے ممکن بتایا۔ اور فرمایا کہ ہمارے بیشتر قانونی مسائل صرف اس وجہ سے پیدا ہوئے اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ علماء کرام، قانون ساز اداروں، کمیٹیوں اور ان سے منسلک وکلاء اور ججز کے درمیان ایک خلیج حائل ہے، جو بعض قوتوں کی خواہش بھی ہے، ہمیں اس کو ختم کر کے روابط کو مستحکم کرنا ہو گا۔ ان تمہیدی کلمات کے بعد انہوں نے سیمینار میں کلیدی کردار ادا کرنے والی خاتون شخصیت سیدہ عظمیٰ گیلانی ایڈووکیٹ کو، جو بار کی لیگل کمیٹی کی چیئرپرسن ہیں، اس کام کی پرزور تحسین کے ساتھ یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ اس محنت کی سرپرستی مسلسل جاری رکھیں گے۔ اور پھر متعلقہ موضوع پر نہایت شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی اور مشرق کے خاندانی نظام کے ادارے کو برقرار رکھنے، مضبوط کرنے اور اس میں داخل ہو جانے والی مشکلات و مسائل کا گہرا تجزیہ فرمایا اور فیملی قوانین اور مذہب سے وابستہ تمام قوانین و ضوابط پر بین الاقوامی دباؤ اور معاہدات کو بھی مسائل کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جس کی جانب توجہ کی ضرورت ہے۔

پروگرام کی تکمیل پر معزز مہمانان گرامی کا منتظمین کی جانب سے پرزور انداز میں شکریہ ادا کیا گیا اور ان میں شیلڈز کی تقسیم کے بعد فوٹو سیشن ہوا۔ مجموعی تاثر ہر ایک کا نہایت امید افزا رہا اور ہال میں موجود طالبات کی کثیر تعداد نہایت سنجیدگی، پروقار انداز اور توجہ و دھیان سے خصوصی دلچسپی کا اظہار کرتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اور یہ نہایت حوصلہ افزا بات سامنے آئی کہ مذہب اور اہل مذہب کے خلاف شدید منفی پروپیگنڈے کے باوجود علم و تحقیق کی بنیاد پر ٹھوس بات اگر مرتب انداز میں سلیقہ مندی کے ساتھ پیش کی جائے تو سننے والے لوگ ہر طبقے میں موجود ہیں۔ اور اہلِ دین اور تربیت کے عمل سے وابستہ افراد و شخصیات کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ محض مفروضوں اور غیر حقیقی تاثرات کی بنا پر معاشرے کے ان تمام طبقات سے لاتعلقی اختیار کر کے اپنا دائرہ مختصر ، محدود نہ کریں بلکہ نہایت وسعتِ خیال کے ساتھ خود پر مکمل اعتماد رکھتے ہوئے سیکھنے اور سکھانے کے اس سفر کو جاری و ساری رکھیں۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter